شبانہ عشرت
پٹنہ،بہار
دنیا میں اپنے درد کی تشہیر کیا کروں
روٹھی ہے مجھ سے میری ہی تقدیر کیا کروں
دم گھٹ رہا ہے زیست بنی ہے عذاب جاں
تو ہی بتا اے وقت کی زنجیر کیا کروں
اب ختم ہو گیا ہے یقین وگماں کا فرق
پھر تھام کے میں ہاتھ میں شمشیر کیا کروں
کشتی بھنور میں دیکھ کے طوفاں سے لڑ پڑے
اب عافیت کی اپنی میں تدبیر کیا کروں
عشرت مقابلے میں عدو سے نہ ہارتے
آکر لگا ہے پشت پہ اک تیر کیا کروں