پرنب مکھرجی: وکالت، صحافت اور سیاست سے صدارت تک کا سفر

0
0

یواین آئی

نئی دہلی؍؍سابق صدرجمہوریہ ہند پرنب مکھرجی جو آج 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، مغربی بنگال کے ضلع ویربھوم میں کرناہر شہر کے قریب واقع مراتی گائوں کے ایک برہمن خاندان میں کامدا کنکر مکھرجی اورراج لکشمی مکھرجی کے یہاں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ماجد 1920 میں کانگریس پارٹی میں سرگرم ہونے کے ساتھ مغربی بنگال اسمبلی میں 1952 سے 1964 تک رکن اور ویربھوم (مغربی بنگال) ضلع کانگریس کمیٹی کے صدر رہ چکے تھے۔ ان کے والد ایک معزز مجاہد آزادی تھے، جنہوں نے برطانوی اقتدار کی مخالفت کے نتیجے میں دس سال سے زیادہ جیل کی سزا بھی کاٹی تھی۔پرنب مکھرجی نے ویربھوم کے ودیاساگر کالج میں تعلیم حاصل کی جو اس زمانے میں کلکتہ یونیورسٹی سے منسلک تھا۔13 جولائی 1957 میں سروا مکھرجی سے ان کی شادی ہوئی۔ ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ پڑھنا لکھنا، باغبانی کرنا اور موسیقی ان کے شوق تھے۔ مکھرجی کہتے تھے کہ’’بنگال کے ایک چھوٹے سے گائوں میں دیپک کی روشنی سے دہلی کی جگمگاتی روشنی تک کے اس دورے کے دوران میں نے بڑے اور کچھ حد تک ناقابل اعتماد تبدیلیاں دیکھی ہیں‘‘۔ملک کے 13 ویں صدر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد اپنی تقریر میں پرنب مکھرجی نے کہا تھا کہ اس وقت میں بچہ تھا، جب بنگال میں قحط نے لاکھوں لوگوں کو مار ڈالا تھا۔ وہ درد اور دکھ میں بھولا نہیں ہوں۔اسکول جانے کے لیے اکثر دریا تیر کر پار کرنے والے پرنب نے زمین سے اٹھ کر کئی مقام حاصل کئے اوربالآخر ملک کے سپریم شہری بن گئے۔ اقتدار کے ایوانوں میں انہیں نقص گیر کہا جاتا تھا۔ کچھ وقت کے لیے پرنب دا نے وکالت بھی کی اور اس کے ساتھ ہی صحافت اور تعلیم کے علاقے میں بھی کچھ وقت گزرا۔ اس کے بعد ان کا سیاسی سفر شروع ہوا۔سیاست میں پرنب مکھرجی کا پہلا عملی قدم 1969 میں اس وقت پڑا جب انہیں راجیہ سبھا کے لیے منتخب کیا گیا۔ سیاسی زندگی میں تقریباً 35 سال بعد انہوں نے پہلی بار لوک سبھا کا رخ کیا اور 2004 میں مغربی بنگال کے جنگی پور پارلیمانی حلقہ سے منتخب ہوئے۔ پرنب دا کئی مرتبہ وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے۔ اس اہم عہدے پر نہ ہوتے ہوئے بھی بحران کے وقت سب لوگ ان کی طرف ہی دیکھتے تھے۔ ۰۸۹۱ کی دہائی میں وزیر اعظم کے عہدے کی حسرت نیانہیں کانگریس سے الگ کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنی ایک نئی پارٹی بنائی لیکن جلد ہی وہ دوبارہ کانگریس کا حصہ بنے اور نئی سیاسی بلندیوں کا سفر کیا۔مسٹرپی وی نرسمہا راؤ نے 1991 میں انہیں وزیر خارجہ بنانے کے ساتھ ہی منصوبہ بندی کمیشن کا نائب صدر کا عہدہ دیا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں وہ وزیر دفاع اور وزیر خارجہ وزیر خزانہ کے عہدوں پر رہے۔معیشت ، داخلی اور خارجی امور پر گہری نظر رکھنے والے پرنب مکھرجی سیاست کی ہر کروٹ کو بخوبی سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ان کی پارٹی اور موجودہ یو پی اے حکومت پر مصیبت آئی تو وہ سب سے آگے نظر آئے۔ کئی بار تو ایسا لگا کہ حکومت کی ہر مرض کی دوا پرنب دا ہی کے پاس ہے۔گزشتہ 26 جون کو وزیر خزانہ کے عہدے سے پرنب کے استعفی دینے کے فورا بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ نے انہیں خط لکھ کر حکومت میں ان کی خدمات کے لیے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ ان کی کمی حکومت میں ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ حکومت کے وزراء نے بھی ان کی کمی محسوس کی بات کہی۔سیاست کے ایوانوں میں اپنے فن کا لوہا منوانے کے بعد پرنب مکھر جی ملک کے سب سے اعلیٰ آئینی عہدے پر فائز کئے گئے۔آنجہانی پرنب مکھرجی کا پارلیمانی کیریئر تقریباً پانچ دہائیوں پر محیط ہے، جو 1969 میں کانگریس پارٹی کے راجیہ سبھا رکن کے طور پر شروع ہوا اور وہ 1975، 1981، 1993 اور 1999 میں پھر سے منتخب ہوئے۔ 1973 میں وہ صنعتی ترقی محکمہ کے مرکزی نائب وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل ہوئے۔ وہ 1982 سے 1984 تک کئی کابینہ عہدوں کے لیے منتخب کیے جاتے رہے اور اور 1984 میں ہندستان کے وزیر خزانہ بنے۔ 1984 میں انہوں نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے منسلک گروپ 24 کے اجلاس کی صدارت کی۔مئی اور نومبر 1995 کے درمیان میں انہوں نے سارک وزیر کونسل کانفرنس کی صدارت کی۔24 اکتوبر 2006 کو انہیں بھارت کا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ ڈاکٹرمنموہن سنگھ کی دوسری حکومت میں وہ وزیر خزانہ بنے، جس عہدہ پر وہ پہلے 1980 کی دہائی میں کام کر چکے تھے۔ 6 جولائی، 2009 کو انہوں نے حکومت کا سالانہ بجٹ پیش کیا۔ اس میں انہوں نے فرنج بینیفٹ ٹیکس اور کموڈٹیز ٹرانسکشن کر کو ہٹانے سمیت کئی طرح کے ٹیکس اصلاحات کا اعلان کیا۔ 1980–1985 کے دوران میں وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں انہوں نے مرکزی کابینہ کی میٹنگوں کی صدارت کی۔نیو یارک سے شائع میگزین، یورومنی کے ایک سروے کے مطابق، انہیں سال 1984 کے لئے دنیا کے بہترین پانچ وزراء خزانہ میں سے ایک قرار دیا گیا۔ انہیں 1997 میں سب سے بہترین ممبر پارلیمنٹ کا ایوارڈ ملا۔2008 میں انہیں عوامی معاملات میں ان کی خدمات کے لیے پدم بھوشن سے نوازا گیاتھا۔

پرنب مکھرجی ہندوستانی سیاست 6دہائیوں تک چھائے رہے
کلکتہ؍؍سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے انتقال کے ساتھ ہی ہندوستانی سیاست کی ایک اہم با ب ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔اپنے چھ دہائیوں کے طویل سیاسی کیریئر میں وہ آل انڈیا کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما تھے اور مختلف وقتوں میں حکومت ہند میں متعدد اہم وزارتوں کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔25 جولائی 2012 کو پرنب مکھرجی نے ہندوستان کے تیرہویں صدر کا عہدہ سنبھالا۔ 2012 کے صدارتی انتخابات سے قبل، پرنب مکھرجی حکومت ہند کے وزیر خزانہ تھے۔ جب بھی کانگریس میں جب اختلافات اور تنازع ہوتا تھا تو تو پرنب مکھرجی ہی سامنے آکر اس کو حل کرتے تھے۔انہیں سنگٹ منیجر کے طور پر جانا جاتا تھا۔1969میں سابق وزیر اعظم اندراگاندھی کااعتماد حاصل کرتے ہوئے وہ پہلی مرتبہ راجیہ سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔اس کے بعد انہوں نے کبھی بھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔کانگریس نے ایک کے بعد ایک ذمہ داری دیتے چلی گئی اور وہ پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض کو نبھاتے تھے چلے گئے۔اندرا گاندھی کے ایک وفادار ساتھی کے طور پر جانے لگے۔ 1973 میں انہیں اندرا گاندھی کی کابینہ میں نشست ملی۔ 1985، 1981، 1993 اور 1999 میں راجیہ سبھا کے لئے بھی منتخب ہوئے تھے۔1982–84کے درمیان وہ وزیر خزانہ تھے۔ پرنب مکھرجی مختلف وقتوں پر ہندوستان میں متعدد اہم وزارتوں کے فرائض انجام دے چکے ہیں، جن میں امور خارجہ، دفاع، مواصلات اور محصول شامل ہیں۔مختلف اہم خارجہ تعلقات میں پرنب مکھرجی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ہند۔امریکی سول جوہری معاہدے پر دستخط میں بھی پرنب مکھرجی کاکلیدی کردار تھا۔پارٹی سے وفاداری اور دانشمندی سے بنگالی سیاستدان کی کانگریس پارٹی اور پارٹی کے باہر بھی خاص عزت و مقام حاصل تھا۔ہندوستانی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے انہیں ہندوستان کا سب سے اعلی شہری ایوارڈبھارت رتن، پدم بھوشن، اور بہترین ممبر آف پارلیمنٹ کا ایوارڈمل چکا تھا۔10 اگست کو پرنب بابو کو دہلی کے آرمی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ اس کے دماغ میں خون جم گیا تھا۔اسپتال میں داخل ہوتے وقت کورونا رپورٹ بھی مثبت آئی تھی۔ وہ سرجری کے بعد سے ہی وینٹی لیشن پر تھے۔ سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی 22 دن تک اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش کے بعد آج سہ پہر ان کا انتقال ہوگیا ہے۔بیرون ممالک میں پرنب مکھرجی کو بہت سارے اعزازات اور ایوارڈز مل چکے ہیں۔ 1984 میں پرنب مکھرجی کو یوروانی نے دنیا کا بہترین وزیر خزانہ نامزد کیا تھا۔ 2010 میں، انہیں ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے روزنامہ ایمرجنگ مارکیٹس نے ایشیا کا سب سے بہترین وزیر خزانہ کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔پرنب مکھرجی کو 2006 میں ملک کے لئے نمایاں کامیابیوں پر ہندوستان کا دوسرا اعلی شہری اعزاز، پدم وبھوشن سے نوازا گیا تھا۔ 2011 میں، یونیورسٹی آف ولور ہیمپٹن نے انہیں ڈاکٹر آف لیٹرز کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ 2012 میں، آسام یونیورسٹی اور ویسویشوریا یونیورسٹی آف ٹکنالوجی کی جانب سے ڈی لیٹ کی ڈگری سے نوازا گیا تھا۔2013 میں پرنب مکھرجی کو بنگلہ دیش کا دوسرا اعلی سول ایوارڈ ’’بنگلہ دیش لبریشن جنگ ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا تھا۔ 2013 میں انہیں ماریشیس یونیورسٹی نے ڈاکٹر آف لاء کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ 2019 میں پرنب مکھرجی کو ہندوستان کا سب سے اعلی اعزاز بھارت رتن سے نوازا گیا تھا۔2008 میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے پرنب مکھرجی نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس سیکشن 123 کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور افریقی ترقیاتی بینک کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر رہ چکے ہیں۔1974 میں پرنب مکھرجی نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک سے وابستہ چوبیس گروپ کی صدارت کی تھی۔ انہوں نے مئی سے نومبر 1995 تک سارک کابینہ کانفرنس کی صدارت بھی کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا