"موجودہ معاشرے کی عکاس ذاکر فیضی کی کہانیاں”

0
0

‌عارفہ۔مسعود عنبر مرادباد

قلم کاری محض وقت گزاری اور تفریح کے لئے ہو تو کسی قلم کار کی یہ کوئ فنکارانہ صلاحیت نہیں ہو سکتی کیونکہ  قلم کاری  ایک ایسی امانت ہے جس کا پاس و لحاظ رکھنا اور ادب و احترام کرنا ہر قلم کار کے لئے لازم ہے اس کا صالح اور بہترین استعمال یہی ہو سکتا ہے کہ قلم کار اپنے قلم کو بامقصد حصول کے لئے بروئے کار لائے ـ بلا شبہ قلم کاری ایک ایسی نعمت اور لافانی خزانہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ  بڑھتا جاتا ہے اس دولت کو جتنا استعمال کیا جاتا ہے اس میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے بےشک یہ بیش قیمتی دولت اللہ ربّ العزت ہر کسی کو عطا نہیں کرتا یہ خداداد صلاحیت ہوتی ہے۔ شعور کوشش اور مشق سے فن کو جلا ضرور ملتی ہے لیکن یقیناً پرور دگار عالم ہی اس ذخیرے کا ودیعت کردہ ہوتا ہے ظاہر ہے فیضی صاحب کو اللہ کریم نے اس زر  سے مالامال کیا ہے میرے لیے یہ مسرت کی بات ہے کہ فیضی صاحب کے مجموعہ کلام” کہانیاں”  پر چند الفاظ تحریر کرنے کا موقع ملا اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ ذاکر فیضی صاحب میرے شہر "شہر جگر”  سے تعلق رکھتے ہیں اور اس بات کا انکشاف  ” کہانیاں” کے دوران مطالعہ ہی ہوا ،فیضی صاحب کا شمار ان فعال و متحرک قلم کاروں کی اولین صف میں ہوتا ہے جو نو عمری کے زمانے میں ہی اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں آپکے مجموعہ کے پہلے افسانے کامطالعہ کرکے ہی مجھے محسوس ہو گیا تھا کہ اس مجموعہ کے افسانوں کی نوعیت کیا  ہوگی اور ایک کے بعد دیگر کہانیاں پڑھنے کا اشتیاق بڑھتا ہی گیا فیضی صاحب کے افسانے حالاتِ حاضرہ کی چلتی پھرتی تصویریں پیش کرتے ہوئے معلوم ہو رہے تھے ، آپ کی روح معاشرے کے کرب کو اپنے اندر محسوس کر رہی ہے اور آپ اس دکھ کی سلگتی ہوئ چنگاری کو اپنے اندر محسوس کر رہے ہیں، اس نادیدہ کرب کی تپش کو عنبر بھی مسلسل اپنے اندر محسوس کرتی رہی ہے، مجھے اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ فیضی صاحب کے مجموعہ کلام پر تحریر رقم کرتے وقت میری چشم۔بھی پرنم ضرور ہوں گی کیونکہ بقول شاعر

‌۔   ۔۔۔۔یہ میرا درد ہے جسے آپ کم سمجھتے ہیں
‌         قلم کے  کرب کو اہل قلم سمجھتے ہیں ۔

فیضی صاحب نے ہمیشہ معاصر مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے وہ روز مرہ اور ہمارے معاشرے میں در پیش مسائل کو نہایت موثر انداز میں پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے کی چلتی پھرتی جھانکی ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے، ایک وقت تھا جب صحافت کو معاشرے کا چوتھا ستون سمجھا جاتا تھا ،قلم کی طاقت نے بڑی بڑی تحریکات کی تشکیل کی ملک عزیز کی آزادی میں ہمارے مرد مجاہدین کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی میں قلم نے اہم رول ادا کیا اور ہمارے صحافیوں کا قلم مجاہدین آزادی کے شانہ بہ شانہ چلتا ہوا  نظر آیا، قلم کاروں نے مصیبتیں سہیں ،پریشانیاں اٹھائیں یہاں تک کہ اپنی جان کہ بازی لگا دی لیکن حق کا دامن نہیں چھوڑا ،سچائ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا جنگ آزادی کے پہلے صحافی شہید اعظم مولوی محمد باقر کو توپ سے باندھ کر شہید کر دیا گیا لیکن اپنی آخری سانس تک حق کی آواز بلند کرتے رہے ،اس کے بر عکس دور حاضر میں قلم اتنی سستی ہو گئ ہے کہ چند سکوں میں اسے کوئ بھی خرید سکتا ہے اقتدار کی طاقت کے سامنے حق اور سچائی سے پردہ کشائی کی جسارت آج کے صحافی نہیں کر سکتے قلم صاحب اقتدار کے سامنے خندہ پیشانی سے پیش آتا نظر آتا ہے جب کہ قلم کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ سچائی کی تہ تک جاکر حقیقت کو  پیش کرے فیضی صاحب نے اپنے افسانے ” حمام ” ایک میں اندھی ،بہری ،اور گونگی لڑکی کے ذریعے میڈیا اور صحافت کے گرتے ہوئے معیار کو اس روح فرساں انداز میں پیش کیا ہے کہ قارئین کی چیخ نکل جاے, آپ کے قلم نے دور حاضر کی میڈیا کو نہایت بے باک اور جرات مندانہ انداز میں برہنہ کیا ہے ،
برسوں سے فیضی صاحب کا قلم رواں دواں ہے اس لیے آپ کے قلم میں پختگی آ چکی ہے آپ ایک ماہرِ فن اور منجھے ہوئے قلم کار ہیں فیضی صاحب کی کہانی” ٹوٹے گملے کا پودا” جھوٹی شان و شوکت خاندانی جاہ و حشمت اور فرسودہ روایات میں مقید آلسی اور نکمے  افراد کی کہانی ہے جو زمیں داری ختم ہونے کے بعد بھی اسی تکبر میں رہتے ہیں نہ کوئی کام کرتے ہیں  اور  35 سال تک بہن کی شادی نہیں کرتے  ، ڈبل ایم اے ہونے کے باوجود حنا کو نوکری کی اجازت  نہیں کہ زمیندار گھر کی بیٹی نوکری کیسے کر سکتی ہے ،  جس کی وجہ سے  حنا ذہنی تفکرات میں مبتلا ہو جاتی ہے ، بھائیوں  کے نکمے اور آلسی ہونے کی وجہ سے آخرکار خاندانی حویلی تک فروخت ہو جاتی ہے ،ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں

” نہانے کے لئے آخری بار ہنڈ پمپ سے پانی بھرتے ہوئے اداس اداس آنکھوں سے سارے گھر کا جائزہ لیا اس کی نگاہ کونے میں پڑے ٹوٹے گملے کی طرف گئ تو اسے خیال گزرا کہ اس کی زندگی بھی اس کے پودے کی ہی طرح ہے جس کی زندگی اس گملے سے شروع ہو کر اسی گملے میں ختم لیکن آج یہ پودا اس گملے سے اکھاڑ کر کہاں لگا دیا جائے گا اور خدا جانے وہ وہاں پنپ بھی پائے گا یا نہیں "

ہمارا معاشرہ سماجی و اخلاقی اقدار سے دن بہ دن عاری ہوتا جا رہا ہے رشوت خوری معاشرے کے لئے ناسور بن گئی ہے رشوت  خوری کے ذریعے سچ و حق کا قتل ہر گھڑی ہر جگہ ہوتا نظر آ رہا ہے "اسٹوری میں دم نہیں "کہانی کے ذریعے فیضی صاحب نے اس کی بہترین عکاسی کی ہے ہر کوئی اپنے ذاتی مفاد کے لیے حق اور انصاف کی گردن پر تلوار چلاتا نظر آ رہا ہے چاہے وہ کلرک ہو ،مینیجر، پولیس یا نیتا جی
‌فیضی صاحب کا افسانہ” ہریا کی حیرانیاں” نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے یہ افسانہ اس حدیث شریف کی غمازی کرتا ہوا نظر آتا ہے جو ہمیں سبق دیتی ہے کہ کوئ بھی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا دنیا کا ہر شخص استاد اور جمہورے کا رول ادا کر رہا ہے چاہے وہ آفیسر ہو ، ریسرچ اسکالر ،کلرک، چپراسی یا کاروباری  ،ذاکر صاحب نے بے باک انداز میں سماجی حقیقت نگاری اور کرداروں کا۔ نفسیاتی تجزیہ ،ہنر و فن افسانہ نگاری کے اسرار رموز تخلیقی سطح پر جس خوبصورتی سے برتے ہیں وہ قابلِ ستائش ہیں ،آپ نے اپنے آس پاس ہونے والی ہر حرکت کو محسوس کیا ہے ،وہ واقعات اور سانحات جنہوں نے روح کو اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے آپ کے فن کے دائرے میں شامل ہو گئے ہیں ،آپ نے اپنے کرداروں کے وسیلے سے اس عہد کا بد نما چہرا دکھایا ہے اور زندگی کی ان حقیقتوں کو بے نقاب کیا ہے جس کا نظارہ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے ،فیضی صاحب نے جس ٹھوس حقیقت کو بیان کیا ہےاس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا آپ کی کہانیاں جرات مندانہ حقیقت نگاری کا منھ بولتا ثبوت ہیں، ایسی فن و ہنر  اور  چابک دستی ہر ایک میں نہیں ہوتی اور جس میں۔ ہوتی ہے وہ بزدل نہیں رہ سکتا ڈاکٹر صاحب کے پاس کہانی میں معمولی سے معمولی اظہار کے لیے ایک غیر معمولی انداز موجود ہے آپ کا افسانچہ  "دلہن” میرے اس قول کی عکاسی کرتا نظر آے گا, جس میں معاشرے کی  لڑکیوں کی بے شرمی، بے حیائ اور بے باکی کو اس منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے جس کی نزیر کم ہی ملتی ہے آپ ایک صاحب اسلوب نثر نگار ہیں راقم الحروف کو امید ہی نہیں بلکہ پختہ  یقین ہے  کہ فیضی صاحب کا مجموعہ "کہانیاں”اردو ادب میں بیش بہا شہرت اور مقبولیت کا حامل ہوگا اور اردو ادب میں اس کی  بھر پور پزیرائی ہوگی ،اردو کی اس  خدمت کے عوض میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا