کرونا بحران: مدارس کے نظما اور مظلوم اساتذہ :

0
0

محمد مجیب احمد فیضی ,بلرام پوری۔
ای میل:[email protected]
رابطہ نمبر: 8115775932
مہلک "کرونا نامی ” چینی وبا اور اسی کے چلتے لاک ڈاؤن نے پوری دنیا کے مختلف شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد کو حیران وپریشان کر کے بنی آدم کو بربادی کےکگار پر لا کر کھڑاکر دیا۔جس کے چلتے زندگی تھم سی گئ ایسا معلوم ہوتا۔ہمارے اپنے ہی سماج اور معاشرے میں کچھ لوگ اس سے کچھ زیادہ ہی متاثر نظر آ رہے ہیں۔غریبوں, مزدوروں کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ہیں ,جو ہمارے اسی سماج معاشرے کا ایک اٹوٹ حصہ ہیں۔ جنہیں نہ ہم اپنے سماج سے الگ دیکھتے ہیں, اور نہ اپنے معاشرے سے ,بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سماجی معاشرتی ماحول بنانے اور انہیں سدھارنے میں ان کا بھی ایک اہم رول اور ھاتھ ہوتا ہے۔ جنہیں ان دنوں کرونا کے توسط سے لاک ڈاؤن کے چلتے بہت زیادہ تکالیف ومشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ طبقہ معاشرے کے خواص لوگوں کا ہے۔ان مخلصین کا ہے جنہیں شریعت کی بولی میں خدام دین کہاجاتا ہے۔وہ طبقہ علماء کا ہے جن کی تنخواہیں یومیہ مزدوری کرنے والوں سے بھی کہیں کم ہوتی ہیں, لیکن یہ طبقہ کبھی بھی تنخواہ کو لے کر احتجاج نہیں کرتا اور ناہی بھوک ہڑتال۔یہ طبقہ ان دنوں کن حالات سے دوچار ہو رہا ہے کسی کو خبر نہیں۔کرونا وائرس کے چلتے لاک ڈاؤن نے لوگوں کی زندگیاں بدل دیں ہیں ,اس کا احساس تو سب کو ہے اور ہونا بھی چاہئیے ۔لیکن اس سے شدید متاثر طبقہ آج کل بھکمری اور فاقہ کشی جیسے تباہ کن حالات سے گزرنے پر مجبور ہے۔ان دنوں اس طبقے کی حالت انتہائ افسوس ناک بنی ہوئ ہے۔امت مسلمہ کو اس پر غوروخوض کر نا چاہئیے۔اتنے کم مشاہرہ میں خود مع اہل وعیال خورد ونوش, علاج ومعالجہ’اور اس طرح کی دیگر ضروریات زندگی جن کے بغیر چارۂ کار نہیں ایسے میں یہ سوال ہے کہ اس طبقے کی زندگی بہتر کیسے ہو? اور جب ان کی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں ہوں گی توآپ خود اس کا فیصلہ اپنے ضمیر پر چھوڑ دیجئے کہ کیا وہ مذہبی اور دینی اداروں میں دین متین کی خدمت مکمل لگن اور یکسوئ سے کر پائیں گے? اور کیا یہ بات ممکن ہے کہ دینی اور مذہبی اداروں میں خدمت کرنے والے دین کے خدام پریشان ہوں اور دین متین کی قاعدے سے خدمت ہوتی رہے ? یہ آپ کی عدالت میں راقم الحروف ” کا ایک اہم سوال ہے جس کے جواب کا انتظار ان خدام دین کے تئیں مجھ کو فقط پرسوں اور نرسوں تک نہیں بلکہ برسوں تک رہے گا۔
اگر آپ کے دل کے کسی نہاں خانے سے جواب نفی میں آئے تو سمجھ جائیے گا کہ اس طبقے کو ناخوش کر کے ہماری خوشی بے معنی اور بیکار ہے۔
شہر کی گلیوں میں معاشی پریشانیوں کو لے کر یہ دین کے مقتداء مارے مارے پھریں تو کیا ہمارے مساجد ومدارس کو باصلاحیت ائمہ وطلبہ مل پائیں گے ? کیا انتہائ متانت وسنجیدگی کے ساتھ امت مسلمہ کو اس ٹاپک پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے? (covid 9) کے چلتے کیا ملک وملت کا یہ قابل رحم طبقہ ہماری توجہ کا محتاج نہیں ہے?کیا مالی اعتبار سے مضبوط اور آسودہ مسلمانوں کو اس پہلو پر غور وخوض کرنے کی ضرورت نہیں ہے? کیا سماج کے ذی شعوروں کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں? تقریبا پانچ مہینوں سے زائد ہوگئے لاک ڈاؤن کے نفاذ کو اور آگے کتنا بڑھے کسی کو کیا پتہ آمدنی کا سلسلہ بھی مسدود ومفقودہے لیکن خرچ تو رکنے والا نہیں۔پھر یہ طبقہ ان حالات کا سامنا کیسے کر پائے گا ?ان کے متعلق مختلف علاقوں سے جو خبریں موصول ہو رہی ہیں وہ اپنے آپ میں بڑی تشویشناک اور افسوس ناک ہیں۔اس ڈیپارٹ کا ایک بڑا طبقہ بھکمری اور فاقہ کشی کا مکمل شکار ہے۔اور ہاں یاد رہے! یہ پر یشانیاں بھارتیہ جنتا کی حکومت میں در پیش ہو رہا ہے)
اس کی وجہ یہ ہے کہ جن مذہبی اور دینی اداروں میں یہ حضرات خدمت کرتے تھے, ان کے اراکین نے غیر ذمہ دارانہ پہلو اختیار کرتے ہوئے اپنا تانہ شاہی فرمان جاری کردیا ,اور کہا کہ” جب تک لاک ڈاؤن مکمل طور پر ختم نہ ہو جائے کسی ملازم کو تنخواہ نہیں مل پائے گی”جبکہ بعض اداروں کے ظالم وجابر ضمہ داران نے تو ان حضرات کی ملازمت ہی ختم کردی ہے۔ ایسے میں ان کے ساتھ جو حالات پیش آرہے ہوں وہ اپنے میں ناقابل بیان ہے, اس کے الفاظ نہیں احساس کی ضرورت ہے,بعض اداروں نے نصف تنخواہیں دینے کا اعلان کیا ہے پھر بھی یہ غنیمت ہے۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول کا خوف اپنے دلوں میں رکھنے والے آج بھی کچھ مدارس ومساجد کے اراکین ایسے ہیں اگر چہ ان شریروں کے باالمقابل کم ہیں لیکن ان پر بھاری ہیں )جو اس لاک میں ایک دوسرے کا درد سمجھتے ہیں, ناہی انہوں نے کسی کی ملازمت ختم کی ہے, اور ناہی آدھی تنخواہ دینے کا اعلان, بلکہ ان کا ماننا ہے کہ اگر ہم اپنے اسٹاف کے ایسے میں بھی کام نہیں آیئں تو پھر کب آئیں گے اس لئے انہوں باہم اتفاق رائے سے اپنے ادارہ کے مکمل اسٹاف کو کبیدہ خاطر نہ ہونے دیا اور مکمل مشاہرہ اس لاک ڈاؤن میں بھی دیتے رہے۔ اب ایسے لوگوں کے لئے دعائیں نہیں تو کیا نکلیں گی رب تعالی کے فضل وکرم سے ان کا یہ اتنا اچھا قدم ہے جو اغیار کے لئے لائق تحسین کے ساتھ قابل تقلید ہو نا چاہئیے ۔ اور جن اداروں نے ملازمت ختم کردی ہے یا تنخواہیں دینے سے انکار کیا ہے کیا اس طرح کا غیر مناسب اور غیر ذمہ دارانہ فیصلہ منصفانہ ہے? جبکہ اس مطلب پرستی کے دور میں انسان کا سب سے بڑا اور سب سے اہم مسئلہ معاشی پریشانیوں کاحل ہے۔اگر یہ پریشانی حل ہوجائے تو ہر پریشانی حل ہوجائے گی۔ویسے تو ہردور میں اہل حق آزمائش میں مبتلاء ہوئے ہیں۔ایسے ہی دینی خدام اور مذہبی حضرات آج کل جن مشکلات کاسامنا کر رہے ہیں بہرحال یہ بڑی آزمائش ہے, ایسے میں ہمیں آپ سب کو صبر کے مضبوط دامن سےوابستہ ہونا چاہئیے۔اور رب تعالی سے ثابت قدمی کی دعا کرنی چاہئیے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ علماءکرام کو مساجد ومدارس چھوڑ کر ذریعۂ معاش کی بہتری کے لئے تجارت وغیرہ کیوں نہیں کرلیتے معمولی تنخواہ پر بےکسی و بے بسی سی زندگی گزارنے سے بہتر ہے۔بلا وجہ جاہل نظماء کی غلامی اور جاہل اراکین کی غلامی ,جنہیں بات کرنے کاسلیقہ نہیں وہ بھی حکومت کرنے کے خواستگارہو تے ہیں ,جنہوں نے کبھی کسی کو ڈانٹ نہ لگائ ہو اقتدار پانے کے بعد ضرب کاری کے لئے ہمیشہ کوشاں نظر آتے ہیں۔لیکن ان معترضین کی نظر شاید اس اہم پہلو پر نہیں ہے کہ اگر سارے علماء یہی سوچ لیں اور مدارس ومساجد سے اپنا رخ پھیرکر کوئ کام, دھام محنت, مشقت, تجارت ,شروع کردیں, تو قوم مساجد کے لئے لائق فائق اور قابل امام اور مدارس ,اسلامی نانہالوں کے لئے باصلاحیت موقر اساتذہ کھو دے گی جواپنے بچوں کو بغیر موسم کی پرواہ کئے ہوئے خون جگر پلا پلاکے پڑھاتا ہے۔اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جس دن اس دور کے علماء خدمت دین کے ساتھ تجارت یا رزق حلال کمانے کے طریقے اختیار کرلیں گے اس دن سے مساجد ومدارس کے جاہل نظماء کی دادا گیری اور غنڈہ گردی مظلوم اساتذہ پر ختم اور پامال ہو جائے گی۔
میں اپنی اس تحریر سے مدارس ومساجد کے ان اراکین کو ایک اسلامی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جب اس طرح کے مواقع آجائیں تو بجائے اساتذہ کی ملازمت ختم کرنے کے, ان کی تنخواہیں بند کرنے کی انتہائ خوشدلی کے اور فراخ دلی کا مظلوم اساتذہ, ائمہ کے ساتھ مظاہرہ کرنا چاہئیے۔کم ازکم مذہبی دینی اداروں میں تعلیم دینے والے اساتذہ کی اتنی تنخواہیں تو ہونی ہی چاہئیے جس سے ان کی ضروریات زندگی پوری ہوسکے۔جب وہ آسودہ رہیں گے تو دوسرے کی دہلیز پر انہیں جانے کی باالکل ضرورت نہیں پڑے گی۔کسی موقع پر کسی شاعر نے بڑے اچھے انداز میں کہا تھا:
خالی ہے پیٹ تو انسان ڈگمگاتا ہے
بھرا ہے پیٹ تو سنسار جگمگاتا ہے
جب آپ اپنے ہی ادارے میں خدمت کرنے والے اساتذہ کی پیٹ نہیں بھر پائیں گے تو خود فیصلہ کریں وہ ایک بھوکا استاذ اپنے اندر کتنا خلوص پیدا کر سکتا ہے۔کتنا ہی اچھا اور لگن سے وہ کام کرے لیکن پیٹ میں لگی بھوک کی آگ اس کو غیروں کی جانب جانے پر مجبور کر دے گی۔
رب تعالی کی بارگاہ بےکس پناہ میں دعاء ہے کہ مولی مدارس کے اراکین کو مظلوم اساتذہ کی صحیح خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور علماء کو دین متین کی خلوص وللہیت کے ساتھ خدمت کی توفیق بخشے۔۔۔۔آمین ۔۔۔یارب العلمین۔۔۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا