![](https://lazawal.com/wp-content/uploads/2020/07/1543137581315.jpg)
(محمد قاسم ٹانڈؔوی
=09319019005)
ہمارے ملک ہندوستان کی سب سے بڑی خوبی اور سب سے نمایاں پہچان جو عالمی سطح پر ہے تو وہ اس میں برسوں سے جاری گنگا جمنی تہذیب والی روایت سے ہے، کیوں کہ ماقبل آزادی کی تاریخ پر جب نظر دوڑائی جاتی ہے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ یہاں کے باشندوں میں زمانہ قدیم ہی سے آپسی رشتے ہموار ہیں اور ان میں اخوت و ہمدردی کا جو رشتہ قائم ہے وہ محبت کی ڈور میں پروئے ہوئے موتیوں کی مانند ہے، جس طرح یکے بعد دیگر ڈوری میں موتی پروکر مالا یا تسبیح تیار ہو جاتی ہے ویسے ہی یہاں کے باشندے مذہبی رسم و رواج اور آپسی گروہ بندی سے بالا تر ہو کر ایک دوسرے کے دکھ درد میں خود کو شریک کرنا ہر ایک اپنا مذہبی اور اخلاقی فریضہ سمجھتا تھا اور اخوت و بھائی چارگی کے دور میں کسی طرح کی مذہبی منافرت یا سماجی رسم و رواج کی ادائیگی میں رساکشی کو جگہ حاصل نہیں ہونے دیتا تھا۔ علاوہ ازیں سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے عقیدے پر عمل اور اپنے اپنے خیالات کی مکمل آزادی حاصل تھی اور یہ اس لئے کہ ان سبھی کے مذہبی حقوق یکساں طور پر محفوظ تھے اور ہمارے ملک کا آئین و دستور آج بھی ان کی اجازت فراہم کرتا ہے، مگر برا ہو نفرت بھری اس سیاست کا جس کے اپنانے والوں نے اپنے اغراض و مقاصد کے حصول اور ذاتی مفادات کی تکمیل میں دونوں طرف کے عوام کے دلوں میں نفرت کا ایسا بیج بویا جس نے ملک کی دو خوبصورت سمجھی جانے والی آنکھوں میں جانے انجانے میں ایسی نفرت و حقارت بھری کہ آج ملک کے کونے کونے سے نفرت و تشدد کی لپٹیں بھڑک رہی ہیں۔ جو نہ کسی قوم و برادری کے حق میں مفید ہیں اور نہ ہی ملک اور جمہوریت کےلئے سود مند ہیں بلکہ ترقی و خوشحالی کے واسطے ان کا خاتمہ از حد ضروری ہے۔
آج کی تحریر کے تعلق سے مجاہد آزادی اور سیاست کے امام حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں اور اندازہ کریں کہ اس وقت کے لوگوں میں کس طرح اپنے دین و مذہب سے لگاؤ بھی تھا اور کس اعلی ترین درجہ پر ملک و وطن سے محبت بھی ان کے دلوں میں ہوتی تھی؛ چنانچہ ایک بیان میں مولانا نے فرمایا کہ:
"میں مسلمان ہوں، اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں، اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثہ میں آئی ہیں، میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں، اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم وفنون اور اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے، اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں، بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی دائرہ میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں، اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے۔
لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں، جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے، اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی، وہ اس راہ میں میری ر ہنمائی کرتی ہے، میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں، میں ہندوستان کی ایک اور ناقابلِ تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں، میں اس متحدہ قومیت کا ایک ایسا اہم عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے، میں اس کی تکوین (ترکیب و ترتیب) کا ناگزیر عامل ہوں، میں اپنے اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا”۔
مولانا آزادؒ کے اسی اقتباس کی روشنی اور ہمہ گیر جامعیت کی وجہ ہے کہ آج بھی مسلم لیڈران اور ٹی وی ڈیبیٹ میں شریک ہونے والے تمام مسلم چہرے (جو اتفاق سے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کا دم بھرتے ہیں، لیکن عوام انہیں میڈیا کے دلال کے سوا کچھ بھی نہیں جانتے مانتے) وہ بارہا اس بات کو دہراتے ہیں کہ ہندو مسلم؛ یہ ملک کی دو خوبصورت آنکھیں ہیں۔ اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ جسے بھی انسانی جسم میں اس نعمت سے نوازا گیا ہے اسے اپنی یہ دونوں آنکھیں پیاری ہیں، ان میں سے نہ تو کوئی کسی کو فروخت کرتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کو جان بوجھ کر ضائع و برباد کرتا ہے، بلکہ ہر کوئی اپنی ان آنکھوں کی حفاظت کرتا ہے تاکہ اس کے چہرے بشرے کی خوبصورتی میں چار چاند لگے رہیں۔
بہر کیف ! اس وقت ملک کے طول و عرض میں جو فرقہ پرستی عروج پر ہے اور جس انداز سے موجودہ حکومت اور اس کے ہمنوا و ہم خیال لوگوں کی شہ پر ملک گیر پیمانے پر غیر ہندو وادی طبقے کے لوگوں کی جانوں کے ساتھ آگ و خون سے کھیل رہے ہیں اور جس بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں تہ تیغ کیا جا رہا ہے وہ سب ہمارے آئین و دستور کے خلاف اور تمام قدیم اقدار و روایات اور مشترکہ وراثت کے منافی عمل ہے۔
کسی بھی آزاد ملک کی ترقی اور اس میں بسنے والی اقوام کی خوشحالی کا راز یہ ہوتا ہے کہ ایک تو وہاں مکمل امن و امان پایا جاتا ہو اور دوسرے وہاں عدل و انصاف کا توازن برقرار رہتا ہو۔ اور جہاں یہ دو امر مفقود ہو جاتے ہیں وہاں کے عوام میں بیروزگاری، بدحالی اور کسمپرسی افق پر اور وہاں کے خواص میں ہیبت و اضطراب کی کیفیت پائی جانے لگتی ہے۔ چنانچہ آج اگر ملک گیر پیمانے پر ان دو اوصاف کی طرف نظر دوڑائی جائے تو بآسانی اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کے عوام و خواص کو ان چیزوں سے واسطہ لاحق ہے۔ اور یہ نتیجہ ہے اقتدار پر قابض حکمرانوں کی نیت اور تعصب پر مبنی ان ناقص پالیسیوں کا جنہیں وہ رفتہ رفتہ عوام پر تھوپ رہے ہیں اور ملک کو ایک خاص رنگ میں رنگنے کی کوشش و جستجو کر رہے ہیں۔ مگر اسے ان کی بھول اور نادانی والی حرکت سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ ملک کی اکثریت اور اکثریتی طبقہ کی ایک بڑی تعداد ان تمام پالیسیوں کے خلاف ہے جس سے ملک کی جمہوریت اور اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہو یا جن کاموں سے ملک میں انارکی اور تقسیم کا ماحول پیدا ہوتا ہو، سیکولر مزاج اور ہندو مسلم اتحاد کی سوچ سے ہم آہنگ عوام اس کے خلاف ہے جو وقفہ وقفہ سے حکومتی سطح پر آوازیں بلند کرنے اور عوامی سطح پر بیداری پیدا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔اور اسی کی آج سخت ضرورت بھی ہے کہ ہر ایک اپنی طرف سے اس بات کی کوشش و فکر کرے کہ اس کے کسی بھی عمل اور جلد بازی میں لئے گئے فیصلے سے ملک کی آن بان پر نہ تو کوئی داغ دھبہ نمودار ہو اور نہ ہی ملک کی جمہوریت اور اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہو بلکہ مل جل کر ملک کی شان و شوکت کو بڑھاوا دینے اور آئین و دستور سے ثابت اپنے حقوق کی وصولیابی میں ایک دوسرا کا ساتھ دینے کی کوشش کی جائے اور باہمی منافرت، مذہبی شدت کے جس گھٹن بھرے ماحول میں دونوں طرف کے عوام مبتلا ہے، اس کی جگہ عوام کےلئے راحت و سکون کی فضا میسر کی جائے۔