تسخیر فاؤنڈیشن اور سدرہ فاؤنڈیشن کے تحت ڈاکٹر فیضی کے افسانوی مجموعے پر مذاکرہ
نئی دہلی//تسخیر فاؤنڈیشن دہلی اور سدرہ فاؤنڈیشن چنئی کے زیر اہتمام ڈاکٹر ذاکر فیضی کے افسانوی مجموعہ ”نیا حمام“ پر ”ہم بھی بات کرتے ہیں“ کے عنوان سے ایک آن لائن ادبی مذاکرہ ہوا جس میں مختلف تعلیمی اداروں کے اسکالروں اور ناقدوں نے اردو کے عصری افسانوں خصوصاً ”نیاحمام“ پر اظہار خیال کیا۔ صدارتی خطبہ میں پروفیسر انور پاشا (جے این یو) نے کہاکہ جس طرح سیمیناروں میں نئی نسل کی تنقیدی اور تحقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کی جاتی ہے،اسی طرح ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے تخلیقی نشستیں ہوتی رہنی چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر فیضی کے افسانوں میں فقط بیان نہیں بلکہ ویژن بھی ہے۔ ویژن سے ہی تخلیقات میں زندگی پیدا ہوتی ہے۔’نیاحمام‘ سیاسی جبر اور سیاسی بے اعتدالیوں کا نوحہ ہے۔
معروف افسانہ نگار خورشید حیات نے کہا کہ آج کی نسل نہ صرف تخلیقات پر توجہ دے رہی ہیں بلکہ تخلیقات کی تنقید کو بھی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ اس لیے ہم امید کرسکتے ہیں کہ یہ نسل افسانوی حوالوں سے پرانی نسل سے زیادہ اہم کردار ادا کرے گی۔ناظر اجلاس کا فریضہ ادا کرتے ہوئے شاعر امتیاز رومی(ریسرچ اسکالر جے این یو) نے افسانے کی موجودہ صورت حال پر گفتگوکی۔
مذاکرے میں خصوصی طور پر ڈاکٹر امان اللہ،ڈاکٹر طیب خرادی،گلاب ربانی،احمد علی صدیقی،ڈاکٹر شمشاد علی، منصور عالم عرفانی،امیر جہاں غیرت،زیباخان، ثناخان، طارق،ذیشان مصطفی،احتشام الحق آفاقی،عائشہ دولت، محمد محسن، عزرہ خاتون، شاہ زیب علی وغیرہ نے شرکت کی،جب کہ نظامت کے فرائض عبدالباری صدیقی اور ساجد حسین ندوی نے اداکیے۔اس موقع پر ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی،بنگلور نے کہا کہ فیضی کے یہاں نفسیاتی جھلکیاں اور سماجی کشاکش کی تصویر بہت واضح نظر آتی ہے اور کہانی کی بنت بھی مناسب ہے۔جب کہ بنارس ہندو یونی ورسٹی کی پوسٹ ڈاکٹرل فیلو تمنا شاہین لکھتی ہیں ”ذاکرفیضی نے اپنے اکثر افسانوں میں سیاسی بے اعتدالیوں اور طبقاتی کشمکش کے خلاف آواز بلند کی“۔ ان کے علاوہ دہلی یونی ورسٹی کے ریسرچ اسکالر عبدالباری صدیقی نے لکھا کہ ذاکر فیضی موضوعات کا انتخاب اپنے آس پاس سے کرتے ہیں۔ نوجوان افسانہ نگار توصیف بریلوی نے کہا کہ ڈاکٹر فیضی کے افسانوں کا احتجاجی رویہ انتہائی شا ندار ہے۔ کیوں کہ ایسے اسلوب سے ہی فن دل کش ہوتا ہے اور کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی۔ پورنیہ یونی ورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر قسیم اختر نے کہا کہ فیضی کے افسانوں میں اکیسویں صدی کے مسائل تو ہیں ہی، بیسویں صدی کی آخری دہائی کی آواز بھی سنی جاسکتی ہے۔ علیم اسماعیل نے لکھا ہے کہ کی بنت خوب ہے۔ اس لیے بعض افسانے ہمیں چونکاتے بھی ہیں۔
کالم نگار عارفہ مسعود عنبر نے لکھا کہ ڈاکٹر فیضی کی روح معاشرتی کرب سے بے چین نظرآتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حالات حاضرہ کی بہترین عکاسی ان کے یہاں موجودہے۔ الہ آباد یونی ورسٹی کی ریسر چ اسکالرنہاں انصار ی نے کہا کہ ڈاکٹر فیضی کی افسانوی فضا میں کوئی گہرا فلسفہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ قاری ان کے افسانوں کو پڑھتا چلا جاتا ہے۔واضح رہے کہ ذاکر فیضی تقریبا ً تین دہائیوں سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ ’نیا حمام‘ گویا ان کے افسانوی سفر کا ایک انتخاب ہے۔ انھوں نے جے این یو سے پی ایچ ڈی کی ہے اور درس وتدریس کے فریضے سے وابستہ ہیں۔