چرارِ شریف :35کروڑ سے تعمیرخانقاہ کے بعض حصے فرش وفروش کے بغیر کیوں؟

0
0

وقف بورڈ کے غیر ذمہ دارانہ روئیے کی چوطرفہ تنقید،اُبھرتے سوالات وشبہات
غلام قادر بیدار

سرینگر؍؍یوں توضلع بڈگام میں تحصیل صدر مقام چرارشریف،آبادی،رقبہ اور جغرافیائی خطہ خال کے لحاذ میں سب سے بڑا ہے۔لیکن برصغیر کی مشہور و معروف روحانی شخصیت جناب حضرت شیخ العالمؒ،اور آپ کے برگذیدہ گیارہ بڑے خلیفوں کی آخری قیام گاہ یہیں پر واقعہ ہونے سے یہاں سال بھر بڑی تعداد میں زائیرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔جسکے لیے عالمی قواید وضبط کے تحت متعلقہ اداروں اور ضلع انتظامیہ کو انکے لئے ہر قسم کی سہولیات میسر رکھنا ضروری بنتا ہے چونکہ زیارت علمدار کشمیر اور ملحق خانقاہ شش بعقہ جات میں شامل اور کشمیر میں حضرت بلبل شاہ ؒاور خانقاہ معلی کے بعد تیسرے درجے پر تسلیم کیا گیا ہے ۔اس وجہ سے زیارت پر حاضری دینے کی غرض سے آ نے والے ہر ایک زائیر کو یہاں کسی بھی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہونے چاہیے تھی کیونکہ شیخ العالم وطن عزیز کی سرزمین سے براہ راست تعلق رکھنے والے اولین ولی مادر زاد قطب تھے جنہوں نے خطرناک صورت حال کے دوران کشمیر میں دین اسلام کی مشعل کو ہر گھر تک پہنچا دیا اور مقامی سطح پر دینی جماعت یعنی تحریک ریشیان کشمیر متعارف کرکے کشمیر میں دین اسلام کی اشاعت اور آ بیاری کے سلسلے میں باضابطہ مشن چلایا ہے ۔بیرونی دنیا میں شیخ العالم کی مقبولیت اور مشہوری کے وجوہات کے پس منظر دیکھا جائے تو واقعی آپکے کلام میں توحید ورسالت کے دائرے میں آیات قرانی اور احادیثات کا نچود منکشف ہوتا ہے۔ اس تعلق سے نہ صرف ملک بلکہ بیرونی دنیا سے تعلق رکھنے والے لاکھوں عقیدت مند جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہے۔ چرارشریف میں موجود اس عالمی ہستی کے مزار پر حاضری دینے کی غرض سے پہنچ پاتے ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے وسعی العرض زیارت کیمپس کے قریب کسی مخصوص جگہ پر کوئی سینٹری سسٹم بیس سال کی مدت تک تعمیر نہیں ہوسکا،مرحوم بخشی غلام محمد کے کنکریٹ مسافر خانہ یا کلائیے کو سانحہ 95 کے بعد آ ج تک وقف بورڈ نے دوبارہ تعمیر نہیں کیا۔سنہ2000میں نئی درگاہ کی تعمیر مکمل ہوئی لیکن زیارت گاہ پر عقیدتمندوں کی طرف سے بطور نذرانہ وکرایہ جائیداد، سالانہ قریب ایک کروڑروپے آ مدنی وصول کرنے کے باوجودکشمیر وقف بورڈ نے زیارتگاہ کی بنیاد کے ساتھ مخصوص اراضی پر کوئی پھولدان یا باغیچہ سجانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس بات کی لاتعداد شہادتیں ملتی ہے کہ چرارشریف زیارت سے برآمد شدہ تمام کمائی ہر تین ماہ گزرنے کے ساتھ ہی گن گن کر مرکزی دفترسرینگر پہنچانے کا عمل چالیس سال سے جاری ہے لیکن باوجود اسکے خانقاہ شریف کی دوسری منزل اور گرونڈ فلور پر ٹوٹے پھوٹے ٹاٹوں،بوسیدہ جندوں اور خستہ حال ترپال اورپالتھین پر نماز ادا کرنی پڑھتی ہے۔ مقامی بزرگ محمد آمین کا کہنا ہے کہ سات برسوں سے وقف بورڈ کے ذمہ دار ابھی صرف خریداری کا انتظار کرتے ہے‘ نہ جانے کونسا وقت ہوگا جب عالشان اور 35کروڑ کے سرمایہ سے تعمیر خانقاہ کے فرش وفروش پر خوبصورت میٹنگ بچھائی جائیے گی۔ مقامی فلاح و بہبود کمیٹی کے ایک ذمہ دار نے نمایندے کو بتایا کہ انہیں عوامی ضرورت کا خیال نہیں جبکہ انکی کمیٹی نے وقف کے ساتھ ہی نہیں بلکہ بصیر خان کے ساتھ یہ مسئلہ باربار اٹھایا لیکن عجیب بات ہے کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن خرچانے میں دل نہیں رکھتے۔ مقامی دکانداروں نے انکشاف کیا کہ صرف گذشتہ بیس سال کے دوران ناخوشگوار حالات کے باوجود وقف بورڈ کوکم وبیش 15کروڑ روپیہ سے زائید کی رقم کا یہاں نذر ونیاز معہ کرایہ وصول ہوا،لیکن زیارت عالیہ کے ملحق تاریخی خانقاہ ریشیہ اویسیہ کیلئے دس برس سے فرش خریدنے میں لیت ولعل سے کام چلاتے آئے۔ افسوس اسبات پر کہ مسلم وقف بورڈ کے سابقہ وائیس چیرمین نے دوسال قبل عوامی احتجاج کے درمیان قصبے کے میر واعظ مولینا امیر الدین شاہ صاحب اور سٹی زنز کونسل کو بھروسے کے ساتھ یقین دیلایا کہ ایک مہینے کے اندر لاکھوں کی مالیت کاخوبصورت فرش وفروش خانقاہ کے تینوں منزلوں پر بچھانے کا عمل مکمل کیا جائیگا۔ لیکن تین سال گزرگئے۔ شیخ العالم ریسرچ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری نے نمائندے کو بتایا کہ بس معمولی مشاعرے پر زیارتگاہ کے ساتھ قریب ایک درجن چھوٹے ملاذمین وابستہ ہے جنکی تنخواہ وقف بورڈ اداکرتی ہے ہاں کچھ بیوہ خاندانوں کو ماہوار وظیفہ بھی دیتے لیکن اس قدرنقدو جنس اور زیورات کے علاوہ، اوقاف باغات اور دکان کرایہ بھی تو بخشی کے دور سے وصول کرکے تو لیجاتے ہے اسکا خیال رکھنا اور پھر واپس اس بعقہ عالیہ کے فلاح وبہبود کیلئے اوقاف کیا کرتی اسکا جواب بھی لینا چاہتے ہے۔ ٹریڈرس فیڈریشن کے زعمانے نمایندے کو بتایا کہ جب جب مقامی باشندگان نے زیارت کیمپس کے اندر کسی بھی چیز کی کمی یا کوئی اہم تعمیر کرنے کیلئے کہا تو ہر کام کیلئے وقف بورڈ بس کشکول لیکر سرکاری دفتروں میں پہنچتے ہے۔ ورنہ کشمیر میں قایم بڑی درگاہ سے برامد آ مدنی کے رقم یہیں پر خرچ کرتے تو پھر دوسرے لوگ ہمیں ماتا ویشنو دیوی،شاھدراہ شریف کی ترقی اور انتظامی سہولیات کو لیکر حدف تنقید نہیں بناتے، لیکن اب ہم دنیا کو بتادیں گے کہ وقف بورڈ یہاں سے جمع کرکے نہ جانے پھر کہاں پر خرچ کرنے کا حق رکھتا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا