صادقہ نواب سحر کی افسانوی فکر’خلش بے نام سی‘کے تناظر میں

0
0

محمد نہال افروز

صادقہ نواب سحر کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تو نہیں، مگر کم بھی نہیں ہے۔ انہوںنے ارود اور ہندی دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کی ہے،ان کی پہچان ارود اور ہندی دونوں ادب میں یکساں ہے۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی ایک زبان کا شاعر ، ادیب یا کہانی کار بیک وقت دو زبانوں کے ادب میں اپنا ایک منفرد مقام پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ایسے قلم کار انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور یہ بڑی بات ہے کہ صادقہ نواب سحر کا نام ان میں شامل ہے ۔
صاقہ نواب سحر کی پیدائش صوبہ آندھرا پردیش کے گُنٹور ضلع میں ہوئی۔ ان کا اصلی نام ’صادقہ آرا‘ ہے۔ شوہر ’اسلم نواب‘ کی مناسبت او رسحرتخلص ہونے کی وجہ سے وہ ادبی دنیا میں”صادقہ نواب سحر‘ ‘ کے نام سے مشہور ہوئیں ۔ان کے والد کا نام ’شیخ خواجہ میاں‘ اور والدہ کا نام ’شرف النساءبیگم ‘تھا۔ابتدائی تعلیم گنٹور میں حاصل کرنے کے بعد ممبئی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی سند حاصل کی ۔ اس کے بعدانہوں نے انگریزی اورہندی میں ایم اے کیا۔پھر ہندی ادب میں ”ہندی غزل:۰۶۹۱ءکے بعد(دشینت کا خصوصی مطالعہ) “کے عنوان پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
صادقہ نواب نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ممبئی کے ایک کالج میں اردو لکچرر کی حیثیت سے کیا۔اس کے بعدانہیں کھپولی،رائے گڑھ کےK.M.C.کالج میں ہندی لکچرر کی حیثیت سے تقرری ملی۔ فی الحال وہ اسی کالج کے شعبہ ہندی میںایسوسی ا ےٹ پروفیسرہیں اور صدر شعبہ¿ ہندی کے عہدے پہ فائز ہیں ، ساتھ ہی ساتھ درس وتدریس اور تصنیف و تالیف کے کام میں مصروف ہیں۔
صادقہ نواب سحر نے افسانہ نگاری کے علاوہ ناول نگاری،تنقید نگاری،ڈرامہ ،شاعری ،ترجمہ اور ادب اطفال میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور تقریباً ان سبھی اصناف پر ان کی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کی پہلی کتاب شعری مجموعہ ”انگاروں کے پھول“ کے عنوان سے ۶۹۹۱ءمیں منظر عام پر آیا۔ ان کی دوسری کتاب بچوں کی نظموں کا مجموعہ”پھول سے پیارے جگنو“ کے عنوان سے ۳۰۰۲ءمیں شائع ہوا۔صادقہ نواب کی تیسری کتاب ان کا شاہکار ناول ”کہانی کوئی سناو¿ متاشا“ کے عنوان سے ۷۰۰۲ءمیں منظر عام پر آیا۔اس ناول کا ہندی ترجمہ ۹۰۰۲ئمیں شائع ہوا۔اسی ناول کو شہزاد پبلیکشنز، کراچی نے اردو میں ۰۱۰۲ءمیں دوبارہ شائع کیا۔ ناول”کہانی کوئی سناو¿ متاشا“کو تیلگو زبان میں ۴۱۰۲ءمیں شائع کیا گیا۔ صادقہ نواب سحر کا دوسرا ناول ”جس دن سے…. “ کے عنوان سے ۶۱۰۲ءمیں منظر رعام پر آیا۔ان کے ڈراموں کا مجموعہ ”مکھوٹوں کے درمیان “ کے عنوان سے ۲۱۰۲ئمیں شائع ہوا۔
ان تمام تخلیقات کے ساتھ ہی صادقہ نواب سحر نے افسانہ نگاری میں بھی بہت نایاب اور کامیاب تجربے کیے ہیں،جن میںاکثر انہیں کا ایجاد کیا ہوا ہے۔ان کا افسانوی مجموعہ”خلش بے نام سی“ اور متعدد افسانے منظر عام پر آچکے ہیں۔انہوں نے اپنے افسانوں میں دورحاضر کے مسائل کو بڑی کاریگری کے ساتھ پیش کیاہے۔وہ اپنے آس پاس کے ماحول میں پھیلی ہوئی برائی،ظلم تشدد،غریبی، بے روزگاری، قتل و غارت گری اور عورتوں پر ہورہے ظلم کو بہت گہرائی اور گیرائی سے اپنے احساس فکر میں لاتی ہیں اور اسے اپنے افسانوں کا موضوع بناتی ہیں۔ وہ اپنے افسانے میں انسانی مسائل کو اس طرح پیش کرتی ہیں کہ قاری کو اپنی آپ بیتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ مصطفی کریم صادقہ نواب سحر کے افسانوں کے تعلق سے لکھتے ہیں:
”ان کے افسانوں میں انسانیت کی روشنی بکھری ہوئی ہے۔گو ان افسانوں میں کوئی پلاٹ نہیں محسوس ہوتا لیکن یہ سبھی زندگی کی ایک قاش ضرور لگتے ہیں۔صادقہ نے اپنے افسانوں میں اِردگرد چلتے پھرتے اور دکھ کے مارے انسانوں پر گہری نظر ڈال کر انہیں ہمارے سامنے اس طرح لا کھڑا کر دیا ہے کہ ان میں ہم اپنے آپ کو بھی دیکھتے ہیں۔“
(مصطفی کریم،پیش لفظ’خلش بے نام سی‘،صادقہ نواب سحر،ص۶)
افسانوی مجموعہ”خلش بے نام سی“ ۳۱۰۲ءمیں شائع ہوا۔اس کتاب کا قاسم ایجوکیشنل پبلشنگ ہاو¿س ،دہلی ہے۔اس مجموعے میں مصطفی کریم صاحب کا پیش لفظ اور سولہ(۶۱) افسانے شامل ہیں ،جن پر تفصیلی گفتگو درج ذیل ہے۔
اس مجموعے کا پہلا افسانہ ”شریاں والی“ کے عنوان سے ہے۔یہ افسانہ اندھرا پردیش کے مختلف شہروں گنٹور،وارنگل،وجے واڑہ اور حیدرآباد کے ارد گرد گھومتا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ”شریاں والی“ ہے ،جس کا اصلی نام ’نصیبن ‘ہے۔نصیبن کی شادی نو عمری میں ہی ایک بہت امیر آدمی سے ہو جاتی ہے ،لیکن اس کے نصیب میں خوشیاں نہیں رہیتی۔ جلد ہی اس کے شوہر کا انتقال ہو جاتا ہے اور وہ شوہر سے محروم اور عالی شان مکان اور روپیوں پیسوں سے مالا مال ہو جاتی ہے۔ نصیبن اپنی زندگی کوخوش حال بنانے کے لیے دوسری اور پھر تیسری شادی کرتی ہے،لیکن اسے وہ خوشی یا حق نہیں ملتا جو ملنا چاہئے تھا۔ ان سب میں ا س کا بہت سارا پیسہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔باقی بچے پیسوں سے وہ حج کر آتی ہے ۔ حج کرنے کے بعد اس کے پیسے بالکل ختم ہو جاتے ہیں اور وہ بھیک مانگ کر اپنی زندگی گزر بسر کرنے لگتی ہے۔ اسی طرح اس افسانے کا ایک کردار ’رقیہ‘ ہے جو نصیبن کے تیسرے شوہر کی بیٹی ہے ۔اس کی شادی بھی ایک امیر گھرانے میں ہوتی ہے لیکن جب اسے ڈاکٹروں کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کبھی ماں نہیں بن پائے گی تو وہ سب کچھ چھوڑکر اپنے مائکے چلی آتی ہے۔ اور اپنی سوتیلی ماں نصیبن کے ساتھ رہنے لگتی ہے۔
مصنفہ نے افسانے میں زمان ومکان کا پورا خیال رکھا ہے۔انہوں نے کردار سے وہی زبان استعمال کروائے ہیں، جو وہاں کی مقامی زبان ہے۔یہ افسانے کی بڑی خوبی ہے کہ افسانے میںمقام ،کردار اور زبان میں مماثلت ہے۔ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”یہ کیا کررئے ماں تم؟“نصیبن چونکی۔
”آپ کے پیر پڑ ری ہوں“اس کی بات سن کر نصیبن شرمندہ ہو گئی۔
کیوں کر رئے ماں تم ایسے؟“
”اماں باوا کو بھی ایسا ہی کرتی تھی نا! ….اب امی نہیں رہیں ….آپ میری چھوٹی امی ہیں نا!!!“ (خلش بے نام سی،صادقہ نواب سحر،ص:۱۲)
”میٹر گرتا ہے“ اس مجموعے کا دوسرا افسانہ ہے۔اس افسانے کا مرکزی کردار ممبئی شہر میں ٹیکسی ڈرائیور ہے،جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتا ہے۔مصنفہ نے ٹیکسی ڈرائیور کے بنیادی مسائل کو اس افسانے میں پیش کیا ہے۔ڈارئیور کاحال روز کنوا کھودنے اور روزپانی پینے والا تھا۔ اسی میں اس کے بیٹے کی طبیعت بگڑ جاتی ہے ،جس سے ٹیکسی ڈرائیور کی حالت خراب ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کو خوش حال بنانے کے لیے ہر ممکن کو شش کرتا ہے ،جس کی وجہ سے اپنا زیادہ تر وقت ٹیکسی چلانے میں ہی دیتا تھا ۔اس وجہ سے اس کی بیوی اس سے ناراض رہتی تھی۔
اس افسانے میں ممبئی کے متوسط طبقے کے لوگوں کی زبان استعمال کی گئی ہے جس سے کہانی میں ایک نیا پن پیدا ہوگیا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”اتنی محنت اپُن کائے کو کرتا ہے؟…. اسی لیے نا کہ بچہ لوگ اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہو جائے ۔اپنا نہیں تو اِن لوگوں کا زندگی بن جائے …. ہے نہ صاحب….!“ (خلش بے نام سی،صادقہ نواب سحر،ص: ۵۲)
”خلش بے نام سی “اس مجموعے کا اہم افسانہ ہے۔اس افسانے میں مصنفہ نے عورت کی حسیت کو موضوع بنایا ہے۔ افسانے میں تین کردار ہیں روبی،صبیحہ اور نواز۔روبی ،صبیحہ پچپن کی سہلیاں ہیں اور نواز روبی کا چہیتا بھائی۔ایک بار صبیحہ دس دن کے لیے ممبئی میں رہ رہی اپنی سہیلی روبی کے گھر آتی ہے۔ صبیحہ کے آنے پر روبی تو خوش ہوتی ہے اور ممبئی شہر گھمانے لے جاتی ہے،لیکن اس کی طبیعت خراب ہو نے کی وجہ سے وہ صبیحہ کو ممبئی شہر گھومانے کی ذمے داری اپنے بھائی نواز کو دے دیتی ہے، ساتھ میں دونوں کے کافی وقت گزارنے سے اچھی دوستی ہو گئی۔ یہ دوستی روبی کو اچھی نہیں لگی۔ اسے لگا کہ یہ میرے بھائی کو اپنی پیار میں پھنسا رہی ہے ،جس سے میرا بھائی مجھے نظر انداز کرنے لگا ہے۔ روبی کے رویہ میں تبدیلی دیکھ کر صبیحہ نے اس کی وجہ جاننی چاہی تو اس نے اسے جھڑک دیا۔صبیحہ نے اسے اس کی بیماری سمجھ کے بھلا دیا۔ جب اس کی چھٹی پوری ہو گئی تو وہ اپنے گھر چلی گئی۔ وہاں پہنچ کر وہ نواز اور روبی کا انتظار کرنے لگی کہ جیسے ہی روبی کی طبیعت ٹھیک ہو گی وہ نواز کو لے کر امی سے میرا ہاتھ مانگنے آئے گی اور ہوا بھی یہی کچھ دنوں کے بعد روبی ،صبیحہ کی امی سے اپنے بھائی نواز کے لیے اس کا ہاتھ مانگنے گئی ،لیکن صبیحہ کی امی یہ کہہ کر ا نکار کر دیا کہ اس کا رشتہ تو میں نے اپنی سہیلی کے بیٹے سے طے کر دی ہے۔جب کہ یہ سچ نہیں تھا ۔وہ لوگ جواب پانے کے بعد واپس لوٹ گئے۔نواز کی گاڑی دھول کو چیرتی ہوئی واپس جارہی تھی تو صبیحہ کو لگا گاڑی جیسے اس کے دل کو چیرتی ہو نکل گئی۔صبیحہ کے پوچھنے پہ اس کی امی نے کہا کہ تو اس گھر میں خوش نہیں رہ پائے گی۔جب دس دن میں روبی کو تجھ سے جلن ہونے لگی تو اس گھر میں اپنی پوری زندگی کیسے بتائے گی۔
اس افسانے میں مصنفہ نے عورت کی حسیت کو بخوبی دکھایا ہے ۔روبی پہلے خود چاہتی تھی کہ دونوں کی شادی ہو جائے لیکن جب دونوں قریب ہونے لگے تو اسے اپنے بھائی کی محبت کو کھونے کا ڈر ستانے لگا۔روبی کے اندر ہی اندر ایک خلش پیدا ہو گئی ۔بے نام سی خلش ،جسے وہ کوئی نام نہیں دے سکتی تھی۔
”منت“عقیدت و احترام کے موضوع پہ لکھا گیا دلچسپ افسانہ ہے۔افسانے میں ’مکتا‘ نام کی ایک لڑکی ہے ۔ جس کو ’ببن‘ نام کا ایک لڑکا اکثر چھیڑتا رہتا تھا،لیکن اس کے باپ کے ڈر سے کبھی اس نے اپنے من کی بات کو سامنے نہیں لا سکا۔ببن تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ چلا جاتا ہے۔ مکتا کسی بیماری کے باعث بہت موٹی ہوتی چلی گئی ۔اس وجہ سے اس کی دوسری بہنوں کی اور اس کے ساتھ کی دوسری لڑکیوں کی شادی ہوجاتی ہے ،لیکن بیماری کی وجہ سے مکتا کہ شادی نہیں ہو پاتی۔ اس پر مکتا کی آئی( ماں) وٹھل پانڈورنگ کے در پر منت مانگتی ہے اور کہتی ہے:
” اگلی بار تبھی آوں گی ،جب میری منوتی پوری ہوگی۔
”ہے وٹھل پانڈورنگ !میری لیک(بیٹی) کو شادی لائق بنا دے۔“ اپنے سر پر گملے میں تلسی کا پودھا اٹھائے ا نہوں نے عقیدت سے کہاتھا۔“
(خلش بے نام سی،صادقہ نواب سحر،ص: ۱۵)
افسانہ”ایس ایم ایس“ میں ایک انجان محبت کو پیش کیا گیا ہے۔مصنفہ نے اس دور کے ٹکنالوجی کے استعمال اور اس کے ذریعے لوگو کو کس طرح پریشان کیا جارہا ہے ،اس کوبہت ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔اس افسانے میں کرشنا اور اس کے دو دوست ممبئی شہر گھومنے کی غرض سے جاتے ہیں۔ وہاںکرشنا کے موبائل پر ایک انجان نمبر سے میسج آتا ہے ۔کرشنا پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ کون ہے ۔ باتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور دونوں ایک دوسرے سے ملنے کی کئی بار خواہش ظاہر کرتے ہیں ،لیکن کسی نہ کسی وجہ سے دونوں کی ملاقات نہیں ہو پاتی۔ آخر یہ راز ،راز ہی رہ جاتا ہے کہ میسج کرنے والا کون تھایا کون تھی۔ افسانہ یہیں پر اختتام ہو جاتا ہے۔
محبت کا موضوع افسانے میں نیا نہیں ہے لیکن اس افسانے میں ایک نئی تکنیک کے ذریعے مصنفہ نے اس محبت کو بالکل نئے انداز میں پیش کیا ہے۔صادقہ نے دورحاضر کی ٹکنالوجی کا بخوبی فائدہ اٹھاتے ہوئے اس محبت کے موضوع کو نیا بنا کر پیش کیا ہے۔ یعنی کس طرح سے آج کی ٹکنالوجی سے انسان کے جذبات سے گھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔اس کو افسانہ نگار نے اپنے زور قلم سے قاری کو وہاں تک پہنچانے کی کامیاب کو شش کی ہے۔
اس مجموعے میں شامل افسانہ”ابارشن“ ایک شادی شدہ لڑکی کی تعلیم کو موضوع بنا کر لکھا گیا ہے۔اس افسانے کے مرکزی کردار ’سرینا‘کی ابھی جلدی ہی شادی ہوئی ہوتی ہے کہ اس کے امتحان ہونے کو آجاتے ہیں ۔اس کے پہلے پرچے کے دن ہی امتحان حال میں ’سرینا ‘ کو الٹی کی شکایت ہوتی ہے تو وہ باہر نکل جاتی ہے۔ باہر اس کا شوہر موجود ہوتا ہے اور وہ اپنی بیوی کو سمجھاتا ہے کہ تم امتحان دے دو بعد میں سب ٹھیک ہو جائے گا ،لیکن وہ تیار نہیں ہوتی۔اس پر شوہر اور بیوی میں بحث ہونے لگتی ہے:
”دے دو امتحان !…. ہو جائے گا…. مجھے پتا ہے تم کر لوگی …. کیوں گھبراتی ہو؟…. میں ہوںنا!….“
”نہیں ….مجھے چکر آتے ہیں …. باربار الٹی آتی ہے ۔“
”سب ٹھیک ہو جائے گا ….تھوڑا سا لکھ لو۔پچاس میں سے اٹھارہ بھی مل جائیں تو چلے گا…. فائنل اِگزام میں کَور ہو جائے گا…. تھوڑا سا لکھ لو۔“
”نئیں ….نئیں…. “ سرینا کی آواز کلاس کی پِن ڈراپ خاموشی کو توڑنے لگی۔“ (خلش بے نام سی،صادقہ نواب سحر،ص:۰۳۱)
شوہر کے لاکھ منانے پر بھی سرینا امتحان دینے کے لیے تیار نہیں ہوئی،جب کہ شوہر کا کہنا تھا کہ تم تھوڑا سا ہی لکھ کے آجاو جس سے تمہارا سال خراب نہ ہواور تم اگلی کلاس میں پہنچ جاو۔باوجود اس کے سرینا امتحان لکھنے کے لیے تیار نہیں ہوئی ۔اس کی وجہ سے اس کا شوہر ناراض ہو کر سرینا کو ہاتھ پکڑ کر لے جانے لگتا ہے اور کہتا ہے ” چل اسپتال ،آج ہی تیرا ابارشن کرواتا ہوں….“
ان افسانوں کے علاوہ اس مجموعے میں ”شرارہ“،”سلگتی راکھ“،”اُدھڑا ہوا فراک“، ”ٹی شرٹ“،” نوٹس“،”چاہے ان چاہے “،” ہزاروں خواہشیں ایسی….“،”خدا کی دنیا بہت وسیع ہے“، ”پہلی بیوی“ اورباڈی“ افسانے بھی شامل ہیں۔ان افسانوں میں صادقہ نواب نے ان مسائل کو موضوع بنایا ہے جن پر انسان کی نظر توپڑتی ہے لیکن وہ غور نہیں کرتا ۔صادقہ نواب ان مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں اور انہیں مسائل کواِن افسانوں میں پیش کیا ہے، جن سے قاری متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔
درج بالا افسانوں کے علاوہ صادقہ نواب سحر کے متعدد افسانے”راکھ سے بنی انگلیاں“، ”وہیل چیئر پر بیٹھا شخص“، ”دیوار گیر پینٹنگ“، الّو کا پٹھا“،”سہمے کیوں ہو انکش“وغیرہ بھی منظرعام پر آچکے ہیں ،جو اکثر و پیشترملک کے مشہور و معروف رسائل مثلاً آجکل، ایوانِ اردو،سب رس،شاعر، استفسار وغیرہ کی زینت بنتے رہے ہیں۔
المختصر صادقہ نواب سحر نے اپنے افسانوں میںاپنی احساس فکری سے انسانی زندگی کے مختلف پہلوو¿ں کو حقیقت نفس الامری بنا کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ ان کی کہانیوں میں سماجی، سیاسی، تہذیبی،ثقافتی، تاریخی ،معاشی اور معاشرتی پہلوو¿ں کو بہتر طور پر دیکھاجا سکتا ہے۔ان کے افسانوں میں جس طرح محسو سات کو حقیقت کا جامہ پہنا کر معاشرے کے سامنے پیش کیا گیا ہے،وہ بہت کم تحریروں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ صادقہ نواب سحر زندگی کو بہت قریب سے دیکھتی اور پرکھتی ہیں۔ان کے یہاں موضوعات کی بہتات ہے۔ ان کے ہر افسانے میں کوئی نیا مسئلہ زیربحث آتا ہے۔ ان کے زیادہ تر افسانوں کے پلاٹ سادہ اور کردارمثالی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آس پاس کے ماحول سے موضوع اور کردار چنتی ہیں اور اسے اپنی افسانوی فکر میں ڈھال کر قاری کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ یہی ان کے افسانوں کی کامیابی کی روشن دلیل ہے۔ظاہر سی بات ہے جس طرح ہرمرد افسانہ نگارپریم چند، کرشن چندر، منٹو، بیدی،غلام عباس نہیں ہوسکتا ،اسی طرح ہر خواتین افسانہ نگاررشید جہاں،رضیہ سجاد ظہیر،شکیلہ اختر،عصمت چغتائی ،قرةالعین حیدر نہیں ہو سکتیں۔ لیکن ان تخلیق کاروں کی روایت کو آگے ضرور بڑھا سکتے ہیں،بلکہ نت نئے تجربے بھی کر سکتے ہیں۔ اس روایت کو آگے بڑھانے اور اس فن میں جدید تکنیک کے ذریعے صادقہ نواب سحر نے بہت سے نئے تجربے کیے ہیں۔یہ ان کی روشن مستقبل کی دلیل ہے۔ سلام بن رزّاق صادقہ نواب سحر کے تعلق سے رقمطراز ہیں:
”اردو میں عصمت چغتائی اورقرةالعین حیدر کے بعد خواتین قلمکاروں میں بہت کم نام ملکی سطح پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں صادقہ نواب کی کثیرالجہات صلاحیتوںکودیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ عصمت چغتائی اور قرةالعین حیدر کی ادبی روایت کو آگے بڑھانے والی خواتین قلمکاروں میں ایک نمایاں کردار ادا کریں گی۔“ (سلام بن رزّاق،پشت پیج۔کہانی کوئی سناو متاشا از ڈاکٹر صادقہ نواب سحر)
٭٭

Mohd. Nihal Afroz
mob. 9032815440

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا