بچیوں کی تعلیم سے متعلق منفی سوچ ختم کرنے کی ضرورت

0
0

امت بیجناتھ گرگ
جے پور، راجستھان

آزادی کے وقت ملک میں خواتین کی شرح خواندگی 8.6فیصد تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہوا اور 2011کی مردم شماری کے مطابق ان کی شرح خواندگی 65.46ہو گئی۔لڑکیوں کے لئے اسکولوں میں گھریلو اندراج (جی ای آر)کا تناسب پرائمری سطح پر 24.8جبکہ ثانوی سطح پر(گیارہ سے چودہ برس کی عمر) 4.6 ہی تھی۔ پچاسویں دہائی کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جانے لگی۔ اس دوران خواتین کی شرح خواندگی،مرد شرح خواندگی 46.32فیصد کے مقابلے 49.69فیصد رہی۔آزادی کی تین دہائیوں کے بعد خواتین میں شرح خواندگی مردوں کے مقابلے تیزی سے بڑھی۔1971میں 22فیصد تھی یعنی گزشتہ برسوں کے مقابلے اضافے کی شرح 11.72فیصد رہی۔سال 2000سے لے کر 2005تک کی مدت کے دوران لڑکیوں کی طرف سے دوران تعلیم انقطاع کی شرح16.5فیصد کی کمی دیکھی گئی۔آج کیرل میں سب سے زیادہ خواتین شرح خواندگی 92فیصد ہے۔جبکہ راجستھان میں یہ محض 52.7فیصد ہے، جو ملک میں سب سے کم ہے۔بڑی آبادی والی ریاست اتر پردیش میں خواتین کی شرح خواندگی 59.3اور بہار میں 53.3ہے۔لکشدیپ،میزورم ،تریپورہ اورگووا میں یہ صورت حالکافی بہتر ہے۔
مرد و خواتین میں تقابل کے علاوہ دیہی اور شہری علاقوں میں بھی خواتین کی تعلیم میں بہت فرق ہے۔ سال 2011کی مردم شماری کے اعداد و شمار کو دیکھا جا ئے تو جہاں ایک طرف مرد شرح خواندگی 82.14تھی تو دوسری طرف خواتین شرح خواندگی 65.46ہی تھی۔ سن 1999 کی بات کی جائے تو اس وقت 61.6فیصد مرد تعلیم یافتہ تھے لیکن اس وقت کی خواتین محض 33.7فیصد ہی تعلیم یافتہ تھیں۔ فی الحال ملک میں تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ سرو شکشا ابھیان اورخواتین میں خواندگی کے لئے ساکشر بھارت مشن جیسے بڑے پروجیکٹوں کی بدولت ملک میں خواتین کی شرح خواندگی بڑھ کر تقریباً 66فیصد ہو گئی ہے لیکن غریبی اور سماجی سوچ کی وجہ سے اب بھی ان کی شرح خواندگی پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔
ملک میں اوسط شرح خواندگی عالمی شرح خواندگی 84فیصد سے کافی کم ہے۔ شرح خواندگی کے لحاظ سے 51ترقی پذیر ممالک میں ہندستان 38ویں مقام پر ہے۔ دیہات اور شہر کے مابین تعلیم کا تناسب اب گھٹ کر صرف پندرہ فیصد رہ گیا ہے جبکہ مرد و خواتین کے مابین یہ 16 فیصد ہے اسی طرح دیہی علاقوں میں 71فیصد خواندگی ہے جبکہ شہری علاقوں میں 86فیصد ہے۔دیہی علاقوں میں 4.5فیصد مرد گریجویٹ ہیں،جبکہ خواتین صرف2.2فیصد ہی گریجویٹ ہیں جبکہ شہری علاقے میں یہ تناسب 17 فیصد مرد اور13 فیصد عورتوں کا ہے۔ یہ اعداد و شمار تعلیم پر قومی سیمپل سروے کے 71ویں دور کے مطابق ہیں۔مذکورہسروے 4577گاوء ں کے 36479کنبوں اور3700شہری علاقوں میں 29447کنبوں کے درمیان کیا گیاتھا۔
گزشتہ دہائیوں میں ملک کے تعلیمی میدان میں ہوئی ترقی کے باوجود ابھی بھی کثیر تعداد میں خواتین غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ اسکولی تعلیم میں مسلسل ریکارڈ بنانے کے با وجود 24کروڑ خواتین آج بھی تعلیم کی روشنی سے دور اندھیروں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ ملازمت کی بات کریں تو محض13.9فیصد خواتین شہری علاقے میں بر سر ملازمت ہیں جبکہ 29فیصد خواتین گھریلو اور زرعی کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں خواتین بڑی تعداد میں تعلیم اورروزگار کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے ابھی بھی کروڑوں خواتین بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ ملک کے انسانی وسائل میں تقریباً 50فیصد خواتین کی حصہ داری ہے لیکن بنیادی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے ان سے ملک کی ترقی میں شراکت داری کا موقع چھین لیا گیا اوراس کا منفی اثر ملک کی معیشت اور ترقی پر پڑ رہا ہیکیونکہ اس کی رفتار امید سے کم ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین کی عدم تعلیم کا اثر سماج پر بھی پڑ رہا ہے جو کہ تشویش کا باعث ہے۔
آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی خواتین کے اس قدر غیر تعلیم یافتہ ہونے کے اسباب پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ غریبی اورلڑکیوں کی تعلیم سے صرف نظراس کے لئے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ زیادہ تر گھروں میں تعلیم کے معاملے میں لڑکوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔گاوئں دیہات میں کمزور طبقوں کی بچیاں اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے اسکول جانے سے محروم ہو جا تی ہیں کیونکہ ان کے والدین مزدوری کے لئے جاتے ہیں اور انہیں چھوٹے بھائی بہنوں کی دیکھ ریکھ کے لیے گھر پر چھوڑ جاتے ہیں۔اسی طرح دیہی علاقوں میں اسکولوں کا گھر سے دور ہونا اور اسکولوں میں بیت الخلاء کا نہ ہونا بھی بچیوں کے اسکول چھوڑنے کا سبب ہوتا ہے۔ملک میں 99فیصد کنبوں کے لئے پرائمری اسکول دو کلو میٹر کے دائرے میں ہے لیکن جہاں تک ثانوی اسکولوں کا سوال ہے تو دیہات میں یہ 60فیصد کنبوں کے لئے2 کلو میٹر کے دائرے میں ہیجبکہ شہر میں یہ سہولت 91فیصد بچوں کو دستیاب ہے حالانکہ شہروں میں بسوں اوررکشوں کی دستیابی آسان ہوتی ہے۔
تعلیمی اداروں پر سرکاری اخراجات کی تصویر بھی ان اعداد و شمار سے سامنے آ جاتی ہے کہ دیہی علاقوں میں زیادہ تر بچے سرکاری اسکولوں میں ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق دیہی علاقوں میں پرائمری سطح پر 72فیصد اور ثانوی سطح پر64فیصد طلبا سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ شہروں میں پرائمری سطح پر 31فیصد اور ثانوی سطح پر 38فیصد بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔زیادہ تر ممالک میں اسکول،کالج اور دیگرتعلیمی اداروں کا خرچ سرکار برداشت کرتی ہیں۔ لوگوں کو صرف ٹیوشن فیس،امتحان فیس اور کتاب وغیرہ کی اخراجات برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ہندستان میں تعلیم کے میدان میں نجکاری کافی بڑھی ہے جس کی وجہ سے تعلیم پر خرچ بھی کافی بڑھ گیا ہے۔ادھر سرکار دیہی اور شہری علاقوں میں اسکولوں کی تعداد میں اضافہ اور اسکولوں سے گھر کی دوری کم کرنے کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم پر بھی توجہ دے رہی ہے۔ فی الحال بچیوں کو اسکول لے جانے کے لئے متعدد اسکیمیں چلائی جا رہی ہیں جو کافی حد تک کامیاب بھی ہیں مگرخواتین کو متوازن اور تعلیم یافتہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پوری ابھی مزید توجہ دی جائے کیونکہ یہ حقیقت ہے زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کا تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔(یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2019 کے تحت لکھی گئی ہے)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا