صورہ میں پھنسے پونچھ کے میاں بیوی کی روداد

0
0

آئے تھے علاج کروانے بن گئے بھکاری
رانا ابرار چودھری

سکمز صورہ؍؍ سکیمز میں علاج و معالجے کی غرض سے آئے پونچھ کا ایک انتہائی غریب کنبہ سے وابستہ میاں بیوی صورہ کی سڑکوں پر بے یار و مددگار بھیگ مانگ کر گزارہ کر رہے ہیں جبکہ باقی ماندہ کنبہ
جن میں تین جواں سال لڑکیاں اور ایک کمسن بچہ شامل ہیں پونچھ میں گائوں والوں کے رحم و کرم پر چل رہے ہیںجوپونچھ میں گائوں والوں کے گھر کام کر کے گزارہ کر رہے ہیں ۔ آٹھ ماہ سے مسلسل علاج و معالجے کے اخراجات پورا کرتے ہوئے یہ غریب خاندان ہسپتال سے نکل کر سڑک پر آچکا ہے جہاں سے وہ بھیک مانگ کر پیٹ پال رہے ہیں جبکہ کمرے کا کرایہ بھی ادانہ ہونے کی صورت میں شش و پنج میں مبتلا ہیں جبکہ ان کا باقی ماندہ کنبہ جن میں تین جواں سال لڑکیاں اور ایک کمسن بچہ شامل ہیں پونچھ میں گائوں والوں کے رحم و کرم پر چل رہے ہیں۔ حالیہ حالات میں انتظامیہ تعاون فراہم کرنے سے لاتعلق ہے جبکہ ان کی بے بسی رضاکار تنظیموں کیلئے بھی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ جموں کشمیر کے معتبر طبی ادارے شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ساینسس صورہ سے موصولہ تفصیلات کے مطابق پونچھ کے کلساں کھنیتر سے تعلق رکھنے والا ایک غریب کنبے سے تعلق رکھنے والی 43سالہ خالدہ پروین اپنے شوہر نزیر احمد جنجوعہ کے ہمراہ گزشتہ سال دسمبر میں اپنی تین جوان بچیوں اور ایک بچے کو گھر چھوڑ کر علاج و معالجہ کی غرض سے سرینگر آئی اور سکیمز صورہ میں داخل ہوئی لیکن مسلسل آٹھ ماہ سے لگاتار وہ ہسپتال میں علاج کروانے کے باوجود صحت یاب نہیں ہو پائیں ہیں۔ جن دوران اس کی متعدد جراحّیاں بھی ہوئیں جن پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے۔ نزیر احمد جنجوعہ نے ’لازوال‘کو بتایا کہ وہ پیشے سے ایک مزدور ہیں اور وہ اپنا تمام سرمایہ بیوی کے علاج میں صرف کر چکے ہیں لیکن ابھی علاج و معالجے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس طویل سلسلے نے ان کی کمر توڑ دی ہے اور انتہائی کسمپرسی میں گرفتار کر رکھا ہے۔ اس نے کہاں کہ اس کا کوئی قریبی رشتہ نہیں ہے جو تیمارداری میں ہاتھ بٹا سکے۔ جبکہ وہ اپنے بچوں کو اتنے عرصے کے دوران کبھی نہیں مل سکے اور نہ ہی انہیں یہ خبر ہے کہ ان کے بچے کس حالت میں ہیں جنہیں وہ گائوں والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اب گھر جانا چاہتے ہیں البتہ ڈرائیور ان سرینگر سے پونچھ تک پہنچانے کیلئے 20 ہزار روپے مانگ رہے ہیں جو ادا کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ بقول ان کے ان کی یہ حالت ہے کہ وہ دن کو بھیک مانگ کر گزارہ کر رہے ہیں جبکہ وہ کمرے کا کرایہ بھی بیباک کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے انتظامیہ سے بھی معاونت کیلئے رجوع کیا تاہم ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی تسلی و تشفی کی گئی نیز ہسپتال انتظامیہ ان کی کوئی مدد کر رہی ہے اور نہ انہیں کسی قسم کی رعایت مل رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی مریضہ خالدہ پروین کی ایک بڑی جراحّی ہونے والی ہے جس کیلئے ڈاکٹروں نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے کا بندوبست رکھنے کا مشورہ دیا ہے تاہم یہ مصرف ان کے بس کی بات نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اتنے حالات نے اور مشکلات کے گھیراو نے ان کو ذہنی کوفت میں مبتلا کر رکھا ہے جبکہ سینکڑوں میل ان کا باقی ماندہ کنبہ بھی بہت بڑے کرب اور انتہائی محتاجی کا شکار ہے۔ جبکہ ان کی تمام جائیداد ایک بیوی کے علاج میں فروخت ہو چکی ہے۔ نزیر احمد نے مزید کہا کہ وہ انتہائی بے بسی کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ وہ واحد کمائو بھی ہے اور مریضہ بیوی کی تیمارداری بھی ان کے ذمہ ہے تاہم حالیہ بحرانی حالات میں اگر وہ مزدوری کرنے جائے تو کدھر جائے اور گھر جائے تو کیسے جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اب انتظامیہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی معاونت ملنے سے ناامید ہو چکے ہیں بس ان کی آخری امید یہی بچی ہے کہ کب کوئی دردمند انسان ان کی مدد کیلئے مسیحا بن کر آ جائے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا