تحریر: میر امتیاز آفریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدل و انصاف پر مبنی طرزِ زندگی اختیار کرنا فطرت کا تقاضا ہے اور اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے لہذا اس میں عدل وانصاف، اخوت و مساوات اور آزادی و حریت کو خاصی اہمیت دی گئی ہے اور انسان کو اس بات پر ابھارا گیا ہے کہ وہ ان بنیادوں پر سماج کو استوار کرے۔اسی لئےقرآن مجید میں انبیاء کرام کی بعثت کے مقصد کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ۔ (الحدید:25)
ترجمہ: بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی ، تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوں۔
گویا لوگوں کو نظام عدل پر قائم کرنا اور انہیں نظامِ ظلم سے بچا کر صرف ایک خدا کی عبادت پر ابھارنا ہر دور میں انبیاء کرام علیہم السلام کا بنیادی مقصد رہا ہے۔ اسلام انسانی سماج کو اخوت و مساوات، عدل وانصاف اور حریت و آزادی کی بنیادوں پر استوار کرتا ہے اور ہر قسم کی ظلم وزیادتی سے معاشرے کو پاک و صاف کرتا ہے۔ عدل و انصاف پر مبنی نظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرز پر قائم فرمایا کہ اس میں کسی قسم کی کوئی کمزوری نہ رہی اور دین خالصتاً اللہ کا نافذ ہو گیا۔ دور خلفاء راشدین میں، صحابہ کرام اور اہل بیت اطھار رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس نظام عدل کو قائم رکھنے اور اس کی جڑوں کو محفوظ رکھنے میں کافی جد وجہد کی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کافی کمزوریاں آنے لگیں۔ خلافت ملوکیت کی طرف اور دینداری مادیت کی طرف کھسکنے لگی جس کی پیشنگوئی پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی:
حضرت سفینہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ خلافت تیس سال تک ہو گی ، پھر بادشاہت ہو گی ۔‘‘ پھر سفینہ بیان کرتے ہیں : ابوبکر ؓ کی خلافت دو سال شمار کر ، عمر ؓ کی دس سال ، عثمان ؓ کی بارہ سال اور علی ؓ کی خلافت چھ سال شمار کر ۔ (مشکوٰۃ:5395)
اکابرینِ اسلام حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے 6 ماہ پر مشتمل مختصر دور کو بھی اس تیس سالہ دور خلافت میں شامل کرتے ہیں جس کی پیشنگوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی۔ اس کے بعد بنو امیہ کے دور حکومت کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ دورِ خلفائے راشدین کے عدل و انصاف پر مبنی اقدار زوال و انحطاط کا شکار ہوگئے اور موروثیت و آمریت نے اس چشمہ صافی کو گدلا کرکے رکھ دیا۔
اس بدلتے منظرنامہ میں امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ملت کے افق پر مہر و ماہ بن کر نمودار ہوتے ہیں اور اسلامی اقدار کے تحفظ و فروغ کے لئے ایسے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لئے مینارہ نور کا کام انجام دیتے ہیں۔آپ اپنی حیاتِ مستعار کی ہر گھڑی ملت اسلامیہ کی خیرخواہی میں لگا دیتے ہیں اور دینی اقدار کی بقا کی خاطر اپنی گردن تک کٹا دیتے ہیں۔گویا ملت کے مفاد کی خاطر آپ ایثار و قربانی، جرائت و شجاعت اور وفا و استقامت کی وہ عظیم مثال قائم کرتے ہیں جس کی مثال تاریخ عالم میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ایک طرف نانا جان کے دین کی خاطر آپ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے آداب فرزندی کی مثال قائم کرتے ہیں تو دوسری طرف ابتلاء و آزمائش کی گھڑی میں قرآن مجید کے احکامات کو اپنا حرزِ جاں بناتے ہیں:
وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔
الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ ( البقرہ: 155,156)
ترجمہ: بیشک ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف ، بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور ان ثابت قدموں کو خوشخبری سنادو ۔
بیشک ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف ، بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور ان ثابت قدموں کو خوشخبری سنادو ۔
جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بیشک ہم اللہ ہی کیلئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔
حکیم الامت علامہ اقبال اس حقیقت کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
رمز قراں از حسین آموختیم
زآتش او شعلہ ہا اندوختیم
ترجمہ: ہم نے قران مجید کی رمز امام حسین علیہ السلام سے سیکھی ہے۔انہی کی روشن کی ہوئی آگ سے شعلے جمع کرتے رہے ہیں.
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حق و صداقت کے نڈر علمبردار، شرفِ انسانی کے بہادر پاسبان اور حریت فکر کے بے باک مجاہد بن کر سامنے آتے ہیں اور یزیدی فوج کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ملت کو بھولا سبق یاد دلاتے ہیں۔
مشہور مؤرخ مولانا معین الدین ندوی لکھتے ہیں:
” امام حسین کی تقریر سے واضح ہے کہ حضرت امام کا یزید کے مقابلے میں آنا محض حصول خلافت کے لئے نہ تھا بلکہ اصلی مقصد اسلامی خلافت کا احیاء تھا، یعنی موروثی حکومت کے اثر سے جو خرابیاں آگئیں تھیں انہیں دور کرکے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کرنا تھا۔”
آپ نے حق کا بول بالا کرنے کے لئےمدینہ منورہ کی پرسکون و باتمکین فضاؤں کو الوداع کہا اور ظالم و فاسق حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کیا تاکہ امت میں حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے کا شعور پیدا ہوسکے۔اس قسم کے اقدامات کو احادیث میں اعظم الجہاد قرار دیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِهَادِ كَلِمَةَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ .( ترمذی:2174)
ترجمہ: ظالم بادشاہ کے سامنے حق کہنا سب سے بہتر جہاد ہے۔
امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی اور اپنے اقرباء کی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے یزیدی نظام کے سامنے سینہ سپر ہوکے اس کو چیلنج کیا اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے لئے جان کا نذرانہ پیش کیا۔
بقولِ حکیم الامت علامہ اقبال:
ما سوی اللہ را مسلمان بندہ نیست
پیش فرعونی سرش افکندہ نیست
خون او تفسیر ایں اسرار کرد
ملت خوابیدہ را بیدار کرد
ترجمہ: مسلمان خدا کے سوا کسی کا غلام نہیں ہو سکتا۔اس کا سر کسی فرعون کے آگے نہیں جھک سکتا۔امام حسین رضی اللہ عنہ کے خون نے یہ راز کھول دیا۔ملت جو سو رہی تھی اسے جگا دیا۔
مشہور مؤرخ ڈاکٹر علی محمد الصلابی لکھتے ہیں:
"حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یزید سے بیعت نہیں کی تھی اور انہوں نے شوریٰ اور ان مبادیات اسلام کے دفاع میں حکومت میں وراثت کے تصور پر اعتراض کیا تھا جو امت کو اپنی مرضی سے حکمران کے انتخاب کا حق دیتی ہیں۔”
شہید کربلا جگر گوشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کا واقعہ شہادت مسلمانوں کے لئے تاابد دعوتِ فکر و عمل پیش کرتا رہے گا۔ان کی بے مثال قربانی مسلمانوں کو ہمیشہ اس مقصدِ عظیم کی دعوت دیتی رہتی ہے جس کے لئے آپ بے چین ہوکر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ اور پھر مکہ مکرمہ سے کوفہ جانے کے لئے تیار ہو گئے اور جس کے لئے اپنے سامنے اپنی اولاد اور اپنے اہل بیت کو قربان کرکے آپ خود قربان ہوگئے۔ جو کوئی بھی واقعہ شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور غور سے آپ کے خطوط اور خطبات کو پڑھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قرآن و سنت کے منہج کے مطابق اسلام کے نظام عدل کو ازسرنو قائم کرنے کے لئے اپنا جان و مال اور اولاد سب قربان کردیا۔
خلافتِ نبوت کے بجائے ملوکیت و آمریت کی بدعت کے مقابلہ میں آپ نے آخری دم تک مسلسل جہاد کیا اور حق کے مقابلے میں زور و زر کی نمائشوں سے آپ ہرگز مرعوب نہ ہوئے۔خوف و ہراس اور تکلیف و مشقت میں آپ نہ گھبرائے اور ہر وقت اللہ کو یاد کرتے رہے، اسی پر توکل کیا اور ہر حال میں اسی کا شکر ادا کیا اور شکوہ و شکایت کو زبان پر آنے نہ دیا۔
دراصل یہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوشِ تربیت کا ہی فیض ہے کہ جب ہمیں صلح و امن کے اعلی معیارات کی بات کرنی ہو تو امام حسن رضی اللہ عنہ کی صورت میں ایک بہترین نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے،اور جب صبر و استقلال،جرءت و بہادری اور باطل کے آگے چٹان کی طرح ثابت قدم رہنے والی نفوس کی بات کرنی ہو تو امام حسین رضی اللہ عنہ کا قابل تقلید نمونہ نکھر کر سامنے آتا ہے۔حضرت امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ چاہتے تو باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرکے اعلیٰ مادی و سیاسی کرسیوں پر متمکن ہو کر آرام کی زندگی گزار سکتے تھے مگر انہوں نے مٹتی عدل و انصاف اور تقویٰ پر مبنی اسلامی قدروں کو جلا بخشنے میں متاعِ جاں لگا دی اور یہ سبق دیا:
سر کٹ کے گرے ترا نیزے کی نوک پر
پر تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول
ضرورت اس بات کی ہے کہ شھداء کو پھر سے خراجِ عقیدت پیش کیا جائے اور ساکن و جامد شب و روز سے نکل کر رسمِ شبیری ادا کرنے کا عزم کیا جائے، باطل مادی طاقتوں کو مات دے کر روحانی و اخلاقی انقلاب بھرپا کرنے کی کاوشیں کی جائیں اور عادلانہ اقدار کو اپنی شناخت بنانے کی راہ پر چلنے کی کوشش کی جائے۔دردوغم کا رسمی مظاہرہ کرنے کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کے مقصد کے ساتھی ہوں۔ باطل کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے میں کوئی بھائی آپ کے لئے رکاوٹ نہ بنا، اپنی اولاد رکاوٹ نہیں بنی، حتیٰ کہ اپنی جان بھی رکاوٹ نہیں بنی۔کربلا کے پیغام کو دور حاضر کی ایک معروف روحانی شخصیت (واصف علی واصف) نے کچھ اس انداز سے پیش کیا ہے:
"ہماری کربلا چھوٹی چھوٹی کربلائیں ہیں کہ جہاں چھوٹا سا واقعہ ہوجائے وہاں تسلیم و رضا کرجا۔اگر پیٹ میں درد ہے تو خاموش ہوجا، اللہ کا گلہ نہ کر۔یہاں آپ کی کربلا کامیاب ہو گئی۔ یعنی جہاں چھوٹی سی ابتلاء میں آگیا وہاں خاموش ہو جا، اگر تکلیف میں آگیا تو خاموش ہو جا کیونکہ تکلیف اسی کی طرف سے آرہی ہے اور اس خاموشی اور تکلیف میں اللہ کی عبادت کر۔یہ بھی ایک کربلائی مقام ہے۔ اس لئے جب آپ اپنی کربلا سے گزر رہے ہوں تو پھر شہنشاہِ کربلا علیہ السلام کا واقعہ آپ کی نگاہوں میں ہو، اور اگر وہاں خاموش ہو جاؤ تو آپ کو فیض مل جائے گا۔۔۔صرف بزرگوں کی یاد منانے سے بزرگوں کا فیض نہیں ملتا۔ بزرگوں کے بتائے ہوئے راستےپر چلنے سے بات بنتی ہے "