سرحدی خطے کو تعلیمی واقتصادی بحران سے نکالنا میری پہلی ترجیح

0
0
اگر مجھے رکسول کی نمائندگی کا موقع ملا تو علاقے کی تصویر بدل دونگا ;ششانک شیکھر
  ( محمد سیف اللہ)
 رکسول //رکسول اسمبلی حلقہ بھلے ہی سیاسی رہنماوں کی دوہری پالیسی اور اندیکھی کے سبب آزادی کے بعد سے لے کر آج تک بربادی کی دہلیز پر کھڑا ہوکر یہاں کی عوام کو قدم قدم پر آزمائشی دور سے گزرنے کے لئے مجبور کرتا رہا ہو مگر میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر مجھے اس حلقہ سے نمائندگی کا موقع ملا اور یہاں  کے عوام کی محبتوں نے میرا ساتھ دیا تو میں اس علاقہ کی نہ صرف تقدیر بدلنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر دونگا بلکہ بلا تفریق ہر کسی کو ترقی کی رفتار میں شامل کرنے کے لئے تعلیمی اور اقتصادی پالیسیوں کو بہتر سے بہتر بنانے کے اقدامات کئے جائیں گے یہ باتیں آرجے ڈی لیڈر ششانک شیکھر نے آج اس نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہیں انہوں نے اس موقع پر جہاں سرحدی خطہ کی قابل افسوس صورت حال کے لئے اس علاقے کی نمائندگی کرنے والے لیڈروں کی پالیسیوں کو ذمہ دار قرار دیا اور ان پر تنقیدیں کیں وہیں انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے سیاسی نمائندوں نے آج تک اس علاقے کی تعمیر وترقی اور اسے تعلیمی بحران کے دور سے باہر نکالنے کے لئے ذمہ دارانہ پیش رفت کی ہوتیں تو یہ سرحدی علاقہ آج کی تاریخ میں ترقی وخوشحالی کی کوئی اور ہی تاریخ لکھ رہا ہوتا مگر افسوس ذاتی وسیاسی مفادات کے لئے اس پورے علاقے کو بے یارو مددگار چھوڑ کر اس کی بربادی کا تماشا دیکھا جاتا رہا،حالانکہ آزادی کے بعد سے لے کر آج تک حالات نے کئی کڑوٹ لئے کئی لیڈروں نے عوام کا اعتماد حاصل کرکے یہاں کی نمائندگی کی،کئی چہرے آئے اور منظر سے غائب ہو گئے مگر حالات میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی،نہ علاقہ کو سیلاب کی مار سے بچانے کی کوئی قابل ذکر پیش رفت ہوئی،نہ سڑکوں اور ندی نالوں کی درستگی کا کام انجام پا سکا،نہ تعلیمی ادارے بحرانی کے دور سے باہر آسکے،نہ مزدوروں کو روزگار سے جوڑنے کی اسکیمیں تیار کی جاسکیں اور نہ ہی سماج کو زندگی کی مناسب سہولیات فراہم کرنے کے تعلق سے عملی اقدام کئے گئے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم سات دہائیاں گزار لینے کے باوجود ابھی بھی اصل ترقی کی تصویر دیکھنے سے محروم ہیں،انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے نمائندوں نے اپنی ذمہ داریوں کے مطابق علاقہ کی تعمیر وترقی میں دلچسپی دکھائی ہوتی تو یہ سرحدی خطہ اس وقت ملک میں اپنی انفرادی شناخت کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتا مگر ایسا اس لئے نہیں ہو سکا کیونکہ یہاں کی عوام نے اب تک جن لوگوں کو اعتماد کے قابل سمجھا انہوں نے نہ صرف انہیں فرقہ پرستی کے معاملے میں الجھا کر ترقی کی رفتار میں شامل ہونے سے روکے رکھا بلکہ یہاں کے تمام محکمے بد عنوانی کا شکار ہو کر عوام کے مسائل میں اضافے کا سبب بنتے رہے،حیرت کی بات تو یہ رہی کہ یہاں کے صحت محکمے بھی ہر وقت اپنی تباہی کا منظر پیش کرتے رہے لیکن اس سمت میں بھی کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں کی جاسکی،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی اس سرحدی علاقے کے لوگوں کو علاج کے لئے دور دراز علاقے کا سفر کرنا پڑتا ہے، انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ سے اس بات کا قائل رہا ہوں کہ سماج سے نفرت کے خاتمہ کے ساتھ جب تک سرکاری محکموں کو بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کی لعنت سے پاک نہیں کیا جائے گا یہاں کے حالات میں مثبت تبدیلی کے امکانات کی امید کرنا دیوانے کا خواب ثابت ہوگا،ششانک شیکھر نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بہار کی نتیش کمار نے عوام کا اعتماد کھو دیا ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں نے آج سے پانچ سال پہلے انہیں فرقہ پرستی کے خلاف ووٹ کیا تھا مگر انہوں نے بی جے پی کے ساتھ جاکر عوام کے فیصلے کو شرمندہ کیا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ انہیں بہار کی عوام آنے والے دنوں میں منہ توڑ جواب دے گی اور یہاں کا سیاسی منظر نامہ بدلے گا،انہوں نے کہا کہ ہند نیپال کی سرحد پر ہونے کے سبب رکسول ہمیشہ سرخیوں میں رہا ہے لیکن مقامی نمائندے آج تک اس علاقے کو وہ شناخت نہیں دلا سکے جو اس کا حق تھا شاید یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے لیکن بہار کے بدلتے منظرنامے میں اگر مجھے موقع ملتا ہے تو ہماری پہلی ترجیح اس علاقے کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلانے کی ہوگی ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا