خاندان گنھیلہ

0
0

کالم نویس
میاں محمد یوسف
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے حضرات انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے اور سب سے آخر میں محبوب خدا جناب نبی کریم صلی الله عليه وسلم تشریف لائے اور آپ کو خاتم النبیین کا اعزاز حاصل ہوا آپ صلی الله عليه وسلم کی وفات کے بعد یہ منصب حضرات صحابہ کرام رضوان کو ملا اصحابِ رسول دین اسلام کی دعوت لیکر قریہ قریہ گئے آج ہم مسلمان ہیں تو یہ صحابہ کرام کی قربانیاں ہیں اس کے بعد یہ سلسلہ حضرات تابعین تبع تابعین کے ذریعے چلتا رہا اور پھر آئمہ کرام نے اس منصب کو سنبھالا اس کے بعد یہ اعزاز اللہ تعالیٰ نے حضرات علماء کرام اور اولیا اللہ کو عطا کیا ویسے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ تم میں سے ہر انسان مبلغ ہے مگر دین سکھانے کے لئے ان دو طبقوں کا اللہ تعالیٰ نے انتخاب کیا چونکہ آج کا موضوع اولیا کرام پر ہے میں اس کے بارے ميں کچھ معروضات پیش کروں گا
اللہ تعالیٰ نے اولیا اللہ کی شان ان الفاظ میں بیان کی ذرا تصورات کی دنیا میں جائیں ایک ہے کہ ہم کسی کی شان بیان کریں تو اس کی بھی عظمت ہے لیکن ان ہستیوں کا عالم کیا ہو گا جن کی عظمت رب بیان کرے فرمایا کہ یقینا وہ لوگ جنہوں نے اعلان کیا کہ ہمارا رب الله ہی ہے اس پر مصائب آئے پھر اس پر استقامت کا مظاہرہ کیا تو ہم انکی حمایت میں فرشتے اتارتے ہیں انہیں بشارت دی جاتی ہے گبھراؤ نہیں ہم تمہارے دوست ہیں ایک اور جگہ ارشاد فرمایا خبردار الله تعالیٰ کے دوست خوف اور غم سے بہت دور ہیں
اب دنیا میں بے شمار اولیائے کرام اپنے اپنے وقت میں قال الله اور قال الرسول کی صدا بلند کرتے رہے ولی الله کا معنی اللہ تعالیٰ کا دوست ہے اور ہم کسی سے دوستی لگائیں تو اسے دیکھ پرکھ کر ہاتھ بڑھاتے ہیں تو الله تعالیٰ نے بھی منتخب افراد کو اپنی دوستی کے لئے چُن لیا ہر دوستی قربانی مانگتی ہے
چاہنے والا ہمیشہ یہ توقع رکھتا ہے کہ میرا محبوب جس نگاہ سے مجھے دیکھتا ہے اس نگاہ سے کسی اور کو نہ دیکھے اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے دوستوں کو اس پر پابند کیا
ولی اس کو کہتے ہیں جس کو دیکھ کر خدا یاد آئے اور ولی شریعت کا پابند ہوتا ہےاور ولی کسی مسلک کا نمائندہ نہیں ہوتا بلکہ ولی تو کفار کو بھی تبلیغ کرتے ہیں اور تمام مسالک کے لوگ اولیا اللہ کے لئے یکساں ہوتے ہیں اجکل ہر فرقہ ولایت کو اپنے ساتھ جؤڑتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح باپ کے اولاد یکساں ہوتی ہے اسی طرح ولی کے لئے لوگ برابر ہوتے ہیں اور جو خلاف شرح افعال کرے وہ ولی نہیں ہوسکتا ہاں مجذوب کی الگ کیفیت ہے مجذوب لوگوں کے سامنے پاگل دیوانہ ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرب ہوتا ہے لیکن ہر بندہ مجذوب نہیں ہوتا اجکل اس منصب کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اور لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے طرح طرح کے غیر شرعی افعال لوگ مزارات پر کرتے ہیں سجدہ کرنا اور ولی سے مانگنا اور خواتین کا مزارات پر جانا یہ سب غیر شرعی کام ہیں ہر کام کی شریعت نے حد رکھی ہے اور الله تعالیٰ تو قادر مطلق ہے ہندو بُت سے مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بھی عطا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بندے کے گمان کے ساتھ ہیں لیکن غیر اسلامی طریقے سے کوئی بھی عمل کرنا کسی صورت جائز نہیں قبروں پر جا کر ان سے مانگنا کسی جگہ ثابت نہیں اللہ تعالیٰ سے ہی مانگنا چاہئے ولی بھی اللہ تعالیٰ سے مانگ کر عطا کرتے ہیں
پھر ایک اور تاثر دیا جاتا ہے کہ ولی وہ جس میں کرامات ہوں حالانکہ ولی بننے کے لئے کرامت کا ہونا ضروری نہیں کسی اللہ والے کی صحبت میں ایک مرید کچھ عرصہ تک رہا جب جانے کا وقت آیا تو عرض کیا کہ حضرت میں اتنا عرصہ آپ کے پاس رہا کوئی کرامت نہ دیکھ سکا آپ نے فرمایا کہ تم نے یہاں کوئی کام خلاف شرح دیکھا تو اس نے عرض کیا نہیں تو آپ نے فرمایا کہ اس سے بڑی کرامت اور کیا ہو سکتی ہے الحمد للہ یہاں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے برعکس کچھ نہیں ہوتا بات کرامات کی نہیں اتباع سنت ہے
میرا تعلق جس خاندان سے ہے اس کو میاں گنھیلے وال کہا جاتا ہے گنھیلہ بالاکوٹ کا ایک گاؤں ہے وہاں ہمارے جد امجد حضرت میاں جمال ولی کا مسکن تھا اس وجہ سے گنھیلوی کہلائے اس
خاندان کو اللہ تعالیٰ نے ولایت منصب پر فائز کیا اور سب سے پہلے بزرگ حضرت میاں جمال الدین ولی کی حضرت خواجہ خضر سے ملاقات ہوئی
حضرت خواجہ خضر مختلف انبیاء علیہم السلام کے ادوار میں منظر عام پر آتے رہے ان کے بارے ميں روایات میں اختلاف ہے کہ یہ نبی تھے یا ولی تھے قران مجید میں انکا ذکر موجود ہے مگر تفصیل نہیں ہے اس بات پر اتفاق ہے کہ الله تعالیٰ کے برگزیده بندے تھے انکی حضرت میاں جمال ولی سے ملاقات ہوئی
اور یہ سلسلہ وہاں سے جاری ہوا یہ لقب میاں حضرت خضر کا عطا کردہ ہے ہماری گوت گجر کھٹانہ ہے الحمد للہ آج تک گنھیلہ کا فیض مختلف ممالک میں جاری ہے انڈیا پاکستان آزاد کشمیر میں اس خاندان کے دین اسلام کی اشاعت میں مصروف ہیں یہ لوگ بھی صحابہ کرام کے طریقے پر دین اسلام کی تبلیغ کے لئے نکلے جہاں گئے وہیں آباد ہو گئے آپ کوٹلی جائیں تو والی کشمیر حضرت میاں الف دین کا مزار ہے اور آج بھی انکے فرزندان اسلام کی اشاعت میں مصروف ہیں مظفرآباد کوٹلہ گاؤں چھکڑیاں جائیں تو حضرت میاں محمد امین صاحب مدفون ہیں اور ان کے ساتھ انکے صاحبزادے میاں محمد قدیر صاحب مدفون ہیں اور ان کے سات صاحبزادے بھی ساتھ مدفون ہیں اور یہ فیض آج بھی جاری ہے بالاکوٹ تو اس خاندان کا مسکن ہے اور بے شمار ولی گزرے اسی طرح انڈیا کی طرف کشمیر میں عیشمقام سری نگر لار اور ریاسی راجوری

اور دیگر مقامات پر یہ بزرگ مدفون ہیں اور ان کی نسل اپنے اباؤ اجداد کے مشن پر عمل پیرا ہے یہ لوگ اپنے وطن چھوڑ کر کیوں گئے ہر شخص کو اپنا وطن پیارا ہوتا لیکن بس صرف دین اسلام کی خاطر مہاجر ہوئے اور بالاکوٹ کے قریب حضرت میاں جمال ولی بٹکرڑ حسہ کے مقام پر مدفون ہیں، وہاں ان کے مزار کو درختوں کے جھرمٹ نے گھیرا ہوا ہے اور ممتاز عالم دین مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ بالاکوٹ جا رہے تھے جب دیکھا تو پوچھا کہ یہ درختوں کے جھرمٹ میں کیا ہے کسی نے بتایا کہ یہاں ایک ولی اللہ مدفون ہیں آپ نے گاڑی رکوائی اور مراقبہ کیا اور فرمایا کہ ایک نہیں اس قبرستان میں سات قلندر مدفون ہیں اب قلندر کا مرتبہ ولی سے بڑا ہوتا ہے یعنی قلندر کے اندر ولایت کا سمندر ہوتا ہے اس واقعہ کے بعد بے شمار بزرگ وہاں مدفون ہوئے الغرض اس خاندان کو اللہ تعالیٰ نے بلند کیا بالاکوٹ سے نکل کر کھولیاں درویش آباد میں حضرت میاں درویش رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک کثیر تعداد اس خاندان میں اولیا کرام کی تھی اور ہے وادی نیلم کے مشہور بزرگ حضرت میاں نظام الدین اولیا گنھیلہ سے فیض یافتہ ہیں موہڑہ شریف والے پیر نظیر اور میاں نظام الدین کنگن لار شریف والے بھی اس خاندان سے فیضان یافتہ ہیں گویا اس خاندان سے ولایت کے چشمے پھوٹے ہیں
اور میری معلومات کے مطابق دو چیزوں کی باقاعدہ اجازت نہیں ہے ایک لنگر خانہ سسٹم نہیں وقت پر جو میسر ہے کھلاؤ لیکن باقاعدہ لنگر کی اجازت نہیں ہے اور دوسرا جس طرح عام خانقاہوں میں ہوتا ہے باپ کے بعد بیٹا گدی نشین اس خاندان میں جو عبادت کرے گا اس کو یہ منصب ملے گا کوئی ایک گدی نشین نہیں اس کی حکمت رب جانتا ہے مگر دنیاوی لحاظ سے اس میں کچھ قباحتیں نظر آتی ہیں جو محنت کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ یہ منصب عطا فرمائیں گے مگر باپ کے بعد بیٹا اگر محنت کرے گا تو ولایت ملے گی اور جیسے مولوی کا بیٹا بغیر علم کے عالم نہیں ہوتا اسی طرح ولی کا بیٹا بغیر عبادت کے ولی نہیں ہوتا اور اس خاندان کے جتنے بھی اولیا گزرے ان کے اندر انا یعنی میں نہیں تھی عاجزی موجزن تھی اور لالچ نام کی کوئی چیز نہیں تھے درویش تھے ماضی قریب میں ایک بڑے بزرگ میاں ولی الرحمان صاحب جو کئی مرتبہ ممبر اسمبلی رہے مگر کوئی جائیداد نہیں بنائی جو ملا تقسیم کر دیا اور کئی مرتبہ کوئی مہمان آنے تو ان کے پاس کھانا کھلانے کے لئے پیسے نہیں ہوتے تھے
ایک روپیہ کرپشن کوئی نہیں ثابت کر سکا ولی میاں کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ حضرت میاں جمال ولی کے پہلو میں دفن ہوئے اس خاندان میں کثیر تعداد میں علماء کرام بھی ہیں اور مدارس کے ذریعے دین اسلام کی تعلیمات دے رہے ہیں عاجزی انکساری اس خاندان کا شیوہ رہا بہت کچھ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے
اور عاجزی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کی محبت میں اپنے آپ کو اس قدر فناہ کیا کہ بات لبوں سے نکالتے ہی قبول ہو جاتی تھی بہت سے واقعات ہیں اور یہ رب العزت کی مانتے تھے تو الله تعالیٰ کی مخلوق انکی بات مانتی تھی آج بھی انکے مزارات پر جنگل کا درندہ شیر حاضری دیتا ہے اور ہر فرد اپنی ایک تاریخ رکھتا تھا میں اگر نام لوں طویل فہرست ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں کہ درندے غلامی کریں اُن کے لئے ایک واقعہ بطور دلیل پیش کرتا ہوں
حضرت سفینہ صحابی رسول ہیں جنگل میں لشکر سے بچھڑ گئے سامنے شیر آگیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے مخاطب کرکے فرمایا کہ تو جنگل کا بادشاہ ہے میں محمد کا غلام ہوں شیر اپنی درندگی بھول گیا اور زمین پر بیٹھ کر اشارہ کرنے لگا کہ آپ میری پُشت پر سوار ہو جائیں میں آپ کو لشکر سے ملا آؤں
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے کوزے میں سمندر بند کیا ایک شعر میں پوری دنیا کو سمو دیا فرماتے ہیں کہ
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہ سب نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کا نتیجہ ہے جو محمدی ہو گا وہی ولی ہوگا اور آجکل جو خرافات کوفروغ مل رہا ہے یہ ولایت نہیں بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت امت کو گمراہ کیا جا رہا ہے اولیا کرام کی یہ تعلیمات نہیں ہیں بلکہ جو شریعت کے تابع نہ ہو وہ ولی کہلانے کا حق دار ہی نہیں اس خاندان کے ایک عظیم کردار حاجی میاں فضل الہی شہید المعروف نانگا میاں کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار کمالات سے نوازا تھا مستجاب الدعوات تھے میں نےانہیں بہت قریب سے دیکھا اور دور حاضر میں الحمد للہ ایک کثیر تعداد آج بھی اپنے اجداد کے مشن پر عمل پیرا ہے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے اکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کا نام بلند کریں اور ان کی تعلیمات کو عام کریں اور اپنے کردار و عمل سے ثابت کریں کہ ہم انکے جانشین ہیں کیونکہ دھی جاگ کے بغیر نہیں جمتا اور ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے کہاوت ہے جتنی شکر ڈالیں گے میٹھا ہی ہوگا اور نیک لوگوں کی صحبت کا اثر ہوتا ہے کسی بزرگ کے پاس ایک شخص آیا گرمی تھی ایک مرید انہیں ہاتھ والے پنکھے سے ہوا دے رہا تھا اس نے سوال پوچھا کہ کسی قبرستان میں بہت گناہ گار ہوں تو وہاں کوئی نیک شخص دفن ہو تو کیا ان گناہ گاروں پر بھی رب کی رحمت برستی ہے
آپ نے فرمایا کہ ہاں پڑتی ہے پوچھنے والے نے دلیل مانگی تو حضرت نے اس کے مزاج کے مطابق دلیل دی پوچھا یہ پنکھا کس کو ہوا دینے کے لئے جُھل رہا ہے اس نے کہا آپ کے لئے تو آپ نے فرمایا بس یہ دلیل ہے کہ جب نیک پر رب کی رحمت برستی ہے تو اثر گناہ گاروں پر بھی ہوتا ہے یہ بھی ان بندگان خدا کا طریقہ ہے کہ بندے کی ذہنی صلاحیت کے مطابق اُسے جواب دیا جائے یہ بھی اولیا کرام کی کرامت ہے انکی بصیرت والی نگاہ چور ڈاکو بدماش لوگوں پر پڑتی ہے تو وہ تہجد گزار بن جاتے ہیں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا