یاد رفتگاں : مقصوداحمدضیائی
یوں ہزاروں میکدے ہیں پرکہاں پائینگےہم
ساقیا تیرے شرابِ کہنہ کا کیف و سرور
مورخہ ۱۱ اگست ۲۰۲۰ء بروزمنگل پچھلے پہر بذریعہ واٹس ایپ یہ خبر نظروں کے آگے تیزی کے ساتھ گھومتی نظر آئی کہ عالمی شہرت یافتہ اردو زبان کے باکمال شاعر ڈاکٹر راحت اندوری انتقال کر گئے ، بے ساختہ آنکھوں سے اشک رواں ہوگئے آنکھوں نے آنسووں کا بھرپور خراج پیش کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا سچی بات یہ ہے کہ مجھے درجنوں عام افراد کی موت پر اتنا غم نہیں ہوتا جتنا کہ کسی فعال مرد میداں کی موت پر ہوتا ہے کیوں کہ وہاں عام لوگوں کا مسلہ ہوتا ہے جب کہ یہاں ایک مشن کی موت ہوتی ہے ایک تحریک کی موت ہوتی ہے اس لحاظ سے ڈاکٹر راحت صاحب اندوری مرحوم کی موت بلاشبہ ملت کا ناقابل تلافی نقصان ہے درحقیقت ڈاکٹر راحت اندوری ‘ اندور کے ہی نہیں بلکہ اس دور کے بے باک شاعر تھے ان کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ آنکھ سے آنکھ ملاکر بات کرنے کا فن جانتے تھے ‘ حق گوئی و بےباکی ان کا وصف خاص تھا حالات حاضرہ پر کڑی نظر رکھتے تھے انہوں نے اپنی گراں مایہ شاعری سے ایک جہاں کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا بلکہ ان کی ہمہ دانی نے حلقہ علم و ادب کو واقعی ورطہ حیرت میں ڈال رکھا تھا ڈاکٹر راحت اندوری ملکی اور بین الاقوامی مشاعروں کے مقبول شاعر تھے ان کا ایک خاص لب و لہجہ تھا شاعری کے موضوعات عام طور سے حالات حاضرہ سے تعلق رکھتے تھے اہم بات یہ کہ ان کے اشعار اردو ادب کا حسین گلدستہ ہوتے تھے جس میں گلہائے رنگا رنگ کھلے ہوئے ہوتے وہ ایک بار پونچھ بھی تشریف لائے تو پہلی بار رو برو کلام سننے کا شرف حاصل ہوا یہ پروگرام یادرگار اور تاریخی رہا آپ کے کلام کی خاص بات یہ تھی کہ ہر شعر حقیقت سے بھرپور ، دلکش ادا ، دلنواز انداز ، کہیں کمال تو کہیں جمال ، کہیں نوال کہیں تینوں یکجا ان کی علمیت ، ذہانت و فطانت ، ژرف نگاہی اور بالغ نظری نے پہلے سے قائم اعتماد کو اورمحکم کر دیا
اس کی باتیں کہ گل و لالہ پہ شبنم برسے
سب کو اپنانے کا اس شوخ کو جادو آئے
آپ عالمی حالات پر باز کی سی نگاہ رکھتے تھے بطور خاص مسلمانان ہند کے حالات کی عکاسی کے لیے ان کے پاس وہ ادبی پیمانہ تھا جس سے ناپ کر ہر لفظ اپنے کلام میں بر موقع ، برمحل ، اور بر وقت موتی کی طرح جڑ دیتے تھے اب ان کے اس دنیائے بے مایہ سے کوچ کر جانے کے بعد ان کے ادبی شہ پارے اور دیگر علمی باقیات ایسا کارنامہ ہیں کہ جو بعد والوں کے لیے کردار سازی ، تعمیر ذات ، تہذیب و تمدن اور اخلاقی قدروں نیز پاکیزہ روایات کا بیش قیمت سرمایہ ہیں آج صبح برادر اکبر ماسٹر خوشنود احمد خاں جو کہ اہل علم کے بے حد قدر داں ہیں کی یاد ہانی پر راحت اندوری کی یادوں کو سمیٹنے بیٹھا تو ایک شعری مجموعہ زیر تبصرہ آگیا حق تعالی نے مرحوم کو کس قدر علمی شغف دیا تھا اور نکتہ رسی کی کتنی اعلی صلاحیت سے نوازا تھا کتنا اچھا حافظہ مرحمت فرمایا تھا بطور خاص برمحل اشعار کہنے کی کتنی نادر قابلیت عطا فرمائی تھی بلاشبہ وہ زبان و بیان پر عبور رکھنے والا ادیب اور شعر وسخن سے خلاقانہ وابستگی رکھنے والا کثیراللسان عبقری تھا جب اس حادثہ جانکاہ کی خبر ملی تو جذبات بے قابو ہوگئے ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم اردو زبان و ادب کے بجا طور پر پاساباں تھے ملک میں بڑھتے کورونا انفیکشن کے دوران وقت کا یہ عظیم المرتبت شاعر بھی محفوظ نہ رہ پایا آں مرحوم نے وفات سے ایک روز قبل اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ کوویڈ کی شروعاتی علامتیں نظرآنے کے بعد کل میرا کورونا ٹیسٹ کیا گیا جس کی رپورٹ پازیٹو آئی ہے آربندو اسپتال میں ایڈمنٹ ہوں دعا کیجئے جلد سے جلد اس بیماری کو شکست دے دوں “ انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لوگوں سے دعا کی بھی اپیل کی تھی اور ساتھ ساتھ یہ بھی گزارش کی تھی کہ خیریت جاننے کے لیے انہیں فون نہ کیا جائے انہوں نے اس حوالے سے یہ بھی لکھا کہ میری ایک اور التجا ہے کہ مجھے یا گھر کے لوگوں کو فون نہ کریں میری خیریت ٹوئٹر اور فیس بک پر آپ کو ملتی رہے گی ” بہ ہرحال اردو ادب کے محبین کے لئے اردو کے اس پاسباں کا سفر آخرت ایک سانحہ سے کم نہیں ان کی موت سے اردو ادب کی دنیا میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے وہ تبسم بکھیرتا ہوا روشن چہرہ باوقار شخصیت اسٹیج پر جب آتے تو ایسے لگتا کہ جیسے کوئی والئ ریاست تخت خاص کو رونق بخشتا ہے یہ خدا ہی جانتا ہے کہ ان جیسا مسحور کن کوئی غزل خواں گلستان اردو میں پھر کب چہکے گا یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ یہ چہک انہیں کے حصے کا خاصہ تھی جانے والا تو گیا اب داستاں رہ گئی مسنون ایصال ثواب اور نیک دعاؤں کے سوا کیا بھی کیا جا سکتا ہے ہر آنکھ ان کے غم میں نم ہے آہ !
سفینہ چاہیئے اس بحر بیکراں کے لیے
ڈاکٹر راحت اندوری عصر حاضر کے باکمال شعراء میں شمار ہوتے تھے نڈر اور بےباک بھی تھے سلگتے موضوعات پر ان کی شاعری سننے لائق ہوا کرتی تھی ان کی شاعری کے چند نمونے ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں
سب سے پہلے ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم کا وہ قطعہ جو ان کی وفات کے بعد سب سے زیادہ کہنے سننے میں آیا فرمایا کہ
زم زم و کوثر تسنیم نہیں لکھ سکتا
یا نبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپ کے نام کی اک میم نہیں لکھ سکتا
صلی اللہ علیہ وسلم
نئی ہواوں کی صحبت بگاڑ دیتی ہے
کبوتروں کو کھلی چھت بگاڑ دیتی ہے
جو جرم کرتے ہیں اتنے بُرے نہیں ہوتے
سزا نہ دے کے عدالت بگاڑ دیتی ہے
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
جوآج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار
میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے
میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا
یہاں ہر موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا
آخری بات : ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم کی آواز ان کا طرز ترنم و تکلم ہزاروں کے مجمع کو اپنی گرفت میں لینے والی ان کی مقناطیسی قوت کی حامل با وجاہت شخصیت ان کی ذات فیض رسا ان کا ہمدردانہ طرز تخاطب خاص و عام کو تا حیات رہ رہ کر یاد آتے اور رولاتے رہیں گے ان کے انتقال کے ساتھ اردو ادب اور شعر و سخن کا ایک باب بند ہوگیا
محفل میں اب وہ گرمی محفل نہیں رہی
نازاں تھی جس پہ شمع وہ پروانہ چل بسا