کون دے گا اذان بلالی؟

0
0

جرات بیاں
محمد ساجد احمد
تدریس:میرای اپنی رائے ہے کہ ٹاٹ پٹی ،قالین پر بیٹھ کر پڑھنے سے عزت نفس کو کو ئی خطر نہیں ہے اور نہ ہی کسی کی شان میں گرانی کا سبب بھی ہوگا ،بلکہ یہ کہ کرسی پر بیٹھ تعلیم و تعلم میں مسائل ہوسکتے ہیں کہ کتابوں کا کمال ادب ملحوظ خاطر نہیں رکھ پاتے ہیں،اس کااندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کتابوں کے حوالے سے مدارس کے طلبہ جتنے حساس اور بہ ادب ہوتے ہیں اس کے ۷۲؍ویں درجہ میں بھی کالج اور اسکولس کے طلبہ کتابوں کے حوالے سے نہیں ہوتے ہیں ، اس لیے مدارس کی ٹاٹ پٹیوں اور قالینوں کو دقیانوسی نہ کہا جائے بل کہ یہی بہتر ہے ،اب رہا طریقہ تدریس کا مسئلہ،کہ موجودہ طریقہ تدریس موثر کیوں نہیں ہے ؟ہمارے یہاں تدریس کے لیے چند چیزیں روایتی طور پر منتقل ہوتی آ رہی ہیں،۱۔طلبہ سے عبارت (ٹیکسٹ)پڑھانا،۲۔استا کا خود عبارت پڑھ کر ترجمہ باللفظ یا بالمعنی کر دینا ،۳۔ماحضر درس کی مختصر توضیح جس میں عام طور سے ترجمہ کو ہی گھما پھرا کر پیش کر دیا جاتا ہے ۔قریب قریب تمام کتابوں کے ساتھ یہی رویہ اپنایا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا تمام فنون کی کتابیں اسی طریقہ کا متقاضی ہیں ؟جیسے کہ فن حدیث میں آپ ”ترمذی شریف “پڑھا رہے ہیں ؟یہ کتاب چاہتی یہ ہے کہ پڑھانے والا ماسبق تینوں اجزاء کے علاوہ کے،۱۔تطبیق حدیث،۲۔حدیث سے مسائل کے استنباط،۳۔ناسخ ومنسوخ کی تمیز ،۴۔حدیث کی استنادی حیثیت سے واقفیت،۵۔حدیث میں موجود رجال پر کم از کم اتنا کلام کر سکے کہ علماے رجال میں سے فلاں صاحب نے اس بندے(راوی)کی یہ حیثیت(ثقہ ،ضعیف وغیرہ )مانا ہے ،۶۔کتب رجال میں یہ بھی رعایت کرنے کا متحمل ہو کہ راویوں پر کلام کرنے والا مصنف خود بھی ثقہ ہے کہ نہیں ورنہ ناصر الدین البانی جیسے سر پھرے لوگوں کی اس دور میں کہاں کمی ہے ،۷۔اختلافی مسائل میں مثلا رفع یدین پر احادیث ہیں اور عدم رفع یدین پر بھی احادیث ہیں تو اس طرح کے عنوانات پر طلبہ کے سامنے صرف روایتی تطبیق ہی نہیں بل کہ اپنے مخالف کی دلیل کا جواب کیسے دینا ہے اور اپنی تائید کی حادیث میں طریقہ استدلال کیا ہوگا ،خوب بہتر طریقہ سے سمجھا نے کا مادہ رکھتا ہو،نیز اس طرح کے مسائل میں حدیث شریف سے یا کسی اور نص سے دلیل کس کی معتبر مانی جائے گی اس کا بھی علم ہو،کہیں ایسا نہ ہو وہابیہ اسی ترمذی کی حدیث رفع یدین پر پیش کر یں اور یہ کہیں کہ یہ امام شافعی کا مذہب ہے اور حدیث میں بھی ہے،پھر تو جواب نہیں بن پڑے گی جس سے منہ کی کھانی پڑے گی اور اس کا عوامی سطح پر کتنا نقصان ہے اس کو بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔
کتب فقہ:قانون شریعت سے لے کر ہدایہ شریف تک فقہ کی کتابیں پڑھتے پڑھاتے ہیں لیکن اس سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ نور الایضاح سے لے کر ہدایہ تک ”کتاب الطہارت“اور ”کتاب النکاح “کے ابواب خوب پڑھاے جاتے ہیں،بہت اچھی بات ہے لیکن چند چیزیں مزید معلوم ہونا ضروری ہوتا ۔۱۔جس کتاب کو آپ پڑھا رہے ہیں یہ صرف ایسے ہی روایتی پڑھا رہے ہیں یا کوئی مقصد ہے اگر مقصد ہے تو صاحب پہلے اس کتاب کی حیثیت کا تعین کریں کہ یہ کتاب ثقت کے کس درجہ میں ہے؟۲۔مسائل میں استدلال کرتے وقت اس کتاب کا حوالہ معتبر ہوگا یا نہیں ؟فتاوی جات میں اس کا حوالہ یا اس کتاب کی عبارت کو بہ طور جزیہ پیش کرکے حکم لگا دیا جاے گا ،۳۔اس کتاب کا حاشیہ صرف پڑھنے کے لیے حاشیہ ہے یا متن کی طرح اس کی بھی کوئی حیثیت استدلال ہے ؟مخالفین کا اعتراضات ان کتابوں پر کیوں اور کیا ہیں ،اس کا جواب کیا ہوگا ؟ اب پڑھنے کی طرف بڑھیں تو عبارت خوانی ،ترجمہ اور مختصر توضیح کے علاوہ ،۱۔مسئلہ مبحوث عنہا میں ائمہ مجتہدین فی الاصول کا مذہب کیا ہے ،۲۔ائمہ مجتہدین فی المسائل کے موقف کیا ہیں ،یوں ہی ہر ایک کے دلائل کیا ہیں ،جواز یا عدم جواز کے اسباب وعلل کیا ہیں ؟۳۔مجتہد فی الاصول اور مجتہد فی المذہب کے درمیان اختلاف کے کے اسباب کیا ہیں ؟فتوی کس کے قول پر ہے ،کسی مسئلہ میں مان لیں کہ فقہائے زمانہ نے دونوں درجہ کے ائمہ سے عدول کیا ہو تو اس کے اسباب وعلل کیا ہوسکتے ہیں ،۴۔فقہا جب اپنی کتابوں میں ”عموم بلویٰ ،ضرورتا،اباحۃ “کے الفاظ استعمال فرماتے ہیں تو ان الفاظ و اصطلاحات کا معنی اور دائرہ کیا ہے ،عموم بلوی ٰ کب کیسے ہوگا اور اس میں کس طبقہ کا اعتبار کیا جائے گا،یوں ہی کن مسائل میں عموم بلویٰ معتبر ہوگا ،ایسے ہی ضرورت واباحت وغیرہ میں ۔۵۔مصنف کے اشاریہ کی توضیح بھی ہو نہیں تو پتہ چلے کہ فارغ ہوجانے کے بعد بھی ”در“،”رد“،”بحر“،”نہر“،”۱۲“ بھی نہیں معلوم ہے جب حوالے میں مذکورہ لفظ استعمال کیے جائیں تو”موتی،تردید،سمندر،اور نہر“ہی سمجھ بیٹھیں، اس کے علاوہ اور بھی جو اشاریہ مصنف اپنے طریقہ سے استعمال کرتے ہیں اس کا علم ہونا،۶۔بار بار ابواب کا دہرانے میں وقت ضائع نہ کرنا ہی عافیت کا راستہ ہے ۔
کتب تفاسیر:انتہائی حساس فن”تفسیر“ ہے ،اس باب میں آپ کو بھی خوب معلوم ہے قرآن کریم کے معانی ومفاہیم میں کو واضح کیا جاتا ہے ،اس فن میں بڑی کتابوں میں کئی ایک آپ کو ایسی مل جائیں گی جو اسرائلی روایات کی ماں ہیں،کئی ایسی ہیں جو منشائے قرانی کی باغی ہیں ،اس میں بھی کوئی شبہہ نہیں ہے ”تفسیر الجلالین“جیسی تفسیری کتب کا اہم کردار ہے ہمارے ایمان کے تحفظ میں ،اس باب میں بھی ہمارے اساتذہ کو ۔۱۔ناسخ ومنسوخ ،۲۔اقسام آیات،۳۔آیات سے اعتقادیات پر استدلال،۴۔زمانہ واسباب نزول کیا ہیں؟۵۔کن کتب تفاسیر کو پڑھنا ہےاور کن سے استدلال کرنا ہے ان تمام کی رعایت بھی ضروری ہے ،اور اس فن میں تو توضیح و تشریح بھی بہت ہی محتاط انداز میں ہوں ورنہ تعلیم وتعلم میں تو خطا معاف ہے لیکن یاد رہے کہ آپ کی توضیحی خطا کہیں کسی طالب علم کے ذہن میں رہ گئی اور اس کے ایمان کا دیوالیہ ہوجاے گا تومرتا تھا جن کے لیے رہ گیے وضو کرتے والا حساب کتاب ہوسکتا ہے۔خیر یہ ایک محتاط پہلو ہے ۔
کتب ادب:یہ معلوم ہی ہے کہ مصنف کے قلم سے اس کی فکر بولتی ہے اس کا مذہب ومسلک کہیں نہ کہیں اشارۃ ،کنایۃ ہی سہی بولتا ہے اور بچوں کا یقین صد فی صد پڑھی ہوئی کتابوں پر عموما دیکھا جاتا ہے لہذا کتب ادب میں اساتذہ کو چند چیزوں کی رعایت کرنا چاہیے۔۱:مصنف اعتقادی اور فکری اعتبار سے کیا ہے ؟نہیں تو جانتے ہی ہوں گے کہ ”مختارات من ادب العرب“ندوی کی ،”تاریخ ادب العربی “احمد حسن زیات کی ،ثانی الذکر نے تو کذب وافترا کی حدیں پار کردی ہے ،ادبی کتابوں میں امام اعظم پر الزام لگاتا پھرا ہے کہ آپ کو صرف ۱۷؍ احادیث یاد تھیں ۔اب کتاب پڑھتے ہیں :کتاب میں چند چیزیں توجہ طلب ہیں :۱۔عبارت کی ترکیب؟،۲۔الفاظ کے مادہ اشتقاق،۳۔متعدد معانی الفاظ میں کسی ایک معنی کے تعین کرنے کے اسبا ب ،۴۔صلات کی رعایت ،۵۔جس زبان کا ادب ہے اس زبان کے نشیب وفراز کا علم ،۶۔تکلم،۷۔تحدث،۸۔قلم کلامی،۹۔محاورات وضرب الامثال ،۱۰۔خطاب،ان چیزوں کی رعایت بھی ہونا ضروری ہے نہیں تو اردو تراجم سے دیکھ کر ترجمہ کرنے میں وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ نصاب سے ہی بر طرف کردی جائیں !
کتب تاریخ:اس عنوان پر کتابیں عموما داخل خارجی مطالعہ ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی ذمہ دارکے زیر نگرانی ہوتی ہیں ،مزے کی بات یہ ہے ہم امتحان بھی دے لیتے ہیں نگراں صرف امتحان کے موقع پر پوچھتے ہیں کہ کتنا امتحان میں داخل کردیں !سب سے زیادہ تو رونا اس بات کو لے کر ہے کہ اس فن کا بندہ ہمارے اداروں میں عنقا کا ہم زاد ہے اس لیے ہماری تاریخ بھی کمال کی
انھیں سارے اسباب وعلل نے تاریخ کے صفحات پر ہماری نظروں کے سامنے ،علامہ فضل حق خیرآبادی کو ظالم ،سلطان محمد محمود غوری کو ڈاکو،ٹیپو سلطان کو غدار وطن بنا دیا ،اسماعیل دہلوی جیسے اوباش اور اصل غداران وطن کو جنگ آزادی کا ہیرو بنایا گیا ۔ہمیں اس عنوان پر مل بیٹھ کر ایک لائحہ عمل تیار کرکے اپنے مدارس میں نافذ کرنا پڑے گا ورنہ وہ دن دور نہیں کہ کل چھتہ والی مسجد سنیوں کی تھی اور آج دیوبندیوں کی ،تحریک ندوہ کے بانی سنی لیکن آج دشمنان اسلام غالب ،دہلی کی جامع مسجد اور لکھنو کا فرنگی محل ہمارے تھے لیکن آج ۔۔۔۔کہیں ایسا نہ وہ یہ عالی شان ادارے آج ہمارے ہیں اور کل ۔۔۔۔۔۔خدا نہ کرے ایسا ہو ۔
واضح رہے کہ میں سطحی توسیعی خطابی انداز تدریس کا قائل نہیں جو کہ آج کل عصریات میں رائج ہیں ۔
[email protected]

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا