قربانی کی مختصر تاریخ اور فضاٸل و مساٸل

0
0

قربانی کی تاریخ
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دبکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے (اسماعیل علیہ السلام )کو ذبح کر رہے ہیں، نبی کا خواب سچا ہوا کرتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے، جب باپ نے بیٹے کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہیں ذبح کرنے کا حکم دیا ہے تو فرمانبردار بیٹے اسماعیل علیہ السلام کا جواب تھا:
یَآ اَبَتِ افْعَلْ مَا تُوٴمَرُ سَتَجِدُنِی اِنْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ۔ (سورہٴ الصٰفٰت آیت نمبر 102)
ترجمہ: اے میرے باپ! کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے، خدا نے چاہا تو قریب ہے آپ مجھے صابر پائیں گے۔
بیٹے کے اس جواب کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب مکہ مکرمہ سے ذبح کرنے کے لئے لے کر چلے تو شیطان نے منیٰ میں تین جگہوں پر انہیں بہکانے کی کوشش کی، جس پر انہوں نے سات سات کنکریاں اس کو ماریں، جس کی وجہ سے وہ زمین میں دھنس گیا۔
آخرکار رضاء الہی کی خاطر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل کے ٹکڑے کو منہ کے بل زمین پر لٹادیا، چھری تیز کی، آنکھو ں پر پٹی باندھی اور اُس وقت تک چھری اپنے بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صدا نہ آگئی:
وَنَادَیْنَاہُ اَن یَّا اِبْرَاہِیْمُ۔ قَدْ صَدَّقَّتَ الرُّوٴیَا اِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (سورہٴ الصٰفٰت104۔ 105)
ترجمہ: اور ہم نے ندا فرمائی اے ابراہیم! بے شک تو نے خواب سچ کر دکھائی، ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔
چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا گیا، جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کردیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (سورہٴ الصٰفٰت 107)
ترجمہ: اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے صدقے میں دے کر اسے بچالیا۔
اس واقعہ کے بعد سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جانوروں کی قربانی کرنا خاص عبادت میں شمار ہوگیا۔
چنانچہ حضور اکرم ﷺ کی امت کے لئے بھی ہر سال قربانی نہ صرف مشروع کی گئی، بلکہ اس کو اسلامی شعار بنادیا گیا، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں حضور اکرم ﷺ کے طریقہ پر جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ کل قیامت تک جاری رہے گا۔۔۔ ان شاء اللہ تعالٰی۔

قربانی کاحکم
حضرت امام ابوحنیفہ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر صاحبِ حیثیت پر اس کے وجوب کا فیصلہ فرمایا ہے۔
حضرت امام مالک بھی قربانی کے وجوب کے قائل ہیں۔
حضرت امام احمد بن حنبل کا ایک قول بھی قربانی کے وجوب کا ہے۔

#قربانی_کے_وجوب_کے_دلائل:
قرآن وسنت میں قربانی کے واجب ہونے کے متعدد دلائل ہیں، یہاں اختصار کی وجہ سے چند دلائل ذکر کئے جارہے ہیں۔
1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
فَصَلِّ لِرَبِّک وَانْحَرْ(سورۃ الکوثر، آیت نمبر 2)
ترجمہ: نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کرنے کاحکم ( امر) دیا ہے، عربی زبان میں امر کا صیغہ عموماً وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے۔
#وَانْحَر کے متعدد مفہوم مراد لئے گئے ہیں مگر سب سے زیادہ راجح قول قربانی کرنے کا ہی ہے۔
اردو زبان میں تحریر کردہ تراجم وتفاسیر میں قربانی کی ہی معنی تحریر کئے گئے ہیں۔
جس طرح "فَصَلِّ لِرَبِّکَ” سے نماز عید کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے، اسی طرح #وَانْحَرْ سے قربانی کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ (اعلاء السنن)
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ لَہ سَعَةٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلا یَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا۔
ترجمہ: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد، ج 2، ص 321۔ ابن ماجہ، باب الاضاحی واجبة ھی ام لا؟ حاکم، ج 2، ص 389)
عصر قدیم سے عصر حاضر کے جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے قربانی کی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر سخت وعید کا اعلان کیا ہے، اور اس طرح کی وعید عموماً ترک واجب پر ہی ہوتی ہے۔
3۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنَ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاةِ فَلْیَذْبَحْ شَاة مَکَانَہَا، وَمَنْ کَانَ لَمْ یَذْبَحْ حَتَّی صَلَّیْنَا فَلْیَذْبَحْ عَلَی اِسْمِ اللّٰہِ۔
ترجمہ: جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کرلی تو اسے اس کی جگہ دوسری قربانی کرنی ہوگی، قربانی نماز عید الاضحی کے بعد بسم اللہ پڑھ کر کرنی چاہئے۔ (بخاری، کتاب الاضاحی، باب من ذبح قبل الصلاة اعاد۔ مسلم، کتاب الاضاحی باب وقتہا)
اگر قربانی واجب نہیں ہوتی تو حضور اکرم ﷺنماز عیدالاضحی سے قبل قربانی کرنے کی صورت میں دوسری قربانی کرنے کا حکم نہیں دیتے، باوجودیکہ اُس زمانہ میں عام حضرات کے پاس مال کی فراوانی نہیں تھی۔
4۔ نبی ا کرم ﷺ نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکر فرمایا:
یَا اَیُّہَا النَّاسُ! اِنَّ عَلَی اَہْلِ کُلِّ بَیْتٍ اُضْحِیَةٌ فِیْ کُلِّ عَامٍ۔
ترجمہ: اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر قربانی کرنا ضروری ہے۔ (مسند احمد ج 4 ص 215۔ ابوداوٴد، باب ماجاء فی ایجاب الاضاحی، ترمذی۔ باب الاضاحی واجبة ہی ام لا)
5۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا، اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی، ج 1، ص 182)
مدینہ منورہ کے قیام کے دوران رسول اللہ ﷺ سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا، اس کے برخلاف احادیث صحیحہ میں مذکور ہے کہ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران آپ ﷺ نے ہر سال قربانی کی، جیساکہ مذکورہ حدیث میں وارد ہے۔
6۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ (محلیٰ بالآثار، ج 6، ص 37، کتاب الاضاحی)
معلوم ہوا کہ مقیم پر قربانی واجب ہے۔

#صراحت:
1۔قرآنِ کریم میں قربانی کا ذکر فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(سورۃ الکوثر، آیت نمبر 2) نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے۔
2۔ وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَةِ الْاَنْعَامِ (سورۃ الحج، آیت نمبر 34)
ترجمہ: ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے تاکہ ان چوپایوں (جانوروں) پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔
معلوم ہوا قربانی کا حکم جو اس امت کے لوگوں کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں ، پہلی امتوں کے بھی ذمہ قربانی کی عبادت لگائی گئی تھی۔
"نسک” کے مختلف معنی ہیں، مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے اس سے مراد قربانی لی ہے۔
وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً ہُمْ نَاسِکُوْہُ۔ (سورۃ الحج، آیت نمبر 62)
ترجمہ: ہم نے ہر امت کے لئے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقہ پر ذبح کیا کرتے تھے۔
3۔ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (سورۃ الانعام، آیت نمبر 162)
ترجمہ: آپ فرمادیجئے کہ یقینا میری نماز، میری قربانی اور میرا جینا و مرنا سب خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے۔
4۔ لَن یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآوٴُہَا وَلٰکِن یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔ (سورۃ الحج آیت نمبر 37)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ اُن کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔

وضاحت:
قربانی میں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا ہے، بلکہ جتنے اخلاص اور اللہ سے محبت کے ساتھ قربانی کی جائے گی اتنا ہی اجروثواب اللہ تبارک وتعالیٰ عطا فرمائے گا، اور یہ اصول صرف قربانی کے لئے نہیں بلکہ نماز، روزہ، زکاة و حج یعنی ہر عمل کے لئے ہے، لہذا ہمیں ریا، شہرت اور دکھاوے سے بچ کر خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کیلئے اعمال صالحہ کرنے چاہئیں۔
ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر زمانے اور ہر امت میں اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جانوروں کی قربانی مشروع رہی ہے، اور یہ ایک اہم عبادت ہے اس کی مشروعیت، تاکید، اہمیت اور اس کے اسلامی شعار ہونے پر عصر حاضر کے تمام مکاتب فکر بھی متفق ہیں۔

قربانی کرنےکی فضیلت:
1۔ ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ذی الحجہ کی 10 تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ، سینگوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا۔
نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف ِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے ، لہذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ ( ترمذی، ج 1، ص 180)
2۔حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ صحابہء کرام نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ:
یا رسول اللہ ﷺ یہ قربانیاں کیا ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے!
صحابہء کرام نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ہمارے لئے اس میں کیا اجر و ثواب ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی! (ابن ماجہ، ترمذی، مسند احمد، الترغیب والترھیب)
3۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد، ج 2، ص 321۔ ابن ماجہ، باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم، ج 2، ص 389)
4۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی، ج 1، ص 182)
5۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اے فاطمہ! جاؤ اپنی قربانی پر حاضری دو، کیونکہ اس کے خون سے جونہی پہلا قطرہ گرے گاتمہارے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے، نیز وہ جانور (قیامت کے دن) اپنے خون اور گوشت کے ساتھ لایا جائے گا، اور پھر اسے ستر گنا (بھاری کر کے)تمہارے میزان میں رکھا جائے گا۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا:
یا رسول اللہ! کیا یہ (فضیلت) آل محمد ﷺ کے ساتھ خاص ہے، یا آل محمد ﷺ اور تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے؟
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
یہ فضیلت آل محمد کے لئے تو بطور خاص ہے، اور تمام مسلمانوں کے لئے بھی عام ہے! (یعنی ہر مسلمان کو بھی قربانی کرنے کے بعد یہ فضیلت حاصل ہوگی)
(الترغیب والترہیب)

وضاحت:
قربانی کے فضائل میں متعدد احادیث کتب احادیث میں مذکور ہیں، بعض احادیث کی سند میں ضعف بھی ہے، مگر قربانی کا حکم قرآن کریم واحادیث صحیحہ سے ثابت ہے، جس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، لہذا اصول حدیث کے مطابق فضائل قربانی میں احادیث ضعیفہ معتبر ہوں گی۔

ان مبارک ایام میں خون بہانےکی فضیلت:
1۔حضور اکرم ﷺ بذات خود نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے، نبی اکرم ﷺ کی قربانی کرنے کا ذکر حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں ہے، آپ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور امت مسلمہ کے ان احباب کی طرف سے بھی قربانی کرتے تھے جو قربانی نہیں کرسکتے تھے۔ (بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ ، نسائی، ابوداوٴد ، مسند احمد وغیرہا)
2۔حضور اکرم ﷺ نے حجة الوداع کے موقعہ پر انہیں قربانی کے ایام میں 100 اونٹوں کی قربانی دی، ان میں سے 63 اونٹ نبی اکرم ﷺ نے بذات ِخود نحر (ذبح) کئے، اور باقی 37 اونٹ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے نحر (ذبح) کئے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عید الاضحی کے دن سینگوں والے، دھبے دار، دو خصی مینڈھے ذبح کئے۔ (ابو داوٴد، باب مایستحب من الضحایا)
غرضیکہ ان ایام میں خون بہانا ایک اہم عبادت ہے۔

قربانی نہ کرنےپروعید:
1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ لَہ سَعَةٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلا یَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا۔
ترجمہ: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو، پھر بھی قربانی نہ کرے، تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد، ج 2، ص 321۔ ابن ماجہ، باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم، ج 2، ص 389)
عصر قدیم سے عصر حاضر کے جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

قربانی کاوقت:
دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے بارھویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے، یعنی تین دن اور دو راتیں۔
البتہ رات میں قربانی کرنا مکروہ ہے، شہر میں نماز عید سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں، ہاں دیہات میں صبح صادق سے ہوسکتی ہے۔ ( بہار شریعت وغیرہ )

قربانی کےجانورکی عمر:
بکرا، بکری کم سے کم ایک سال کی ہو، بھیڑ اور دنبہ ایک سال یا پھر چھ ماہ کا دیکھنے میں ایک سال کا معلوم ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے، گائے اور بھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو، ان سب جانوروں کی قربانی کرنا جائز ہے۔ (عام کتب فقہ)
قربانی کےجانورمیں شرکاءکی تعداد:
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ قربانی میں بکرا (بکری مینڈھادنبہ) ایک شخص کی طرف سے ہے۔ (اعلاء السنن ۔ باب ان البدنہ عن سبعة)
2۔ حضر ت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے اور آپ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات (آدمی) شریک ہوجائیں۔ (مسلم ۔ باب جواز الاشتراک)
3۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ کے سال قربانی کی۔اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے سات آدمیوں کی طرف سے ۔ (مسلم، باب جواز الاشتراک فی الہدی)

قربانی کےجانورکاعیب سےپاک ہونا
عیب دار جانور جس کے ایک یا دو سینگ جڑ سے اکھڑ گئے ہوں اندھا جانور، ایسا کانا جانور جس کا کانا پن واضح ہو۔ اس قدر لنگڑا جو چل کر قربان گاہ تک نہ پہنچ سکتا ہو۔ ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو وغیرہ کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔ (عام کتب فقہ)

بھینس کی قربانی کاحکم:
جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ گائے اور اونٹ کی طرح بھینس کی بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ گائے اور اونٹ کی طرح بھینس کی قربانی میں بھی سات حضرات شریک ہوسکتے ہیں۔ (عام کتب فقہ)

خودقربانی کرناافضل ہے:
نبی اکرم ﷺ اپنی قربانی خود کیا کرتے تھے، اس وجہ سے قربانی کرنے والے کا خود ذبح کرنا یا کم از کم قربانی میں ساتھ لگنا بہتر ہے۔ جیساکہ حدیث میں گزرا کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو قربانی پر حاضر رہنے کو فرمایا۔

قربانی کاگوشت اورکھال:
قربانی کے گوشت کو آپ خود بھی کھا سکتے ہیں۔ رشتہ داروں کو بھی کھلا سکتے ہیں، اور غرباء ومساکین کو بھی دے سکتے ہیں۔
علماء کرام نے احادیث کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ اگر گوشت کے تین حصے کرلئے جائیں تو بہتر ہے۔ ایک حصہ اپنے لئے رکھ لیں۔ دوسرا حصہ رشتہ داروں کو دے دیں اور تیسرا حصہ غرباء ومساکین میں تقسیم کردیں۔ لیکن اس طرح تین حصے کرنے واجب یا فرض نہیں ہے۔
قربانی کی کھال بعینہٖ اپنے مصرف لا سکتے ہیں۔مثلاً اس کی مشک ڈول رسی یا جائے نماز وغیرہ بنوالیں، بیچ کر اس کی قیمت اپنے خرچ میں نہیں لاسکتے۔اگر کھال کو بیچ دیا تو اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے، قصائی کی اجرت میں کھال وغیرہ دینا بھی جائز نہیں ہے۔ (عام کتب فقہ)
دور حاضر میں قربانی کی کھالوں کا بہترین مصرف مدارس اسلامیہ ہیں، جو دین اسلام کے مضبوط قلعے ہیں، اور ہم اس طرح دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں حصہ لے سکتے ہیں۔ نیز آپ بخوبی جانتے ہیں کہ سوائے آپ کے تعاون کے انکی بقاء اور مضبوطی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔لہٰذا اپنی قربانی کی کھال مدارس میں دے کر دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں کردار ادا کریں۔

میت کی جانب سے قربانی:
جمہور علماء امت نے تحریر کیا ہے کہ میت کی جانب سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ (عام کتب فقہ)
نبی اکرم ﷺ اپنی طرف سے قربانی کرنے کے علاوہ امت کے افراد کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے، اس قربانی کو آپ ﷺ زندہ افراد کے لئے خاص نہیں کیا کرتے تھے۔
اسی طرح حدیث میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے دو قربانیاں کیں اور فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی اور اسی لئے میں آپ ﷺ کی طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں۔ (ابو داوٴد، ترمذی)

قربانی کرنے والےکے_ لئےمستحب عمل
1۔حضرت ام الموٴمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے، اور تم میں سے جو قربانی کر۷نے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ ( مسلم)
اس حدیث اور دیگر احادیث کی روشنی میں قربانی کرنے والوں کے لئے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔

ایک شبہ کا ازالہ
مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر اور دیگر اسلام دشمن تنظیم کے ابھارنے پر بعض مسلم نما حضرات نے ایک نیا فتنہ شروع کردیا ہے۔وہ یہ کہ جانوروں کے خون بہانے کے بجائے صدقہ وخیرات کرکے لوگوں کی مدد کی جائے۔
آرایس ایس کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ کا بیان آیا ہے کہ مسلمان جانور قربان نہ کریں بلکہ کیک کاٹ کر بقرہ عید منائیں۔۔۔۔ نعوذ باللہ من ذالک
اسمیں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اسلام نے زکوة کے علاوہ صدقہ وخیرات کے ذریعہ غریبوں کی مدد کی بہت زیادہ ترغیب دی ہے۔مگر قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان کارنامے کی یادگار ہے۔ اور قرآن واحادیث سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کے لئے لٹادیا تھا۔ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بلا چوں وچرا حکم الہی کے سامنے سر تسلیم خم کر کے ذبح ہونے کے لئے اپنی گردن پیش کردی تھی، اللہ تعالی نے اپنا فضل فرماکر جنت سے دنبہ بھیج دیا۔
لہذا اِس عظیم الشان کارنامہ پر عمل قربانی کر کے ہی ہو سکتا ہے، محض صدقہ وخیرات سے اِس عمل کی یاد تازہ نہیں ہوسکتی۔
نیز 1400 سال سے زیادہ عرصے پہلے نبی اکرم ﷺ نے اس امر کو واضح کردیا۔
1۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لئے پیسے خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی، دار قطنی)
قربانی کا مقصد محض غریبوں کی مدد کرنا نہیں ہے۔جو صدقہ وخیرات سے پورا ہوجائے بلکہ قربانی میں مقصود جانورکا خون بہانا ہے، یہ عبادت اسی خاص طریقہ سے ادا ہوگی، محض صدقہ وخیرات کرنے سے یہ عبادت ادا نہ ہوگی۔
نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے وقت میں غربت دورحاضر کی نسبت بہت زیادہ تھی، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتی تو نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جانور ذبح کرنے کے بجائے غریبوں کی مدد کرتے مگر تاریخ میں ایسا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا ۔

قربانی سےکیاسبق حاصل کریں؟؟
1۔ جانور کی قربانی کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کو یاد کریں کہ دونوں اللہ کے حکم پر سب سے محبوب چیز کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوگئے، لہذا ہم بھی احکام الہی پر عمل کرنے کے لئے اپنی جان ومال ووقت کی قربانی دیں ۔
2۔ قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے، لہذا ہمیں من چاہی زندگی چھوڑ کر رب چاہی زندگی گزارنی چاہئے۔
3۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں صرف یہی ایک عظیم واقعہ نہیں ہے، بلکہ انہوں نے پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں
گزاری، جو حکم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ملا فوراً اس پر عمل کیا، جان، مال، ماں باپ، وطن اور لخت جگر غرض سب کچھ اللہ کی رضا میں قربان کردیا۔ ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالی کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر ہم خوش وخرم عمل کریں۔اور آخر میں ایک گزارش ہیکہ آپ کا محبوب ادارہ صفتہ العلوم قادریہ مصطفےٰ نگر دھڑہ تحصیل منڈی ضلع پونچھ جو کہ اس دور پرفتن میں بھی اسلام کی صحیح تصویر، اہل سنت و الجماعت کا حقیقی ترجمان ہے۔ جہاں سے نکل کر ہزارہا طلبہ کرام ریاست و بیرون ریاست میں اسلام وسنیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اور دین متین کی تبلیغ و اشاعت میں بہترین کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس چمن اسلام کی آبیاری میں آپ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور عید قرباں کے اس حسین موقع پر چرم قربانی سے اس ادارے کا بھر پور تعاون کریں۔۔۔ ان اللہ لایضیع اجر المحسنین۔ بے شک اللہ نیکوں کا نیگ (اجر و انعام) ضائع نہیں کرتا۔

پیشکش:
حافظ محمد طفیل اشرفی القادری مہتمم مدرسہ صفتہ العلوم قادریہ مصطفےٰ نگر دھڑہ۔
m 8492901708.
[email protected]

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا