کہ ایک شخص سارے خاندان کو اُداس کر گیا !!!!

0
0

از مولانا عبدالقدیر اشرفی پرنسپل مدرسہ اشرفیہ نو رالاسلام کھنتیر و امام گاﺅن ملہانسُرنکوٹ

کسی قریبی شخص کے انتقال کے صدمے سے دو چار ہونا ایک ایسا تکلیف دہ تجربہ ہے جس سے جلد یا بدیر انسان کو گزرنا پڑتا ہے ۔ کسی بھی قیمتی چیز کے کھو جانے بالخصوص کسی قریبی خونی رشتہ دار کی موت کے بعد انسان اندوہ و غم کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے یہ مراحل گزرنے میں وقت لیتے ہیں ان کو جلدی سے دور نہیں کیا جا سکتا ۔ ہم عموماً زیادہ دکھی تب ہوتے ہیں جب کسی ایسی شخصیت کو کھو دیتے ہیں جس سے ہم بے پناہ محبت کرتے ہوں اپنے تمام کا موں جس سے رہنمائی لیتے ہوں ، جسے اپنے گھر کا مالک تصور کرتے ہوں ایسی عظیم شخصیت کے انتقال کے فوراً بعد پہلے کچھ گھنٹے تو ہم شدید بے یقینی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ہمیں یہ یقین ہی نہیں ہوتا کہ ایسا بھی کچھ ہوا ہے ۔ اس بے یقینی کا کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کو انتقال کے بعد کے کچھ مراحل مثلاً رشتہ داروں کو اطلاع دینا ،تکفین و تدفین وغیرہ سے گزرنے میں کسی حد تک آسانی ہو جاتی ہے ہاں البتہ یہ حالت زیادہ عرصہ رہے تو تکلیف دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ بہت دفعہ مرنے والے کی نعش کو دیکھ کر انسان کو اس بات کا یقین آنا شروع ہو جاتا ہے کہ واقعی میں ایسا ہو چکا ہے اسی طرح تجہیز و تکفین کی رسومات سے گزرنے پر انسان کو یقین آجا تا ہے پھر اگر اسی دوران کچھ خاص ہو جائے تو یہ دکھ بالائے دکھ ہو جایا کرتا ہے ۔ جس کی شدت کو سہنا آسان نہیں ہو ا کرتا پھر اسی جھنجھلاہٹ اور بے بسی میں انسان اس بچھڑے ہو ئے شخص کو ڈھونڈھنے اور اس سے دوبارہ ملنے کے لئے تڑپنے لگتا ہے حالانکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ یہ ناممکن ہے ۔ اس حالت میں انسان بے سکون رہتا ہے وہ اپنے کئی ایک لوگوں سے کنارہ کش ہو جا تا ہے اس کے تصورات اور خواب مں جانے والے شخص کی تصویر گرداں رہتی ہے ۔ المختصر موت اللہ تعالی کا اٹل قانون ہے جس سے دنیا کے کسی بھی انسان کو انکار نہیں ، اگر موت پر کوئی شک و شبہ بھی کرے تو اسے بیو قوں کی فہرست میں سر فہرست شمار کیا جاتا ہے کیونکہ بڑی بڑی مادی طاقتیں اس کے سامنے عاجز و بے بس ہیں ۔ موت نہ چھوٹوں پر شفقت کرتی ہے نہ بڑوں کا ادب و احترام موت ظالموں ، جابروں اور بد عقیدہ لوگوں کو جہنم کی وادیوں میں جھلسانے اور متقیوں کو جنت کے بالا خانوں تک پہنچانے والی شے ہے ۔ پتہ چلا کے دنیاوی زندگی ایک دھوکہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قران شریف کی سورہ ال عمران ، آیت نمبر ۵۸۱ میں فرمایا ” اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکہ کا مال ہے “( ترجمہ کنز الایمان) اسی دھوکہ کی زندگی کا شکار ہوئے میرے نانا مرحوم غلام احمد خان ولد غلام محمد خان ( اللہ ان کی قبور پر کر وڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے ) ہیں ۔واضح رہے مرحوم غلام احمد خان ایک عبقری ، سماجی و سیاسی شخصیت کا نام تھا ، جو گا ﺅں سہڑی خواجہ تحصیل حویلی میں پیدا ہوئے ان کے والد مرحوم غلام محمد خان نے بڑے ناز و نعم کے ساتھ پر ورش کی اس زمانے میں دسویں کلاس تک پڑھایا بے پناہ محبت کرتے ، اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتے ، حتیٰ کہ سرکاری نوکری یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ تجھے اس نوکری پر جانے سے پہلے میرے اوپر سے گزر کر جانا ہوگا ۔نانا مرحوم نے اپنے والد گرامی کی بات نہ ٹھوکرائی اور دعائیں لیں جس کا پھل انہیں باری تعالیٰ نے یہ دیا کہ وہ ساری زندگی سرخرو رہے ۔ اوائل زندگی خوشحال رہی والدین کا بے تحاشہ پیار تھا ، ناز و نخروں سے پر ورش کی ۔ نانا مرحوم کی ذات اعلیٰ سوچ ، عمدہ اخلاق ، خوش طبیعت ، انتہائی ملن ساراور بلند و بالا کردار کی مالک تھی ۔ مرحوم طویل القامت اور حلیم الجسم تھے ۔ آپ کے ہاتھ موم کی طرح نرم تھے مرحوم اپنی زندگی میں ہر شخص سے مسکرا کر بات کرتے شاید بایں وجہ بعد المرگ بھی چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا اور لب مسکرا رہے تھے۔ بہر حال جوان ہوتے ہی والد مرحوم کا سایہ سر سے اُٹھ گیا اور وہ خوشی جسے وہ دیکھنا چاہتے تھے نہ دیکھ سکے ۔ آپ کی والدہ مرحومہ نے ہمت نہ ہاری اور آپ کو والد کے بچھڑنے کا احساس نہ ہواس کے لئے بے حد کوشش کی اور آپ کی مکمل رکھوالی کی ، مگر سر کا سایہ جو اُٹھ چکا تھا اور کوئی ویر بھی نہ تھا جس کی بھر پائی نا ممکن تھی بقول میاں محمد ؒ ” باپ مرے سر ننگا ہوندا ویر مرے کنڈ خالی ، ماواں بعد محمد بخشا کون کرے رکھوالی “ مرحوم اب ماں کا اکلوتا بیٹا رہ گیا تھا ، کیونکہ بڑا بھائی ( المعروف گامی) صرف ڈیڑھ سال کی عمر میں انتقال کر گیا تھا ۔ مرحوم کی دو ہمشیرائیں بھی تھیں شبابیت کے ایام تھے کہ آپ کی والدہ نے رشتہ ازواجیت کے بندھن میں باندھنے کیلئے گاﺅں پھاگلہ کارخ کیا اور شادی ہوگئی مگر یہ رشتہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا قلیل مدت میں ہی ان کا رضائے الہی سے انتقال ہو گیا اور ان سے کوئی اولاد نہ ہوئی پھر والدہ نے آپ کا نکاح سر نکوٹ کے گاﺅں پھوٹہ میں کرویا ، رخصتی ہونا باقی تھی حالات بگڑے اور نکاح شدہ خاتون صاحبہ اپنے اہل خانہ کے ہمرہ پڑوسی ملک پاکستان چلی گئی اسطرح یہ نکاح باالٰاخر فسخ کرنا پڑا ۔مگر آپ کی والدہ نے ہمت نہ ہاری تیسرے نکاح کیلئے سیدھے گاﺅں بھینچھ پہنچے اور مشہور زمانہ مرحوم حسین کھوکھر ( اللہ تعالی ان کی قبر پر انوار برسائے ) کی صاحبزادی مرحومہ رشیدہ بی ( اللہ غریق رحمت کرے ) سے آپ کا نکاح ہوا ۔ باری تعالیٰ نے ان کے بطن سے تین صاحبزادیاں عطا فرمائی ۔جن میں والدہ محترمہ الفت بی ، خالہ تصویر اختر و شاکر جان ہیں ،جبکہ ان کے بطن سے کوئی فرزند نہ ہوا جس کی وجہ سے نانی مرحومہ رشیدہ بی کی ہی خواہش و اسرار پر چوتھی شادی منڈی کے سیکلو سے کی ، مگر بد قسمتی سے اس وقت والدہ محترمہ کا سایہ بھی سر سے اُٹھ چکا تھا اور اس چوتھے نکاح کا بیڑا نانی مر حومہ رشیدہ بی نے اپنے سر اٹھایا پھر باری تعالیٰ نے ان کی خواہش پوری کی اور نانی منشا کے بطن سے دو فرزند ماموں زوبیر احمد خان اور ماموں آصف خان اور دو شہزادیاں خالہ دلربا اور ربینہ بی عطا کیں۔ اوساطِ زندگی میں دیگر کئی نشیب و فراز آئے جن کی وضاحت کرنا یہاں مناسب نہیں مگر تنگ دستی کے عالم میں بھی آپ نے اپنا standard برقرار رکھا ۔ جب لوگ پوچھتے خان صاحب زندگی کیسی گزررہی ہے آپ فرمایا کرتے اللہ رب العزت کا فضل سے فسکلاس زنگی گزر رہی ہے ۔ آپ نے کھبی اللہ پاک کی ناشکری نہ کی شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ اواخر زندگی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازہ اور خوب نوازہ۔ پچھلے تقریباً چھ سال سے مرض قلب کی وجہ سے علاج و معالجہ کے سلسلہ میں اکثر نہیں بلکہ سارے سفر مرحوم کے ساتھ کرنے کا شرف بھی راقم کو ماموں زبیر کی معاونت سے حاصل ہے ۔ دوران سفر مجھ سے محو گفتگو ہوتے تو دورانِِ کلام میاں محمد ؒ کے اشعار سے اپنی گفتگو کو زینت بخشتے ۔ مرحوم نہایت متشدد اور متصلب قسم کے سنی صحیح العقیدہ بریلوی المسلک تھے اور اولیاءاکرام سے حد درجہ عقیدت رکھتے تھے ۔غوث اعظم ؒ کی گیارو یں شریف دیتے اور اپنے گھر میں کثرت سے ختمات المعظمات پڑھاتے اور کوئی بھی ختم یا صدقہ راقم کی عدم موجودگی میں نہ پڑ ھواتے اگر چہ مہینوں پیچھے کرنا پڑتا ۔فرماتے بیٹا آپ آﺅ گئے ختم پڑھو گئے۔آپ پیر جیلانی صاحب کشمیر والوں سے بہت عقیدت رکھتے تھے ۔ فرمایا کرتے بیٹا ان کی دعا سے ہی اللہ پاک نے میرے (زبی) کو نوازہ ہے مامو زبیر احمد کیونکہ بیرون ملک ( متحدہ عرب امارات دبئی ) میں رہتے ہیں اسلئے ان کے متعلق زیادہ فقر مند رہتے جوں ہی ان کی تصویر دیکھتے یا video callہوتی تو مرحوم کی زبان سے بے ساختہ نکلتا بسم اللہ ( او پاپا صدقے) اور آنکھیں اشکبار ہو جاتی پھر اپنے رومال سے ناک صاف کرنے کے بہانے ان چھلکتے آنسوں کو چھپا لیتے کہ کہیں میرے فرزند پر یہ شاق نہ گزرےں ۔ آ پ خاندان کہ ہر بچے سے انتھک پیار کرتے، اپنے پوتے اظہر خان کے ہونٹوں سے ہونٹب ملا کر کھیلتے اسے اپنی آنکھوں سے غائب نہ ہونے دیتے ، آپ کا یہ خاصہ تھا کہ آپ دشمنوں کو بھی گھر میں کھانہ کھلاتے اور کھبی ان سے گلہ زاری نہ کرتے آپ نہایت متحمل مزاج تھے آپ کی تحریر اس قدر پر کشش تھی کہ میرے اساتذہ دیکھ کرفرمایا کرتے کہ ( یار یہ شخص ایسا چھاپ دیتا ہے کہ بندہ تکتا رہ جائے ) اور مجھ سے اساتذہ فرماتے بیٹا پہلے ہم اس کا مطالع کریں گئے پھر کل آپ کو یہ خط سنائیں گئے ۔ مرحوم نماز کے پابند تھے اور نہایت سکون کے ساتھ نماز پڑتے زمانہ طفلیت میں ایک مرتبہ میں نے نماز ِتراویح جلدی پڑھا دی تو بیچ میں ہی نماز توڑ کر فرمانے لگے بیٹا نماز سکون کی ہوتی ہے دوبارہ پڑھاﺅ ۔اسی طرح ایک اور واقعہ ہے کہ گاﺅں بھینچھ میں غلام نبی مرحموم کی ایصال ثواب کی محفل تھی وہاں موجود مینڈھر کے ایک بزرگ نے راقم سے نانا مرحوم کی موجودگی میں کئی ایک سوالات کئے فقیر سے جوابات سن کر ان بزرگوں نے میرا تعارف پوچھا ابھی سب خاموش ہی تھے کہ نانا مرحوم کی آنکھوں میں آنسوں آگئے اور ببانگ دھل فرمانے لگے یہ میرا بیٹا ہے میرے چمنستان الفت کا پہلا پھول ہے اس کو میں نے صرف حافظ ہی نہیں بلکہ عالم بھی بنایا ہے پھر خوب دعاﺅں سے نوازہ ۔ نانا مرحوم کہ یہ الفاظ راقم کے لئے کسی سند سے کم نہ تھے ۔ آپ کے اوصاف حمیدہ میں سے یہ بھی تھا کہ آپ جس سے پہلی بار ملاقات کرتے اس کو یہ محسوس نہ ہوتا کہ یہ پہلی ملاقات ہے کیونکہ آپ اخلاقی و روحانی اور معاشرتی و سیاسی ہر لحاظ سے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے ۔ سارے خاندان میں بلند ترین مقام رکھتے تھے ، کوئی بھی کام خاندان میں آپ کی رائے کے بغیر نہ کیا جاتا آخری ایام میں بھی آپ نے اپنے خاندان سے ملاقی ہونے کے لئے ملہان وغیرہ کا دورہ کیا اور اپنے قریبی عزیز و اقارب سے ملاقاتیں ہوئی جبکہ اسی دوران راقم الحروف سے طویل ملاقات ہوئی اور براردی کے مختلف مسائل پر گفت و شنید ہوئی ۔ اس موقع پر اگر میںاپنے برارد اکبر محمد شریف کا ذکر نہ کروں تو یقیناً یہ حق تلفی ہو گی جنہوں نے مرحوم کے دورِ حیات میں ان کا ساتھ کسی محاظ پر نہ چھوڑا چائے وہ رات کا اندھیرا ہو یہ دن کا اجالا جب بھی ضرورت پڑی موصوف ہر موقع پر حاضر خدمت رہے ،اللہ پاک انہیں جزاءخیر دے ۔ علاوہ برازیں میں ان تمام حضرات کیلئے بھی دعا گو ہوں کہ اللہ پاک ان تمام حضرات کا بھی بھلا کرے جنہوں نے نانا جان کے دور حیات میں بھی خدمت کی اور ان کی تدفین و تکفین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔حاصلِ کلام کچھ یوں ہے ” کہ بالآخر ۳ جون ۰۲۰۲ بروز بُدھ جب رات کی سیاہی چھٹ چکی تھی ، صبح نے انگڑائی لی ، مہتاب اپنی کرنیں بکھیرنے کیلئے ابھی بیتاب ہی تھا کہ عزرائیل علیہ ا لسلام حکم ربی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مرحوم کہ گھر کا رخ کر چکے تھے چونکہ حکم تھا کہ روح گھر کے اندر قبض کرنی ہے، مگر باباابھی وضو فرما رہے تھے بارگاہ ازیدی میں حاضر جو ہونا تھا وقت کی آغوش میں اب جگہ نہ تھی ملائکہ منتظر تھے بابا اندر تشریف لا ئے اور جلدی سے oxygen کے ذریعہ چند سانسیں لی ۔عزرائیل علیہ السلام نے فرمائا کہ بابا اب رکنے اجازت نہیں بابا نے کہا تو چلئے پھر چلتے ہیں ، پس پھر کیا ہونا تھا کہ الوداعی سانس لی اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور بابا ہمیں چھوڑ کر اپنے معبود حقیقی سے جا ملے ۔( انا للہِ و انا الیہ راجعون )واضح رہے راقم اس دوران اپنے ادارہ مدرسہ اشرفیہ نور الاسلام کھنیتر میں ہی تھا، جب کسی نے یہ اطلاع بذریعہ فون دی تو بدن لرزہ بر اندام ہو گیا، پھر حیرت نے جھنجھلا کر کہا اٹھو اور نانا جی کے گھر چلو تو اسی اثناءمیں چھوٹے مامو آصف خان کا فون رسیو ہوتا ہے اور بس اتنا ہی بول پائے ( حافظ جی جلدی آﺅ نا) تھوڑی ہی دیر میں بڑے ماموںزبیر احمد خان فون کرتے ہیں” کہاں ہو ؟ جی مدرسہ۔ کیا کر رہے ہو ؟ جی بس گھر جا رہا ہوں ۔ گھر کیوں جا رہے ہو ؟ اس بات کا جواب دینے کی مجھ میں سکت نہ تھی تھوڑی دیر سکتہ طاری رہا اور فون کٹ ہو گیا ۔ بہر حال میں گھر پہنچا ماموں زبیر سے دوبارہ بات ہوئی انہوں نے حکم دیا جنازہ آپ خود پڑھائیں گئے جبکہ اس موقع پر علماءو عوامِ اھلسنت کا جم ِغفیر تھا ان سب کا بھی یہی اسرار تھا، جبکہ بحمد اللہ راقم کو ہی یہ سعادت حاصل ہوئی ، اور پھر بابا کا جنازہ کلمہ طیبہ کی گونج میں اپنے ۔ اصلی گھر کی طرف چلا ، اس دوارن آسمان پر بادل بھی سایہ فگن ہوگئے اوراپنی گرج اور کڑک کے ساتھ اللہ پاک کی تسبیح بیان کرنے لگے ۔ گویا زبان حال سے کہہ رہے تھے بابا کو جلدی اپنے گھر جانے دو آج ہم نے ان کی تربت پر برسنا ہے اور جم کر برسنا ہے ۔ دوران تدفین برکھا رم جھم رم جھم برسنے لگا جوں ہی تدفینی عمل سے فارغ ہوئے پھر خوب جم کر اللہ پاک کی رحمت برسی اور ان کی تربت کو اپنی آغوش میں لیا ، یہاں پہنچ کر میں مشکور ہوں اپنی والدہ محترمہ اور اپنے رفقائِ خاص محترم سید بشارت حسین شاہ، سید انیس الحق بخاری ، اور سید اعجاز الحق بخاری ،جنہوں نے اس مضمون میں معاونت کی ۔ بابا کی فاتحہ چہلم میں بھی ضلع بھر کے علماءکرام ،و سادات عظام کے علاوہ بابا سے حقیقی محبت رکھنے والا کوئی بھی فرد پیچھے نہ رہا ،تلاوت و نعت خوانی کے بعد علماءکرام نے اپنے اپنے انداز میں بابا کی تعریفوں کے پل باندھے ، قل
شریف ، صلاة وسلام کے بعد مولانا قمر الزماں اشرفی نے آخری دعا فرمائی ، اس موقع پر خاندان کے معززین حاجی محمد فاروق صاحب ، فوجی سید اکبرصاحب ،میرے والد محترم مولانا نور حسین صاحب، مولانا طفیل قادری صاحب ، حوالدار شوکت صاحب ، حافظ نثار اور مولوی جہانگیر کے علاوہ علاقہ کی دیگر معتبر شخصیات نے شرکت کی اور انہیںخراج ِتحسین پیش کیا ۔ وہیںاب جبکہ ان کے لواحقین و پسمندگان گویا اپنی مغموم زبانوں سے یہی پکار رہے ہوں ”کہ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گی، ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا