تحریر:حافظ میر ابراھیم
طالب علم
بارہمولہ کشمیر
6005465614
فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا
امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی الجامع الصحیح کے اندر ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچوں کو لایا جاتا تھا آپ ان کے لئے برکت کی دعا کیا کرتے تھے اور انہیں گھٹی دیتے تھے.والدین پر اولادوں کے کچھ اہم حقوق ہیں جن کی ادائگی والدین پر لازمی ہے.گزشتہ مضمون میں راقم نے والدین کے حقوق پر لب کشائی کی اور آج ہم والدین کی طرف آتے ہیں کہ اپنے اولادوں کے تئیں ان کی کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے.بچوں کو برکت کی دعا دینا حدیث مبارک سے ثابت ہے لیکن آج اکثر والدین کی زبان پر اپنے اولادوں کے لئے برے القاب اور بلا وجہ بددعائیں ہی ہوتی ہیں.امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی الجامع الصحیح کے اندر یہ روایت نقل کی ہے کہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کے گھر میں جب لڑکا پیدا ہوا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراھیم رکھا اور اسے برکت کی دعا دی اور ساتھ ہی کھجور کی گھٹی بھی دی.بچے کی ولادت پر اسے کسی نیک سیرت ,پرہیزگار بندے کے پاسے جانا جو باحیات ہو ثابت ہے تاکہ اللہ اسکی دعا بچے کے حق میں قبول کرلے.امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کے اندر ایک عظیم حدیث نقل کی ہے کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "ہر بچے کے ساتھ اس کا عقیقہ لازم ہے اسی لئے اپنے بچے کی طرف سے عقیقہ کرلو تاکہ اس سے گندگی دور ہوجائے”.(رقم الحدیث 5472) لیکن بدقسمتی کی وجہ سے یہاں عقیقہ کو بھی رسم بنالیا گیا جس میں آج کل شرعی قوانین کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے.جیسا کہ سنن ابن ماجہ کی ایک صحیح روایت میں آیا ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک.جمہور اہل علم کے نذدیک عقیقہ فرض ہے. کیونکہ بعض روایات میں اس کے لئے صیغہ امر کو استعمال کیا گیا ہے اور دوسرے قرائن سے اس کی فرضیت میں تقویت آجاتی ہے.سنن ترمذی کی ایک روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ "بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے اس کی طرف سے ساتویں دن بھیڑ یا بکری ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے.بہترین نام رکھنا بھی والدین پر لازم ہے جیسے کسی نبی کا نام,کسی صحابی کا نام یا کوئی ایسا نام جو ذو معنی ہو اور عمدہ معنی رکھتا ہو.یہاں ایک اشکال کو دور کرلوں کہ اگر بچپن کے اندر والدین اپنے بچے کا عقیقہ نہیں کرسکے تو بچہ جوانی میں اپنا عقیقہ خود بھی کرسکتا ہے.جیسا کہ علماء کے اقوال سے ملتا ہے.یہاں تک کہ علماء کا کہنا ہے کہ اگر بچہ پیدا ہونے کے سات روز گزرجانے کے بعد فوت ہوجائے تب بھی اس کا عقیقہ کرنا ضروری ہے .(واللہ اعلم)لیکن اگر والدین کے پاس لڑکے کا عقیقہ کرنے کے لئے دو بکریاں لانے کے لئے ذرایع میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں ایک جانور بھی کفایت کرجائے گا(مزید علماء کی طرف رجوع کرلیں)
اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا
گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے
امام مسلم رحمہ اللہ اپنی صحیح کے اندر بیان کرتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر رضی اللہ عنہ کی ایک ایک بیٹی کو لایا گیا جس جا نام عاصیہ تھا جس کا معنی نافرمان کے ہیں تو تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام تبدیل کرکے جمیلہ رکھ لیا جس کا معنی خوبصورت کے ہیں.یعنی بعض حالات کے اندر بچے کا نام تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے اگر نام میں بگاڑ پایا جارہا ہو.اور سنن ترمذی میں واضح الفاظ موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برے ناموں کو تبدیل کیا کرتے تھے.سنن ابوداؤد کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرنان موجود ہے کہ اللہ کے نذدیک محبوب ترین نام عبد اللہ اور عبدالرحمن ہیں.(رقم الحدیث 4949) امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب اللباس کے اندر روایت لائی ہے کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ پانچ چیزیں فطرت ہیں ….ختنہ کرانا,زیرناف بال صاف کرنا,مونچھیں کاٹنا,ناخن کاٹنا اور بغل کے بال صاف کرنا.ختنہ کرانا بھی سنت ابراھیمی ہی ہے اور انہوں نے اپنا ختنہ ۸۰ سال کی عمر میں کیا.
فرمان ربانی ہے کہ "اور مائیں اپنی بچوں کو دودھ پلائیں”.(البقرۃ) دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے جیسا کہ سورہ بقرۃ کی آیت ۲٣٣ سے واضح ہے .اور بعض اہل علم کے نذدیک ڈھائی سال ہے اور ان کی دلیل سورہ احقاف کی آیت ١٥ ہے.تفصیل کے لئے مفسرین کے اقوال کو دیکھا جائے.لیکن یہاں ہمارے سماج کے اندر آج ماں کے پاس اتنا وقت ہی میسر نہیں کہ اپنے بچوں کو دودھ پلائیں کیونکہ انہوں نے دوسری غیر ضروری کاموں کو خود پر لازم کیا ہے.صبح سویرے باپ ایک راستے اور ماں دوسرے راستے چلی جاتی ہے اور بچوں کو دن بھر kg اسکولوں میں بھرتی کیا جاتا ہے جہاں ان کا بچپن بالکل ویران ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ آگے چل کر والدین کو دیکھنا پڑتا ہے.یہ بات یقینی ہے کہ جن بچوں کی تربیت میں والدین کوتاہی سے کام لیتے ہیں ان بچوں کے دل میں والدین کی اتنی محبت نہیں ہوتی ,خدمت کرنا تو دور کی بات ہے. یہ بچوں کے ساتھ علانیہ استحصال ہے .ایسے ہی بچے آگے چل کر ذہنی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ وقت طفل کے اندر ہی انہیں کتابوں کے حوالے کیا جاتا ہے.ہر طرف سے دیکھیں تو منفی پہلو ہی زیادہ نظر آتے ہیں.بعض گھروں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو خادم یا نوکر کے حوالے کردیتے ہیں اور نتیجہ ہمارے سامنے.والدین اس پر غور و فکر کریں کہ اولاد اکثر والدین کے مخالف کیوں ہوجاتے ہیں…؟
چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں کچھ بولتے نہیں
بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے
ایک ہاتھی ایک راجہ ایک رانی کے بغیر
نیند بچوں کو نہیں آتی کہانی کے بغیر
فرمان ربانی ہے کہ "اور بچے کے باپ پر ان کا کھانا اور لباس ہے”.(البقرۃ) یعنی بچوں کے اخراجات والد کے ذمہ ہے لیکن یہاں بچوں کو کم عمری میں ہی اپنے نانھال بھیجا جاتا ہے .ہر طرف سے شریعت کی مخالفت.فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "بہترین صدقہ وہ ہے جو غنا کے بعد ہو اور جو اپنے عیال پر خرچ کیا جائے”.(بخاری)فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "ہر بچہ فطرت اسلام پر ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی بناتے ہیں یا مجوسی”.(بخاری) معلوم ہوا کہ بچے کی تعلیم کے بارے میں والدین کو کافی فکر کرنے کی ضرورت ہے.اسکول کا انتخاب دیکھ کر کیا کریں ,ہمیں یقیناً اعلی ملازم بھی چاہئے لیکن ساتھ ساتھ ایک صالح اور فرمانبردار اولاد بھی.اسکول کے ساتھ ساتھ دینی مدرسے یعنی درسگاہ کا انتخاب بھی لازمی کرلیں جو کہ موجودہ وقت کا اہم تقاضہ ہے.لیکن یہاں اسکول سے آنے کے بعد بچے کو دوبارہ tutor کے پاس بھیجا جاتا ہے لیکن شرعی تعلیم کے لئے وقت نہیں.جو کام والدہ کو کرنا وہ اب tutor انجام دے رہی ہے.اگر یہی کرنا ہے تو آگے چل کر اپنے بچوں سے کوئی نیک امید نہ رکھیں.اگر اپنے بچے کو اسماعیل جیسا بنانا چاہتے ہو تو عصری علوم کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کے علم سے بھی اس کے دل کو منور کردو.اسکے ساتھ ساتھ والدہ پر لازمی ہے کہ free time اپنے بچوں کے ساتھ ہی گزاریں اور انہیں مختلف طریقے سے اخلاقیات کی تعلیم دیں کیونکہ آپ ہی ان کی پہلی مدرسہ اور معلمہ ہو.اپنے بچوں کو توحید کا فہم حاصل کراؤ ,شرک و بدعات کی نفرت ان کے دلوں میں پیدا کرو,سنتوں کی محبت کو اجاگر کردو. تربیت میں یہ بھی آتا ہے کہ سات سال کی عمر سے ہی اپنے بچوں کو نماز سکھاؤ ,نماز کی تلقین کرو ,عبادات کا تعارف ان کو دو.اللہ کی معرفت ,نبی کی معرفت اور دین اسلام کی معرفت انہیں کراؤ.تاکہ آپ کے بچے دنیا کمانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی امامت بھی کرسکیں.دس سال کی عمر میں اپنے بچوں کے بستر الگ کردو ..یہی شرعی قانون ہے اور اہل عقل اچھی طرح ان احکام کی حکمت کا ادراک کرسکتے ہیں.بچوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام لو یہاں تک کہ محبت میں بھی .بعض گھروں میں والدین بچوں کے بارے میں افراط و تفریط کے شکار ہوجاتے ہیں جو کہ سراسر ظلم ہے.محبت سے انہیں جنت و جہنم کا تعارف دو ,رحم دلی اور شفقت سے انکی تصحیح کیا کرو لیکن اس کے لئے والدین پر بھی واجب ہے کہ وہ خود بھی علم حاصل کرلیں اور آج الحمد للہ راہ ہر طرف سے ہموار ہے.
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
بیٹیاں اللہ کی طرف سے رحمت ہوتی ہیں اور باعث برکت .فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "جو شخص دو بیٹیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائیں تو قیامت کے دن یہ اس کے لئے جہنم کے مقابلے میں ڈھال بن جائیں گی اور رب ذوالجلال اسے پیغمبر برحق صلی اللہ کی علیہ وسلم کی صحبت عطا کرے گا”.(مفہوماً) اور الحمد للہ زمانہ شاہد ہے کہ بیٹیاں ہی والدین کے لئے باوفا ثابت ہوتی ہیں .اور عصر حاضر میں بھی باپردہ بہنوں نے ہر شعبے میں انقلاب برپا کیا ہے.سائنس کا شعبہ ہو یا دینیات کا ,امت کی بیٹیاں آج ہر طرف اپنے آپ کو صف اول میں پیش کررہی ہیں.لیکن کبھی کبھی اللہ تعالی والدین کو آزماتا ہے اور اولادوں کو چھین کر امتحان میں مبتلا کردیتا ہے ,جیسے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹوں کا اللہ تعالی نے ابتدائی عمر میں ہی اپنے پاس بلا لیا اور جوان بیٹیوں کو آپکی آنکھوں کے سامنے شہید کردیا گیا.تو ایسی حالت میں شریعت اسلامیہ اسے صبر کی تاکید و تلقین کرتا ہے.اور اہل کشمیر کے والدین تو آئے روز انہیں امتحانوں سے گزر رہے ہیں.باپ پر لازم ہے کہ وہ اپنے آنے والے بچے کے لئے کسی صالحہ ماں کا انتخاب کرے یعنی نکاح کے وقت دینداری کو ہی ترجیح دیں.اور ماں پر بھی لازم ہے کہ اپنے نکاح کے وقت بااخلاق اور نیک سیرت ساتھی کا انتخاب کرے تاکہ آپکے بچوں کو باپ کے ساتھ ساتھ اچھا رہبر بھی ملے.اور اسی طرح اپنے بچے کا نکاح بھی دین کی بنیاد پر ہی کریں .جیسے ہی آپ کو محسوس ہو کہ بچے کو نکاح کی ضرورت ہے تو تاخیر نہ کریں.
اور عصر حاضر میں والدین پر لازم ہے کہ اپنے بچے کی call log,chat history ,downloading ,watching history پر ہمیشہ نظر رکھیں اور بلا وجہ اپنے بچے کے ہاتھ میں smart phone نہ ہی دیں کیونکہ امت کے بچے کم سنی میں ہی بالغ ہورہے ہیں.اسکے ساتھ ساتھ بچے کے friend circle پر بھی نظر رکھیں کیونکہ طاغوت کے پجاری ہمارے نسل کو تباہ کرنے پہ تلے ہیں.اور اس ذمہ داری سے متعلق آپکو پوچھا جائے گا.اسی طرح وراثت کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرتے رہیں…. اسی طرح بچوں کو مزدوری کے لئے استعمال کرکے ان کا بچپن تباہ نہ کرو.child labour ایک سماجی ناسور ہے.
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمارے بچوں کو ہمارے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے…..آمین یا رب العالمین
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
کتابوں سے نکل کر تتلیاں غزلیں سناتی ہیں
ٹفن رکھتی ہے میری ماں تو بستہ مسکراتا ہے