’الجھن‘ کی الجھن

0
0

(علیم اسماعیل کی کتاب ’الجھن‘کا جائزہ)

توصیف بریلوی
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
[email protected]

محمد علیم اسماعیل کے افسانچوں اور افسانوں کا مجموعہ ’’الجھن‘‘کے نام سے ۲۰۱۶ء میں منظر عام پر آیا جس میں کل ۵۹ ؍افسانچے اور۱۳؍ مختصر افسانے شامل ہیں۔کتاب کے صفحات ۱۲۸ ؍ہیں اور صفحہ ۳۰ تک کئی دانشوروں کی آرا محمد علیم کی افسانہ اور افسانچہ نگاری کے حوالے سے ہے۔ افسانچوں میں ۵۹؍ افسانچوں میں ۳۰؍ایسے افسانچے ہیں جو Face Book پر پہلے کسی نہ کسی شکل میں پیش نہ کیے گئے ہوں ورنہ بیشتر افسانے فیس بک اور YouTube کے ویڈیوز پر مبنی ہیں۔بہت سے افسانچے گھسے پٹے موضوع اور نصیحتوں کو سموئے ہوئے ہیں۔ جو افسانچے قابل قبول ہیںان کے عنوان ہیں:
شرمندگی، جانور، چور، فری، عبادت، کمیشن، قبولیت، حساب برابر، گنہگار، حلال، اعتماد، گرم خون، ظرف، خاموش دھوکہ، دوغلا پن، محنت، شرط، سوال، حق بات، عورت، آج کا راون، ملال، مقابلہ، کامیابی، یہ کیسے…، دوست، بربادی، عمل اور مسیحائی قابل غور ہیں جن میں نیا پن اور خیال میں کچھ قوت ہے۔باقی افسانچے فیس بک اور یوٹوب سے مستعار لیے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ جنہیں کئی مرتبہ بدلے ہوئے روپ میں دیکھا یا پڑھا جا چکا ہے۔افسانے والے حصے میں۱۳؍ مختصر افسانے ہیں جو نصیحت آمیز اسباق پر مشتمل ہیں۔ سیدھا سادا بیانیہ اور اور ضرورت پڑنے پر مکالمے بھی ہیں۔ بیشتر افسانوں میں کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جو نیا ہو یا کم از کم اس کی پیش کش ہی نئی ہو۔ کوئی تخیلی فضا یا بیانیہ کے ذریعے سے افسانویت میں جان ڈالنے کی کوشش کی گئی ہو ایسا کچھ بھی نہیں ملتا۔ افسانچوں پر مزید گفتگو نہ کرکے صرف مختصر افسانوں پر سرسری نظر ڈالنے کی سعی کی جاتی ہے۔
افسانہ ’’الجھن‘‘ صرف بیانیہ پر مبنی ہے جس میں کچھ ہوتا ہوا معلوم نہیں ہوتا ہے۔ ایک بھائی اپنے چھوٹے بھائی کو جائداد کی وجہ سے مار دینے کے بعد خائف ہے کیوںکہ وہ روز خواب میں اپنے اُس بھائی کو بھیانک شکل میں دیکھتا ہے اور بچاؤ میں کوئی سورہ پڑھنا چاہتا ہے لیکن الجھن میں کچھ پڑھ ہی نہیں پاتا۔
افسانہ ’’انتظار‘‘ میں ایک مدرس کو اپنی ملازمت کو مستقل بنانے کے لیے جو پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہیں اس سے ایک غیر مستقل مدرس کی تکلیف کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی بد نصیبی ہی ہے کہ یہاں اساتذہ کی حالت زار کے متعلق روز اخبارات میں چھپتا ہی رہتا ہے۔مذکورہ افسانے میں ایک ٹیچر کو مستقل ہونے کے لیے اپنی بیوی کے زیور تک بیچنے پڑتے ہیں لیکن پھر بھی کامیابی نہیں ملتی ۔افسانہ ’’انتظار‘‘سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’انہی دنوں اسکول کے چیئر مین نے ایک فرمان جاری کیا جس میں حکم دیا گیا تھا کہ بہت جلد اسکول کا انسپکشن ہونے والا ہے، آنے والی افسران کی ٹیم کی خوب خاطر کرنی ہے ، تاکہ وہ اسکول کو اچھے ریمارکس دیں اور ہمیں جلد گرانٹ ملے۔اس کے لئے ایک ایک ٹیچر کو پچاس پچاس ہزار روپے کا انتظام کرنا ہوگا۔اور سبھی ٹیچرز فکر کی گہرائیوں میں ڈوب گئے۔ رقم کا انتظام کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگے تھے۔کسی نے بیوی کے زیورات فروخت کر دیے تو کسی نے قرض لے لیا، کسی نے زمین بیچی تو کسی نے اپنا گھر گروی رکھ دیا۔ میں نے بھی بیوی کے گہنے بیچ دیے۔ رات دن ایک کر کے ، بھاگتے دوڑتے ، لڑکھڑاتے۔ دل میں امید کا دیا جلائے کہ جلد تنخواہ شروع ہو پیسوں کا انتظام کیا۔‘‘
(محمد علیم اسماعیل، الجھن، نورانی آفسیٹ پریس، مالیگاؤں، ۲۰۱۸ئ، ص:۷۸)
مندرجہ بالا اقتباس سے اسکول کے غیر مستقل اساتذہ کی حالت زار اور ان سے وصولے جانے والی رقوم کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ تعلیم جیسے مقدس کام میں بھی رشوت خوری کا دخل افسوس کا مقام ہے۔
افسانہ ’’خطا‘‘میں آج کے وقت کی محبت کا ذکر کیا گیا ہے جو صرف ضرورتیں پوری ہونے تک باقی رہتی ہے اور جب ضرورتیں بدل جاتی ہیں تو محبت بھی بدل جاتی ہے۔ اس افسانے میں Materialistc سماج میں پنپنے والی ناپائدار محبت کی عکاسی کی گئی ہے جو دور حاضر میں جا بجا دیکھنے کو مل جاتی ہے۔اس میں حیا نامی لڑکی کا کردار بے راہ روی کا شکار نظر آتا ہے۔اس افسانے کو خط کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے جو کہ حقیقت سے قریب معلوم پڑتا ہے۔بیانیہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
افسانہ ’’خوف ارواح‘‘ میں بھوت اور ارواح کے متعلق لکھا ہے۔ظاہر ہے ایسے افسانے میں پیپل کے قدیم درخت کا لایا جانا اشد ضروری ہے سو مصنف نے ایسا کیا بھی ہے۔ سارے گاؤں کے لوگ رات کے بارہ بجے وہاں سے نہیں نکل سکتے ہیں۔ ایسی Setting میں لکھی ہوئی نہ جانے کتنی کہانیاں، ناول اور فلمیں دیکھنے کو مل جائیں گی کہ جن پر Horror Serial اور Horror Movies وافر تعداد میں موجود ہیں۔اس افسانے کو Fantasy سے تعبیر کیا جا سکتا ہے بس مزید کچھ نیا پن نہ کہانی کے اعتبار سے ہے اور نہ ہی پیش کش کے اعتبار سے ۔
افسانہ ’’شوکت پہ زوال‘‘ میں سیات کی غلط پالیسیوں مثلاًDevide & Rule ، Black Money کا بیرون ممالک سے واپس لائے جانے کا جھوٹا وعدہ اور دنگے فساد کرانا جیسی سازشوں سے غریب عوام کی تباہی کا المیہ پیش کیا گیا ہے ساتھ ہی یہ نصیحت بھی کی گئی ہے کہ اپنے ووٹ کی طاقت کو پہچانیں اور اس کا صحیح استعمال کریں۔موجودہ حکومت پر طنز کیا گیا ہے ۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’اس کے بعد امید وار نے ایسا بھڑکاؤ بیان دیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے جلسے کا ماحول خراب ہو گیا ۔ بھگدڑ مچ گئی اور لاٹھیاں چلنے لگیں۔ جو لوگ ایک دوسرے کے ہر کام میں شانہ بشانہ ہوتے تھے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ پورا علاقہ نذر آتش کر دیا گیا۔انسانیت حیوانیت میں تبدیل ہو گئی میدان میں ہر طرف خون میں لت پت لاشیں پڑی تھیں۔ جب سب کچھ ختم ہو گیا تب پولس آئی اور گرفتاریاں ہونے لگیں۔ شک کی بنیاد پر بے گناہوں کو ستایا جانے لگا ۔ فیاض کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسے دہشت گرد قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ شر پسند عناصر کے دباؤ میں پولس تو ایک طرف عدلیہ بھی بے اثر ہو چکی تھی۔ تلاشی مہم جاری تھی ۔لاشوں کے انبار میں خون میں لت پت فیض کی لاش پڑی تھی۔ اس کے ہاتھ کی مٹھی بند تھی، بند مٹھی کھولی گئی۔ اس میں ایک کاغذ کا ٹکڑا نکلا جس میں لکھا تھا۔۔۔۔ابا کی دوائی، منے کا کھلونا، گڑیا کا بستہ، ماں کی چپل، کھانے کا تیل اور سبزی لانا ہے۔‘‘
(ایضاً، ص:۹۷)
محولہ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سیدھے سادے غریب اور مزدور عوام نیتاؤں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ جاتی ہے اور بعض اوقات اس کا خامیازہ جان دے کر چکانا پڑتا ہے۔ نیتا تو دنگے فساد کرا کر اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ عوام کے ہاتھ کیا آتا ہے۔ افسانہ ’’شوکت پہ زوال‘‘دور حاضر کے سیاسی منظر نامے کو پیش کرتا ہے۔
افسانہ ’’قربان‘‘میں ہمارے معاشرے کی ایک برائی یعنی لڑکی اور لڑکا دونوں کو برابر نہ سمجھنا کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ افسانے کا یہ موضوع بھی نیا نہیں البتہ اس پر مزید بہت کچھ لکھے جانے کی ضرورت ہے۔ موصوف نے افسانہ ’’قربان‘‘میں ناہمواری کی بھینٹ چڑھتی ہوئی ایک لڑکی کی کہانی پیش کی ہے۔ہمارے ملک میںWomen Empowerment پر لمبی لمبی بحثیں ہوتی ہیں لیکن عورتوں اور لڑکیوں کو ان کے بنیادی حقوق بھی نہیں مل پاتے ہیں۔
افسانہ ’’تاک جھانک‘‘ میں غریب بچوں کی مجبوریاں اور پڑھائی کے لیے سہولیات کا مہیا نہ ہو پانا، حکومت اور اس کے منتریوں کو دھوکا دینے کے لیے بچوں کے بستوں کا کرائے پر لایا جانا Corruption کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔
افسانہ ’’خیالی دنیا‘‘ میں فیس بک کی جھوٹی دنیا سے باہر آنے کے لیے نصیحت کی گئی ہے لیکن اس میں کئی باتیں ایسی ہیں جو فیس بک ہی سے لی گی ہیں جس سے مصنف کو بچنا چاہئے کیوں کہ اس سے تخلیقیت مجروح ہوتی ہے۔
افسانہ ’’مٹھّا‘‘ میں ایک اسکول کا استاد اپنے طلبا سے بہت پریشان رہتا ہے۔وہ انھیں پڑھانے کی نہ تو خود کوئی کوشش کرتا ہے اور نہ ہی بچے پڑھنا چاہتے ہیں۔ایک دن جب وہ Drip Irrigation تکنیک سے فصل میں پانی لگتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس سے وہ کافی متاثر ہوتا ہے اور اپنے طلبا کو آئندہ بہت دھیان سے اور دل لگا کر پڑھانے کا عہد کرتا ہے۔
افسانہ ’’اشک پشیمانی کے‘‘ نیکی اور اس کے بدل پر مبنی ہے۔
افسانہ ’’وفا‘‘میں جو کہا نی پیش کی گئی ہے وہ Old Age Home پر مبنی ہے اور Social Media پر جا بجا مل جائے گی بلکہ یو ٹیوب پر ویڈیوز بھی مل جائیں گے۔اس افسانے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس لڑکے کے دوست کا باپ اسے فوٹو البم میں دکھاتا ہے یا موبائل میں ؟ ویسے بس میں البم کا بھی تُک نہیں اور اگر موبائل میں دکھاتا ہے تو اور بھی حیرت کی بات ہے کیوں کہ کئی سال پہلے کا فوٹو اس کے موبائل فون میں کیوں کر ہو سکتا ہے؟ جب کہ اس زمانے میں موبائل کا ہونا ہی مشکل تھا۔ان سوالوں کے جواب قاری کو نہیں مل پاتے ہیں۔
افسانہ ’’پریشانی‘‘ میں ایک ایسی لڑکی کی کہانی پیش کی گئی ہے جو اپنا پیر گنوا چکی ہے۔ اس کی شادی کے لیے کوئی رشتہ نہ ملنے پر تنگ آکر اس کے گھر والے ہی اسے جلا کر مار دیتے ہیں۔یہ کہانی بھی بڑی سطحی ہے کیوں کہ ایسی خبریں اخبارات میں اکثر دیکھنے کو مل جاتی ہیں مزید یہ کہ ایسے موضوعات اور پلاٹ پر بیشتر فلمز، ٹی وی سیریلز بھی بنائے جا چکے ہیں۔
افسانہ ’’کرب‘‘ میں بھی وہی گھریلو زیادتیاں ایک بوڑھی عورت پر روا رکھی جاتی ہیں۔آگے چل کر اس کے بہو بیٹے اس سے نہایت بیزار ہو جاتے ہیں۔وہی گھسا پٹا مضمون ہے۔حال ہی میں ایسا واقعہ دیکھنے میں آیا تھا کہ ایک آدمی نے اپنی بوڑھی ماں کو چپل سے مارا اور اسے سڑک پر گھسیٹتا ہوا دور کہیں پھینک آیا ۔یہ وہ مضامین ہیں جن میں کوئی نیا پن نہیں ہے۔
’الجھن‘کے افسانچوں اور افسانوں میں سے جتنے بھی Social Sites یا YouTube سے متاثر نظر آتے ہیں ان کے علاوہ جو بھی افسانچے اور افسانچے ہیں وہ کسی حد تک قابل قبول ہیں البتہ کچھ نئی بات ان میں بھی نظر نہیں آتی اور وہی پرانے موضوعات پر ان کا دار و مدار ہے ہاں کچھ موضوع عصری حسیت کے ساتھ افسانوں میں پیش کیے گئے ہیں۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ نئے مسائل کہاں سے لائے جائیں کہ ہر افسانہ نیا لگے کیوں کہ زندگی مصائب اور مسائل کم و بیش یکساں ہوتے ہیں ہیں۔ کسی کو پیسے کی تنگی، رشتوں کی ناپائے داری، سیاست، قتل و غارت گری ، بے روز گاری جیسے مسائل سے ہر عام انسان جوجھ رہا ہے تو ایسے میں کچھ نیا کہاں سے لایا جائے ؟ مسائل اور موضوعات تو وہی رہیں گے البتہ تھیم اور پیش کش بدلتی ہے اور محمد علیم اسماعیل کو اس پر مزید غور کرنا چاہئے۔امید ہے آئندہ ان کے افسانے نئی تھیم اور خیال و فکر کی گہرائیوں کے ساتھ نظر آئیں گے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا