محمد دانش غنی
شعبۂ اردو ، گوگٹے جوگلے کر کالج ، رتناگری۔
۔۔۔۔ محمد اسد اللہ کی تحریروں میں خود ستائی اور خود نمائی ۔۔۔۔۔
اسماعیل میرٹھی کی ایک نظم میں کھوٹے اور کھرے کی صفت بیان کی گئی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کھوٹے ہی خود ستائی اور چھوٹی حرکتیں کرکے بڑے بننے کی کوشش کرتے اور رسوا ہوتے ہیں ۔ میں یہاں ایک ایسے شخص کی تحریروں کا انتخاب پیش کر رہا ہوں جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ہندوستان کے تمام انشائیہ نگاروں میں تیسرا اہم انشائیہ نگار ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تیسرے درجہ کا انشائیہ نگار ہے ۔ انشائیہ نگاروں میں تیسرا انشائیہ نگار ہونے اور تیسرے درجہ کا انشائیہ نگار ہونے میں جو فرق ہے وہ قارئین کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ۱۸- ۲۰۱۷ء کے لیے مہاراشٹر اردو ایکادیمی نے انعامات کا فیصلہ کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ اتفاق سے اس کمیٹی میں بال بھارتی کے بھی دو افراد نامزد ہوگئے تھے ۔ ایک فکشن کا خود ساختہ نقاد اور دوسرا بزعمِ خود ہندوستان کا تیسرا اہم انشائیہ نگار۔ موصوف انشائیہ نگاری کے نام پر دوسروں کا وقت بھی ضائع کر تے ہیں اور اپنا بھی ۔ یہ اردو ادب کا المیہ ہے کہ جسے زبان لکھنا نہیں آتا وہ خود کو ہندوستان میں تیسرا اہم انشائیہ نگار ہونے کا مدعی ہے ۔ اس کی ایک کتاب ’’ انشائیہ نگاری کی روایت : مغرب و مشرق کے تناظر میں ‘‘ شائع ہوچکی ہے جس کے پیش لفظ میں اس نے لکھا ہے :
’’ انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں ، بظاہر میری چند برسوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تلاش و جستجو اور تفکر کا یہ سلسلہ میرے تخلیقی سفر کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا ۔ ‘‘
(انشائیہ کی روایت : مشرق و مغرب کے تناظر میں، محمد اسد اللہ ، صفحہ نمبر ۱۰ )
کہتے ہیں کہ بیل گاڑی کے نیچے چلنے والا کتا یہی سمجھتا ہے کہ بیل گاڑی اسی کی وجہ سے چل رہی ہے ۔ کیا واقعی بیل گاڑی اس کتے کی وجہ سے چل رہی ہوتی ہے ؟ اسی کو خود نمائی بھی کہتے ہیں اور خود ستائی بھی ۔خود ستائی اور خود نمائی اس کی تحریروں میں بھری ہوئی ہے ۔ یہاں میں چند مثالوں پر اکتفا کر رہا ہوں ۔
’’ ڈاکٹر محمد اسد اللہ بنیادی طور پر انشائیہ نگار ہیں ۔ مزاحیہ مضامین اور ریڈیو ٹاکس کے مجموعے ’’ ہوائیاں ‘‘ اور ’’پرپرزے ‘‘ کے علاوہ مراٹھی مزاحیہ ادب کے تراجم پر مبنی کتابیں ’’ جمالِ ہم نشیں ‘‘ اور ’’ دانت ہمارے ہونٹ تمہارے ‘‘ بھی منظرِ عام آچکی ہیں ۔ ’’ بوڑھے کے رول میں ‘‘ ان کے انشائیوں کا مجموعہ ہے ۔ ‘‘
( پیکر اور پرچھائیاں ، محمد اسد اللہ ، صفحہ نمبر ۵۵ )
wwww
’’ محمد اسد اللہ بنیادی طور پر انشائیہ نگار ہیں ۔ مزاحیہ مضامین کے مجموعے ’ پرپرزے ‘ میں مزاحیہ خاکے بھی شامل ہیں ۔ ‘‘ ( پیکر اور پرچھائیاں ، محمد اسد اللہ ، صفحہ نمبر ۱۶۲ )
wwww
’’ راقم الحروف نے ایک تعلیمی منصوبہ کے تحت اردو جونیئر کالج میں شاعری کی تڈڑیس کے مسائل پر سوالنامہ اور انٹرویوز کے ذریعے معلومات جموع کرکے اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جس سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جہاں انتظامیہ کے معاملات ، اسکول کے اندورنی کاروبار مثلاً نظم و ضبط ، طلبا کی تعداد ، اساتذہ کی باہمی غیر ہم آہنگی وغیرہ متعدد مسائل ہیں وہیں تدریسی سطح پر بھی کئی رکاوٹیں ہیں ۔ ان میں شاعری کی تدریس بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔ ‘‘ ( پیکر اور پرچھائیاں ، محمد اسد اللہ ، صفحہ نمبر ۱۷۷ )
wwww
’’ انشائیہ نگاری کی تحریک میں بھارت سے شامل ہونے والے ادیبوں میں احمد جمال پاشا اور رام لعل نابھوی کے بعد تیسرا نام محمد اسد اللہ کا ہے ۔ محمد اسد اللہ شہر ناگپور میں پیشہ تدریس سے وابستہ ہیں ۔ ابتدا میں ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد میں طنزیہ و مزاحیہ مضامین لکھے جو ان کے مجموعے پرپرزے میں شامل ہیں ۔ ان تحریروں میں بھی انشائیہ نگاری کی خصوصیات مثلاً نکتہ آفرینی اور اظہارِ ذات موجود ہیں ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی انشائیہ نگاری کی تحریک سے وابستگی کے بعد ایک نیا انداز محمد اسد اللہ کی تحریروں میں نمایاں ہوا ۔ محمد اسد اللہ کے بیشتر انشائیے ماہنامہ اوراق ، ادبِ لطیف اور تخلیق میں شائع ہوئے ہیں ۔ ان کے انشائیوں کا مجموعہ بوڑھے کے رول میں ۱۹۹۱ء میں منظرِ عام پر آیا ۔ اس کا پیش لفظ وزیر آغا نے لکھا اور محمد اسد اللہ کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا’ محمد اسد اللہ نے گہری سے گہری بات کے بیان میں بھی تازہ کاری اور اپج کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اس کے ہاں ندرتِ خیال ہے جو بنے بنائے تراشیدہ اقوال کی پیوست پر ہمیشہ سے خندہ زن رہی ہے ۔ اس نے زندگی کو دوسروں کی نہیں خود اپنی نظر سے دیکھا ہے اور اسی لیے اس کے ہاں ردِ عمل شخصی اور ذاتی نوعیت کا ہے ۔ یہ بہت اہم بات ہے اور انشائیہ نگاری کے سلسلے میں اس کی بڑی اہمیت ہے ۔ ‘ محمد اسد اللہ کے انشائیوں کے عنوانات بھی نئے انشائیہ نگاروں کے موضوعات سے مماثلت رکھتے ہیں ۔ مثلاً انڈر لائن ، چوہوں سے نجات کی خاطر ، پریس کیے ہوئے کپڑے ، انڈا اور لحاف وغیرہ ۔ ‘‘ (انشائیہ کی روایت : مشرق و مغرب کے تناظر میں ، محمد اسد اللہ ، صفحہ نمبر ۲۸۱ )
wwww
’’ عصری انشائیے کی یہ امتیازی خوبی ہے کہ اس نے فنکار کے انفرادی تفکر کو آزادی عطا کی اور بے محابا اظہارِ ذات کو فنی حدود میں کمالِ حسن تک پہنچانے کے لیے ایک پیرایۂ اظہار مہیا کیا ۔ اسی کی ساتھ زندگی اور کائنات کو ذاتی حوالے سے دیکھتے ہوئے شخصی اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو انشائیہ کی فطرت سے قریب تر ہے ۔ اردو میں گزشتہ چند دہائیوں میں منظرِ عام پر آنے والے انشائیوں نے اس طرزِ تحریر کو اس صنف کی ایک توانا روایت بنا دیا ۔ اس حقیقت کے شواہد ہمیں درج ذیل انشائیوں میں خاص طور پر نظر آتے ہیں ۔ ہنیڈ بیگ (وزیر آغا ) ، مسکرانا ( انور سدید ) ، کوہِ پیمائی ( مشتاق قمر ) ، واشنگ مشین ( جمیل آذر ) ، دوربین ( سلیم آغا ) ، کال بیل ( اقبال انجم ) ، بوڑھے کے رول میں ( محمد اسد اللہ ) وغیرہ انشائیہ کے وہ تمام محاسن جن کے سبب غالب ، ملا وجہی ، سرسید ، خواجہ حسن نظامی ، مولانا ابولکلام آزاد ، میرناصر دہلوی وغیرہ کی تحریروں میں ہمیں انشائیہ کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ ‘‘(انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں ، محمد اسد اللہ ، صفحہ نمبر ۲۸۱ )
wwww
’’ محمد اسد اللہ کے انشائیے نافرمانی کو انسان کی ایک پراسرار طاقت اور کمزوری سے تعبیر کیا ہے ۔ ‘‘
(انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں ، محمد اسد اللہ ، صفحہ نمبر ۳۱۴ )
wwww
’’ عصری انشائیوں کے درج ذیل عنوانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان نئے انشائیہ نگاروں کے ہاں ندرت ، تازہ کاری اور مشاہدات و تجربات کی بوقلمونی موجود ہے ۔ چوری سے یاری تک (وزیر آغا ) ، مچھر سے مدافعت کی خاطر ( انور سدید ) ، بلیوں کے سلسلے میں ( احمد جمال پاشا ) ، ( منگنی کی انگوٹھی ( انجم انصار ) ، آئس کریم کھانا ( مشتاق قمر ) ، بچہ پالنا ( غلام جیلانی اصغر ) ، فت نوٹ (کامل القادری ) ، چوہوں سے نجات کی خاطر ( محمد اسد اللہ ) ۔ ‘‘ (انشائیہ کی روایت: مشرق و مغرب کے تناظر میں ،محمد اسد اللہ ، صفحہ نمبر ۳۰۵ )
انشائیہ نگار کی کتاب ’’ پیکر اور پرچھائیاں ‘‘ سے راقم الحروف پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ وہ انشائیہ نگار کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار بھی ہے ۔ یہاں بھی وہ ’’میاں مٹھو ‘‘ والی حرکت سے نہیں چوکا ہے ۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ انشائیہ اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے علاوہ راقم الحروف کی چند کہانیاں بھی شائع ہوچکی ہیں ۔ عورت ، کوشش ، چپلوں کی چوری ، سربریدہ عورت ، اس موڑ سے آگے وغیرہ ۔ بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں ’ آٹھواں عجوبہ ‘ عنقریب منظرِ عام پر آرہا ہے ۔ ‘‘ ( پیکر اور پرچھائیاں ، محمد اسد اللہ ، صفحہ نمبر ۱۰۹ )
مذکورہ کتاب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیگم محمد اسد اللہ (فرزانہ اسد ) نے بھی افسانہ نگاری کے فنی رموز سے واقفیت حاصل کرکے کچھ افسانے تخلیق کیے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے ایک اقتباس جس سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد اسد اللہ اپنی بیگم کی مدح سرائی میں مہارت رکھتے ہیں :
’’ فرزانہ اسد کی کہانیوں میں عام طور پر کسی سانحے یہ سماجی حالات سے دبے کچلے لوگوں کی نفسیات کو پیش کیا گیا ہے ۔ ’ چوتھی لڑکی ‘ میں ذہنی طور پر معذور ایک لڑکی کو اس کے والدین ہی کے ذریعہ سماج کی نظروں سے چھپائے رکھنے کی کوشش ۔ اپنی اولاد کے لیے رشتوں کی تلاش میں پیش آنے والی مجبوریوں کی داستان سناتی ہے ۔ اسی طرح ’جل اٹھتا پھر چراغ ‘ میں ایک لیڈی ٹیچر کی بد ہیئت بیٹی کو تعلیم میں در پیش مسائل کی عکاسی کی گئی ہے ۔ ‘‘
( پیکر اور پرچھائیاں ، محمد اسد اللہ ، صفحہ نمبر ۱۰۷ )
یہ سارے اقتباسات محمد اسد اللہ کی خود نمائی اور خود ستائی کو تو ظاہر کرتے ہی ہیں اس کا ’’ زن مرید ‘‘ ہونا بھی ثابت کرتے ہیں ۔ سنا تھا کہ وہ ایک ایسی دینی جماعت کا ہمنوا ہے جو پیری مریدی میں دنیا داری کو بڑھاوا نہیں دیتی مگر اس اقتباس میں اس نے اپنے بیوی کو اسی طرح اڑانے کی کوشش کی ہے جس طرح جاہل مرید اپنے پیر کو اڑاتے ہیں ۔
جیسا کہ پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے کہ سا ل ۱۸- ۲۰۱۷ء کے لیے مہاراشٹر اردو ایکادیمی نے انعامات کا فیصلہ کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ اتفاق سے اس کمیٹی میں بال بھارتی کے بھی دو افراد نامزد ہوگئے تھے اس لیے بیشتر انعامات ان کو دیے گئے جو بال بھارتی سے تعلق رکھتے تھے ۔ ہمیں باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ بزعمِ خود ہندوستان کا تیسرا اہم انشائیہ نگار مہاراشٹر اردو ایکادیمی کے ایوارڈ کے علاوہ ساہتیہ اکادیمی ، دہلی کا ادبِ اطفال ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے بھی ہاتھ پیر مار رہا ہے ۔ اس کو اپنا الو سیدھا کرنا آتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ وہ کامیاب ہوجائے ۔ ’’ الو سیدھا کرنے ‘‘ سے یاد آیا کہ انشائیہ نگاراپنی ایک کتاب ’’گپ شب ‘‘ پر جو بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ ہے ، والدِ محترم سے مضمون لکھوانا چاہتا تھا ۔ والد صاحب نے مضمون لکھ دیا تو اس نے طوطا چشمی کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ۔
ماہنامہ ’’ پرواز ‘‘ لندن مجھ پر گوشہ شائع کر رہا تھا ۔میرے پاس اتنے مضامین نہیں تھے جو گوشہ کے لیے کافی ہوتے ۔ لہذا میں نے کچھ صاحبان سے مودبانہ درخواست کی کہ وہ میری ہمت افزائی کے لیے کچھ لکھ دیں اور جن سے میں نے کہا وہ سب اپنے ہی تھے جن میں محمد اسد اللہ بھی شامل تھے لیکن جیسے ہی اسے گوشہ کے بارے میں پتہ چلا وہ حیران رہ گیا ۔ کہنے لگا کہ وہ پرچہ یہاں آتا ہے کیا ؟ میں نے کہا آتا ہے ۔ کہنے لگا کہ تمہارے والد کا ہی ادب میں کچھ کام نہیں ہے اور نہ کوئی مقام ہے اس لیے میں نے ان پر آج تک کچھ نہیں لکھا اور آپ اپنے اوپر لکھنے کو کہہ رہے ہیں ۔ آپ کا ادب میں کیا کام اور مقام ہے ؟ ویسے بھی ہمارے استادِ محترم ہمیں منع کرتے ہیں کہ نئے لکھنے والوں پر مت لکھو ۔ دوسری بات میں نے ہضم کرلی لیکن والدِ محترم کے لیے اس دو کوڑی کے انشائیہ نگار نے جو کہا وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوسکا سو میں نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا ۔ اس کو شاید یہ توقع نہیں تھی کہ یہ جواب ملے گا اور جب یہ بات باہر پہنچی تو اس نے فیس بک اور واٹس ایپ پر صفائی پیش کرنا بلکہ جھوٹ بولنا شروع کر دیا کہ ’’ مجھ پر بہتان باندھا جا رہا ہے ۔‘‘
جنوری ۲۰۱۹ء میں مہاراشٹر اردو ایکادمی نے ناگپور میںڈرامہ فیسٹیول کا انعقاد کیا تھا جس کا افتتاح والد محترم کے دستِ مبارک سے ہونا طے پایا تھا ۔ یہ دو کوڑی کا شخص پوری کوشش کرتا رہا کہ افتتاح واالدِ محترم کے ہاتھوں نہ ہو ۔ میں ممنون ہوں مہاراشٹر اردو اکادیمی اور اس کے ذمہ داران کا کہ وہ اس اوچھے شخص کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آئے اور انھوں نے اپنا فیصلہ نہیں بدلا ۔ آخر کار افتتاح والدِ محترم کے ہاتھوں ہی عمل میں آیا اور یہ شخص ان کے پاس منہ لٹکائے کھڑا رہا ۔مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے :
’’ سانپ کا زہر کچلی میں اور بچھو کا دم میں ہوتا ہے ۔ بھڑ کا زہر ڈنک میں رہتا ہے اور پاگل کتے کا زبان میں ۔ انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے ۔ ‘‘
( آبِ گم سے اقتباس ، مجموعہ مشتاق احمد یوسفی ، صفحہ نمبر ۳۳۴ )
بعد میں ثابت ہوا کہ محمد اسد اللہ نے بھی اپنا زہر اپنے دل میں چھپا رکھا تھاجو بتدریج ظاہر ہو رہا ہے ۔
خود ستائی اور اپنے گروپ کے ایک شخص کی غلط مدح سرائی سے ثابت ہوجاتا ہے کہ انشائیہ نگار کی تحریریں کتنی ناقابلِ اعتبار ہیں ۔ اس نے خود کو بھی رسوا کیا ہے اور اپنے گرو گھنٹال کو بھی ۔ شاید اس کے ذہن میں اسماعیل میرٹھی کا یہ مصرع نہیں تھا کہ
کھوٹے کو کھرا بن کے ابھرنا نہیں اچھا
mmmm
ڈاکٹر محمد دانش غنی
Dr. Mohd. Danish Gani
Dept. of Urdu
Gogate Jogalekar College
Ratnagiri – 415 612
Mobile No. 9372760471