محمد ریاض ملک
منڈی،پونچھ، جموں وکشمیر
جان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔اسی لیے عام لوگوں میں یہ محاورہ بھی مشہور ہے کہ جان ہے تو جہان ہے لیکن جان بھی تب ہی کارگر ثابت ہوسکتی ہے جب صحت تندرست ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک شعبہ صحت کی جانب کافی وجہ دیتا ہے۔ ہمارا ملک بھارت بھی صحت کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہر سال شعبہ صحت پر کھربوں کا بجٹ خرچ کرتا ہے اورجموں کشمیر کے دیگر اضلاع کے ساتھ ساتھ ضلع پونچھ کی منڈی تحصیل بھی اس شعبہ پر کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے۔تحصیل منڈی کی آبادی ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔یہاں پر غلام احمد میموریل سب ضلع ہسپتال کے نام سے ایک صحت مرکز قائم ہے۔ 2019 میں تقریبا سات کروڑ کی لاگت سے اس اسپتال کی عمارت کو تیار کیا گیاہے۔تین منزلہ اس عمارت میں وارڈ، لیبارٹری، بلاک میڈیکل آفیسر دفتر، الٹراساؤنڈ سیکشن اور میٹنگ ہال وغیرہ کے لئے کشادہ جگہ ہے۔ تیار شدہ بلڈنگ سے متصل ہی ایک اور عمارت زیر تعمیر ہے اور اس کا کام بھی شدومد سے جاری ہے۔ جس کے لئے دو کروڑ روپیہ منظور کیا گیاہے۔ امید کہ جلد ہی وہ عمارت بھی تیار ہوجائے گی۔ کروڑوں روپے سے تیار شدہ عمارت تو واقعی قابل دید ہے مگر افسوس ہے کہ ابھی تک یہاں مریضوں کے علاج و معالجہ کے لئے ڈاکٹر وں کی تعداد ناکافی ہے۔ یہاں مختلف شعبہ جات کے ڈاکٹروں کے علاوہ دیگر سہولیات جیسے کہ لیبارٹری، الٹراساؤنڈ اور ڈیجیٹل ایکسرے کے ماہرین کی بھی کمی ہے۔
ساوجیاں گنتڑ سے تعلق رکھنے والے 40سالہ پیر طارق حسین مذکورہ مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ” باقی مشکلات تو الگ ہیں لیکن تحصیل منڈی ہسپتال میں الٹراساؤنڈ مشین خراب ہونے کی وجہ سے جس طرح کی مشکلات کا سامنا یہاں کی عوام بلخصوص ہماری خواتین کو کرنا پڑ رہاہے،وہ نہایت ہی افسوس ناک ہے۔ساوجیاں کے متعدد گاوں سے پیدل چار سے پانچ گھنٹے پیدل سفر کرکے لوگ اسپتال پہونچتے ہیں،تو وہاں مشین خراب ہونے کے سبب بے مراد شام کو اپنے گھر واپس لوٹتے ہیں یاپھر پونچھ جاتے ہیں جہاں الٹراساؤنڈ کے لئے دو تین دن بعد کی تاریخ ملتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں کی غریب عوام کو کرایے پر کمرہ لیکر رہناپڑتاہے۔ مالی بوجھ سے تو گزرنا ہی پڑتا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ الٹراساؤنڈ نہ ہونے اور امراض کی تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے اسی دوران بہت سی خواتین کی موت بھی ہوجاتی ہے۔اڑائی گاؤں سے تعلق رکھنے والے 39سالہ مشتاق احمد بتاتے ہیں کہ وہ اپنی اہلیہ کی جانچ گزشتہ پانچ ماہ سے منڈی اسپتال میں کرا رہے تھے مگر الٹراساؤنڈ کے لیے لگاتار انہیں پونچھ جانا پڑتا تھا۔ ایک غریب انسان ہونے کی وجہ سے سفر اور جانچ دونوں کے اخراجات برداشت کرنا ان کے لیے کافی مشکل تھا کیونکہ لاک ڈاؤن میں پرائیویٹ گاڑی والوں کو سو روپیے کی جگہ ایک ہزار اور پانچ سو کی جگہ پانچ ہزار روپئے دیکر پونچھ الٹراساؤنڈ کے لئے جاناپڑاہے۔ اس لیے وہ بیچارے کافی مقروض ہوگئے۔
نہایت افسوس کی بات ہے کہ ایک لاکھ سے زائد آبادی پر محیط علاقے میں اسپتال کی ایک خوبصورت عمارت تو تعمیر کی گئی مگر یہاں سہولیات میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں کی غریب عوام کو بے انتہا پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انتظامیہ بے خبر سو رہی ہے۔ مذکورہ مسائل کے بارے میں بلاک میڈیکل آفیسر منڈی مشتاق حسین شاہ سے بات کی گئی تو انہوں نے اپنی لاچاری ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت منڈی سب ضلع ہسپتال میں اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی پانچ پوسٹیں اور میڈیکل آفیسر کی آٹھ پوسٹیں ہیں مگر یہاں صرف ایک ہی اسپیشلٹ تعینات ہے۔اور بقیہ چار آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ اسی طرح سے میڈیکل آفیسر کی بھی چار اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ ہیلتھ بلاک منڈی کا ذکر آنے پر انہوں نے بتایا کہ اس وقت یہاں 64 صحت مراکز کے لئے ابھی بھی پندرہ آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ اسی طرح مختلف صحت مراکز کے لیے 80صفائی ملازمین کی ضرورت ہے لیکن صرف بیس صفائی ملازمین ہی موجود ہیں۔ فرماسیسٹ کی دو اسامیاں ہیں اور دونوں ہی ابھی تک خالی پڑی ہیں۔ اسٹاف نرس کی چھ پوسٹیں بھی پر نہیں کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر شعبہ جات میں بھی عملہ کی کمی ہے۔الٹرا ساؤنڈ پچھلے آٹھ ماہ سے مشین خراب ہے۔ ڈیجیٹل ایکسرے کی سہولت دی گئی ہے لیکن اس کا سامان بھی پوری طرح نہیں پہونچ پایاہے۔ قابل غور ہے کہ یہ حالت ایک صحت مرکز کی ہے وہ بھی ایسے دور میں جب ہر طرف کرونا وباء جیسی بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں عوام کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔
اسپتال کی مذکورہ حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے منڈی کے معمر سماجی کارکن عبدالاحد بھٹ کہتے ہیں کہ ایک طرف کرونا کا قہر ہے تو دوسری جانب ڈاکٹروں کی قلت ہے اور ایسی حالت میں الٹراساؤنڈ مشین بھی خراب ہے جس کی وجہ سے منڈی کی غریب عوام کی حالت قابل رحم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر جموں وکشمیر انتظامیہ یہاں کی عوام کے ساتھ انصاف کرنا چاہتی ہے تو پہلی فرصت میں سب ضلع ہسپتال منڈی میں ڈاکٹروں کی قلت کو پوراکرے اور تمام خالی پڑی اسامیوں کو پُر کرے تاکہ عوام کو صحت کی بنیادی ضروریات کے لیے پونچھ اور راجوری کے سفر کی مشکلات سے نجات مل سکے اور علاقے ہی میں بنیادی سہولیات میسر ہو سکیں۔22 مارچ 2020کو اتوار کے دن کرونا وائرس کے پیش نظر پورے ملک کے ساتھ ساتھ جب تحصیل منڈی میں لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے ہی منڈی سب ضلع ہسپتال کے اندرونی حالات نازک تھے۔ جس کا نقصان منڈی کی عوام بلخصوص یہاں کی خواتین کو سب سے زیادہ اٹھانا پڑا۔
منڈی ہیڈ کوارٹر سرپنچ مبشر حسین بانڈے منڈی سب ضلع ہسپتال کی حالت زار کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” سب سے پسماندہ اور پچھڑاعلاقعہ ہوتے ہوئے بھی یہاں کی عوام نے ملک کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیاہے۔ مگر سرکار کی طرف سے دی جانے والیتمام سہولیات یہاں اس وقت پہونچتی ہیں جب وہ اپنے آخری دور میں ہوتی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران انتظامیہ نے عوام کی نقل وحرکت پر پر کڑی نگرانی رکھی، حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف تھانوں میں کیس درج کیے گیے۔مفت راشن مہیا کرایا گیا۔باہر سے آنے جانے والوں پر نظر رکھنے کے لئے ٹیمیں مختص کی گئیں مگر سب ضلع ہسپتال منڈی کی اندرونی خستہ حالی پر بالکل بھی توجہ نہ دی گئی۔ 16 جولائی 2020 کو منڈی کے تمام سرپنچوں نے بلاک ڈیولپمنٹ چیرمین شمیم احمد کی موجودگی میں ضلع ترقیاتی کمشنر پونچھ سے ملاقات کر کے الٹراساؤنڈ مشین کی خرابی کے معاملے کی شکایت کی مگر ابھی تک بہتر نتائج کا انتظار ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اب اسے افسران کی بے بسی کہیں یا اعلی قیادت کی لاپرواہی؟ کیا صرف شاندار عمارت مریض کے مرض کی تشخیص اور زخمی کے زحم پر مرحم کے لیے کافی ہے؟ وقت کا تقاضا ہے کہ اس شاندار عمارت کے بنانے کے مقاصد کو پوراکیاجائے۔ ماہر سرجن، فزیشن ودیگر عملہ کی خالی پڑی آسامیوں کو پر کیاجائے۔ڈاکٹروں اور دیگر صحت عملہ کی مشکلات ومسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حال کیا جائے۔کیوں کہ شعبہ صحت ہر لحاظ سے اہم ہے۔ جنگ وجدل ہویا وبائی امراض کے ایام، حادثات ہوں یا آسمانی و زمینی آفات کا دور ہر حال میں اسپتال انسانی زندگی کے لیے مثبت کردارادا کرتے ہیں۔ ایک صفائی والے سے لیکر ڈائریکٹر ہلتھ تک اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر خدمت خلق میں مصروف رہتے ہیں۔ اس لیے ان کے مسائل ومصائب اور مشکلات کو پورا نہ کرنا قیادت کی ناکامی ہے۔ امید کہ حکومت اس جانب متوجہ ہوگی اور اور غلام احمد میموریل سب ضلع ہسپتال منڈی میں بھی عملہ کی کمی کو پورا کرکے یہاں کی غریب عوام کو صحت کے بنیادی سہولیات سے فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔ (چرخہ فیچر