عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ
[email protected]
دوماہ سے ہمارے چند بڑے میڈیا ہائوسس نے ملک کی بنیادی مسئلوں،کو بلائے طاق رکھ کر محض ایک فلم اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی معاملے میں جس طرح سے دلچسپی لے رہی تھی اور دو ریاستوں کے بیچ میں دوریاں قائم کرنے کی کوشش میں لگی تھی اسے پوری دنیا دیکھ رہی تھی اور سمجھ بھی رہی تھی اسے کس طرح ہائی پروفائل بنایا گیا وہ بھی سب کی نظروں میں تھی ۔میڈیا اور سیاسی رہنمائوں پر انگلیاں تب اٹھتی ہے جب دیگر خودکشی معاملے میں اتنی دلچسپی نہیں دکھائی جاتی ہے ، حیرت تو تب ہوتی ہے جب ملک میں کئی عظیم شخصیتوں نے خودکشی کی، کئی سیاسی قائدین ، کسانوں کے علاوہ کئی فلم اداکار اور اداکارہ نے خودکشی کی لیکن انکی خبر کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی انکا میڈیا ٹرائیل بھی نہیں ہوا انکا دو مہینے تک میڈیا ہائوسس نے کوئی اسٹوری نہ بنائی ، نہ بریکنگ چلائی اور نہ ہی اس پر ڈیبٹ کی گئی ہاں خبروں کے دوران ایک لائن انکی خودکشی کے متعلق پڑھ دیا گیا یا پھر انکی خودکشی کی خبر کو نیچے کی پٹی یا اسکرول میں ایک لائن لکھ کر چلا دی گئی دوسرے دن انکی خبر کو دفن کر دیا گیا،آئی گئی بات ختم ،لیکن فلم اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کا دوماہ تک اس طرح سے میڈیا ٹرائل ہونا اور بنیادی مسئلوں سے عوام کا دھیان ہٹانا اس بات کا اشارہ ہے کہ اسکے پیچھے مضبوط سیاسی دبائو میڈیا پر بنا ہوا تھا، اب اس میں سیاسی فائدہ اور نقصان کس کا ہونے والا ہے یہ تو وقت بتائے گا۔ لیکن چلئے ایک بات خوشی کی ہے کہ فلم اداکار سوشانت سنگھ کی موت معاملے کی جانچ اب سی بی آئی کرے گی جانچ کاحکم ملک کی عدالت اعظمیٰ نے دے دی ہے۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سی بی آئی بہت سے معاملوں کی جانچ کرتی ہے کیوں کہ جانچ کرنے والی وہ ملک کی بڑی ایجنسی کہلاتی ہے اس لئے کئی اہم معاملوں کی جانچ کی ذمہ دوری اسے ہی سونپی جاتی ہے اور عام طور پر ریاستی حکومتوں کی درخواست پر کئی معاملوں کی جانچ سی بی آئی ہی کرتی ہے یہ الگ بات ہے کہ سی بی آئی پر بھی مرکزی حکومت کا دبائو بنا رہتا ہے اور جانچ کی مدت کتنی ہوگی یہ بھی طے نہیں ہوتا ہے اس طرح کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔سی بی آئی جانچ ہو یہ حیرت کرنے والی بات نہیں ہے حیرت کرنے والی بات تو یہ ہے کہ اس بہانے دو ریاستوں کا آمنے سامنے ہونا اور پورے معاملے کو بہار اسمبلی انتخاب میں بھنانے کی کوشش کرنا ہے ۔مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ سوال بہت ہیں کہ سوشانت کس طرح اپنی زندگی بسر کر رہے تھے، انکے والدین دوری کیوں تھی، اتنے دنوں بعد والدین نے کیوں ایف آئی آر درج کرائی، بہار کے پولیس افسر اس میں خود کیوںفریق بننے کی کوشش کر رہے تھے ۔ بہت سارے سوال اشارہ کرتے ہیں کہ یہ کسی موت کی جانچ کا معاملہ نہ رہ کر اب سیاسی کشتی کا معاملہ ہو گیا ہے۔ بہار کے حکمراں اتحاد کی پوری کوشش رہے گی کہ اسمبلی انتخابات میں سوشانت کی موت ایک اہم انتخابی مدّا رہے تاکہ حکومت کے خلاف اٹھنے والے سوال سوشانت کے شور میں دب جائیں اور اسے اسکا بھر پور فائدہ ملے ۔ کیوں کہ ابھی ملک کی چند میڈیا ہائوسس جس طرح سے شوسانت معاملے میں دلچسپی دکھا رہی ہے اور بر سر اقتدار جماعت کے آگے سر نگوں ہے جسکا علم پوری دنیا کو ہے، یہ سنہرا موقع سی ایم نتیش کمار اور انکے اتحادی پارٹیوں کے لئے معقول وقت ہے چونکہ نومبر دسمبر میں بہار الیکشن ہونے ہیں اور یہ معاملہ تازہ تازہ ہے جسے بہار حکومت چاہے گی کہ اسے بھنا لیا جائے۔ بہار حکومت سے یہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ لاک ڈائون کے دوران لاکھوں مزدوروں کا حال کیا ہے، بہار کے لاکھوں بے روزگاروں کے روزگار کا کیا ہوا، سیلاب زدہ علاقے میں راحت رسانی کا کام کس حالت میں ہیں، بہار میں سڑکوںاور پل و بریج کا کیا حال ہے،صحت مراکز کا کیا حال ہے، علاج کے فقدان میں کتنے لوگوں کی موت ہوئی نہ تو بہار کے عوام حکومت سے سوال کرنے والے ہیں اور نہ ہی کوئی حکومت کے خلاف کسی طرح کامظاہرہ ہونے والا ہے ۔ سوشانت راجپوت کا معاملہ سی بی آئی کو سونپ دیا گیا یہی سبھی بنیادی مسئلوں کا حل ہے یعنی سارے بنیادی مسائل کا حل ہوگیا۔ سبھی کو روزگار مل گئے، صحت مراکزچکا چک، سیلاب زدگان کا مسئلہ ختم،کورونا دم دبا کر فرار ہوگیا، پل اور بریج کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں یعنی بہار سبھی ریاستوں میں اوّل۔اتنے دنوں سے جو سب سے بڑا مسئلہ تھا وہ سوشانت راجپوت کا مسئلہ تھا جسے سی بی آئی کو سونپ کر معاملے کو حل کر لیا گیا ۔ دوسری جانب کہیں تو چند میڈیا ہائوسس کا کام بھی منصفانہ نہیں رہا اس نے بنیادی مسائل کو عوام کے سامنے لانے اور بر سر اقتدار جماعت سے سوالات کرنے کے بجائے اپوزیشن سے سوالات کرنے اور انہیں گھیرنے کی کوشش کی گئی۔ ابھی حال ہی میں کانگریس کے ترجمان راجیو تیاگی کا ایک ٹی وی مباحثہ کے دوران طبیعت بگڑنے کے بعد انکا انتقال ہوگیا۔ راجیو تیاگی کے انتقال کے بعد ٹی وی کے مباحثوں پر سوال کھڑے کئے گئے لیکن سوال کھڑے کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ؎کیوںکہ ٹی وی کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور ٹی آر پی کی اندھی دوڑ پہلے کی طرح ہی برقرار ہے۔ الیکٹرونک میڈیا جس کا کام حکومت سے سوال کرنا سمجھا جاتا تھا اس نے اپنا کام چھوڑ دیا ہے اور اس نے حزب اختلاف سے سوال پوچھنے شروع کر دئے ہیں جس کا سیدھا اور واضح مطلب ہے کہ جمہوریت کا چوتھا ستون اب لڑکھڑا گیا ہے اس میں اب وہ پہلی جیسی بات نہیں رہی ہے وہ دم خم نہیں رہا وہ وقار اور عزت نہیں رہی۔ اب میڈیا ہاوسس کو یہ چاہئے کہ اس نے جو اپنا وقارکھونا تھا وہ کھو چکی عوام کے اندر اعتماد بحال کرنے کے لئے سوشانت راجپوت کا میڈیا ٹرائل چھوڑ کر اب ملک کے بنیادی مسائل پر دھیان دے ساتھ ہی مسائل پر اپوزیشن سے سوال کرنے کے بجائے بر سر اقتدار حکمراں جماعتوں سے سوال کرے تاکہ عوام کو غیرجانبدارانہ رپورٹ لگے اور میڈیا اپنا وقار پھر سے بحال کر سکے۔
بہر حال! سوشانت سنگھ کیس کو سپریم کورٹ کے ذریعہ سی بی آئی کو سونپ دئے جانے پر مرکزی اور بہار حکومت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ، خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بی جے پی کے قومی ترجمانوں نے چٹکی لیتے ہوئے یہ بات کہا ڈالی ہے کہ اب مہاراشٹر حکومت گئی، یعنی بی جے پی ابھی سے ہی مہاراشٹر اور بہار میں حکومت بنانے کا خواب دیکھنے لگی ہے۔ ان کا خواب پورا ہوگا یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن یہ سچائی ہے کہ عدالت کے فیصلے سے مہاراشٹر حکومت کی نیند ضرور اڑ گئی ہے۔ عدالت نے مہاراشٹر پولیس کے ذریعہ کی جا رہی جانچ سے ایک طرح سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور ان کی کار گردگی پر سوال بھی کھڑے کر دیئے ہیں۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ مہاراشٹر حکومت کو چاہئے تھا کہ جب اس کیس کو بہار کے بیٹے کی لڑائی بنایا جا رہا تھا تو وہ خود سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کر دیتی اور اس کو دو ریاستوں کی لڑائی سے بچالیتی اور اس سے وفاقی ڈھانچہ پر بھی سوال کھڑے ہونے سے بچایا جا سکتا تھا لیکن مہاراشٹر حکومت کی بدقسمتی ہی کہہ لیجئے کہ وہ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی ہے اسکا گھمنڈاور غرور لے ڈوبا، آنے والے دنوں میں یا تو مہاراشٹر حکومت مرکزی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی یا پھر حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ ختم شد