سیلاب کی بھیانک صورت حال کے سبب ہزاروں لوگ نماز دوگانہ اور قربانی سے محروم
رکسول۔ //کرونا اور چمپارن میں آئے بھیانک سیلاب کے بیچ ہند نیپال کی سرحد پر واقع رکسول اور اس سے متصل علاقوں میں ہر سال کی طرح عید الاضحیٰ کا تہوار نہایت سادگی،سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے ماحول میں منایا گیا،کرونا کے سبب سرکاری گائیڈ لائن کے مطابق مسلمانوں نے عید گاہ میں اجتماعی نماز ادا کرنے کی بجائے اپنے اپنے دالانوں میں اہل خانہ کے ساتھ عید کی نماز ادا کی،ایک دوسرے کو مبارکباف پیش کی اور سنت ابراہیمی کو زندہ رکھنے کے لئے اپنے نبی کی ہدایات کے مطابق قربانی کا عمل انجام دیا،اس موقع پر جگہ جگہ نہ صرف سیکورٹی کے سخت انتظام دیکھے گئے بلکہ مقامی انتظامیہ حالات قابو میں رکھ کر قربانی کا عمل امن کے ساتھ انجام دینے کو یقینی بنانے میں سرگرم نظر آئے،یہ اور بات ہے کہ قربانی سے عین پہلے کچھ شر پسند عناصر نے اپنی شدت پسندی کی بنیاد پر ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی اور مذہبی نفرت کا سہارا لے کر سماج میں انتشار پیدا کرنے کے بھونڈے اقدامات کئے گئے تھے مگر عید الاضحیٰ کے موقع پر ان کی سازشیں دم توڑتی نظر آئیں جس کی وجہ کر ہر طرف اطمینان بخش حالات رہے،ادھر دوسری طرف سیلاب کی زد میں آئے سینکڑوں گاوں کے ہزاروں مسلمان عید الاضحیٰ کی نماز ادا کرنے اور قربانی کا عمل انجام دینے سے محروم رہے جس کے سبب ان کے چہروں پر مایوسی وافسردگی کی لکیریں صاف دیکھی گئیں،بتا دیں کہ اس وقت چمپارن کا اکثر علاقہ بھیانک سیلاب کی زد میں ہےلیکن فکر مندی کی بات یہ ہے کہ بہار کو سیلاب سے نجات دلانے کے حوالے سے آج تک کئے جانے والے تمام تر سرکاری دعوں کے باوجود اس پورے خطے کو اس تباہی سے بچائے رکھنے کی نہ تو کوئی قابل اطمینان سبیل نکالی جاسکی اور نہ اس بھیانک منظر نامے میں کوئی سرکاری عملہ عوام کو موت کے منہ سے باہر لانے کی کوئی کوشش کرتا نظر آ رہا ہے حالانکہ کہنے کو تو کاغد پر سرکار نے اس سمت میں بڑے بڑے قدم اٹھائے اور متاثرہ لوگوں کے لئے کڑوروں کی فنڈنگ بھی کی گئی ہے،علاقوں کے جائزے بھی لئے جا رہے ہیں مگر اس کا زمینی سطح پر کوئی اثر نہ تو پہلے نظر آیا اور نہ آج آرہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہند نیپال کی سرحد پر واقع رکسول،آداپور، چھوڑا دانو،بنکٹوا بنجریا اوو سگولی سمیت ہیڈ کواٹر موتیہاری اور ڈھاکہ کے اکثر علاقے میں پوری طرح سے خوف پھیلا ہوا ہے،جہاں ایک طرف کسان سینکڑوں ایکڑ زمین میں لگی دھان کی فصل پانی کی رفتار کے ساتھ ہی بہ جانے کا ماتم کر رہے ہیں وہیں لاکھوں آبادی کو زندگی کی ناقابل یقین مشکلات کا سامنا ہے،حالت یہ ہے کہ لوگوں نے یاتو انتقال مکانی کر رہے ہیں یا وہ اپنی اونچی چھتوں پر پناہ لے کر جان بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں،سیلاب کے اس اثر نے سڑکوں کی بھی حالت بگاڑ کر رکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ایک گاوں سے دوسرے گاوں تک جانے کے راستے منقطع ہیں،شاید یہی وجہ ہے کہ جب ایک صحافی کی حیثیت سے اس نمائندہ نے آج عید کے دن سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تو ہر چہار جانب مایوسی اور افسردگی پاوں پسارے نظر آئی،لوگ عید کی دوگانہ نماز سے بھی محروم رہے اور ان کے لئے قربانی کا تصور بھی ایک خواب بنا رہا،بچے دودھ کے بغیر بھوک سے بلکتے،بوڑھے دوا کے بغیر اپنی زندگی کی جنگ جیتتے اور غریب لوگ بھوکے پیٹ رات کاٹتے ہوئے دکھائی دیئے،مجموعی طور پر یہ کہ لیا جائے کہ چمپارن کا پورا سرحدی علاقہ عجیب وغریب صورت حال کا شکار ہے مگر نہ تو مقامی انتظامیہ کی ان حالات پر نظر ہے اور حکومت کے حفاظتی دستے کا یہاں کے لوگوں نے ابھی تک دیدار کیا ہے حد تو یہ ہے کہ وہ سیاسی نمائندے بھی کرونا کے بہانے عوام کو بے سہارا چھوڑ کر محفوظ جگہوں پر ہیں جو انتخابات کے موقع پر عوامی مفادات کے تحفظ کے لئے ہر لمحہ کھڑے رہنے کی بات کرکے عوام کا قیمتی ووٹ حاصل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، سوال یہ ہے کہ کیا سیلاب کی اس بھیانک صورت حال میں عوام کو اسی طرح بے سہارا چھوڑ کر حکومت ان کی بے بسی کا تماشا دیکھے گی اور کیا بچے بوڑھے اور غریب لوگ اسی طرح حکومت اور مقامی انتظامیہ کی لاپرواہی کے سبب گھٹ گھٹ کر دم توڑتے رہیں گے،یا پھر ان کے جینے کے وہ اسباب کئے جائیں گے جو ان کی فوری ضرورت ہیں۔