’جو تبدیلی آئی ہے اُسے بدلنے کیلئے مجھ میں طاقت نہیں ‘

0
0

جیل کے اندر اور باہر جس احترام کی توقع رکھتے تھے ہمیں نہیں ملا :ڈاکٹر شاہ فیصل
کے این ایس

سرینگر؍؍محض ایک سال بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے نوجوان سیاسی رہنما ڈاکٹر شاہ فیصل کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں جو تبدیلی آئی ہے ،اُسے بدلنے کیلئے اُن میں طاقت نہیں ہے ۔بیوروکریسی کے عہدے کو چھوڑ کر سیاست میں قدم رکھنے والے ڈاکٹر شاہ فیصل نے محض ایک سال کے سیاسی سفر کے بعد سیاست کنارہ کنارہ کشی کیوں کی ؟اس حوالے سے کشمیر نیوز سروس کیساتھ ایک تفصیلی انٹر ویو میں ڈاکٹر شاہ فیصل کا کہناتھا کہ کشمیر کو ایک نئی سیاسی حقیقت کا سامنا ہے اورمیں لوگوں کو جھوٹے خواب نہیں دکھانا چاہتا ہوں جب کہ میں اسے تبدیل کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتاہوں ۔جب اُن سے پوچھا گیا کہ آئی ایس چھوڑ کر اپنی سیاسی پارٹی بنانے کے بعد آپ نے سیاست سے کنارہ کشی کیوں اختیارکی ؟ تو انہوں نے کہا کہ سیاست میں لوگوں کے سامنے ایک نظریہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے،لیکن 5 اگست ہماری تاریخ کا ایک ایسا آبشار والا لمحہ تھا،جس نے ہمیشہ کیلئے سب کچھ بدل دیا ،اس وقت کا ہم نے جو قیاس کیا تھا اب وہ زیادہ مناسب نہیں ہے اور اب ایک نئی سیاسی حقیقت بھی سامنے ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا’وقت بدل گیا اور یہ تبدیلی اتنی بڑی تھی کہ وہ ہم سے آگے بڑھ گئی۔ مجھے احساس ہوا کہ میں اپنی حد کو قبول کروںاور لوگوں کو سبز باغ نہ دکھائوں ، لوگوں کو میری ایمانداری اور انسانی ہمدردی کی داد دینی چاہئے اور مجھے آگے بڑھنے دینا چاہئے۔کیا آپ دوبارہ سیول سروس جوائن کریں گے ؟،اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا’ابھی میں نے سیاست چھوڑ دی ہے،لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میں یہاں سے کہاں جاؤں گا؟۔ زندگی جیسی بھی آتی ہے، میں اُسے گلے لگانے کے لئے تیار ہوں‘۔ایک اور سوال کے جواب ڈاکٹر شاہ فیصل کا کہناتھا ’سچ پوچھیں تو ، ہم وقت کے ساتھ تیار ہوتے ہیں اور کچھ انتخابات جو ہم نے ہمیشہ مختلف طریقے سے کیے ہوتے ہیں، ہم غلطیاں کرتے ہیں اور ہم سیکھتے بھی ہیں، یہی زندگی ہے‘۔ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاہ فیصل کہتے ہیں ’مجھے احساس ہوا کہ میرے استعفیٰ نے اچھا کرنے کی بجائے زیادہ نقصان ہی پہنچا ہے، بہت سارے طلبا جو سول سروسز میں حاضر ہونا چاہتے تھے ان کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ میرے ساتھیوں کے حوصلے پست ہوئے۔ پورے ہندوستان میں ، ایک غلط پیغام گیا کہ میں ملک مخالف ہوں، میں نے اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا‘۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا نظر بندی کے دوران آپ میں کوئی تبدیلی آئی ،کیا آپ نے جیل میں رہ کر یا خانہ نظر بندی کے دوران سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا ذہن بنایا تھا ؟اس کے جواب میں ڈاکٹر شاہ فیصل کہتے ’جی ہاں ! میں نے اپنا ذہن بالیا تھا ،میں نے وقت نکا ل کر اپنی ماضی کی زندگی اور نئی گھریلو اور جغرافیائی سیاسی حقائق کو دیکھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے صحیح انتخاب نہیں کیا تھا۔ میں سسٹم کا حصہ بن کر بہت معنی خیز کام کر رہا تھا۔ اب میں نہ تو کوئی اچھا کام کررہا ہوں اور نہ ہی مجھے کوئی اندازہ ہے کہ میں نئی سیاسی تبدیلی کے دوران لوگوں کی رہنمائی کہاں کروں گا۔جب اُن سے پوچھا گیا کہ افواہیں گرم ہیں کہ آپ کو لیفٹیننٹ گو رنر کا مشیر بنایا جائیگا ؟تو انہوں نے اس کے جواب میں کہا ’مجھے اس کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہے‘۔ایک اور سوال کے جواب میں داکٹر شاہ فیصل کا کہناتھا ’میں اپنے آپ کا دوسرے لیڈران کیساتھ موازنہ نہیں کرسکتا، مجھے لوگوں سے بہت پیار ملا اور میں نے کبھی توقع نہیں کی تھی کہ ہمارے لئے کوئی فریاد کرے گا یا احتجاج کرے گا۔ لیکن جیل کے اندر اور باہر رہتے ہوئے ہمیں کچھ احترام کی توقع تھی ، ہاں! یہ حوصلہ افزائی ہوئی ہوتی کہ ہم اس خطے کے خیر خواہ ہیں۔یہ احترام میں نے کہیں نہیں پایا اور میں اس اعتماد کو قائم کرنے کے لئے زندگی بھر انتظار نہیں کرسکتا ہوں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ شورش والے علاقے میں پوری زندگی اعتماد قائم کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا