حساس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت زیادہ حساس ہونا بھی کسی مصیبت سے کم نہیں ہوتا۔ اس بے حس دنیا میں حساس ہونا ایک ذہنی بیماری ہے ،جبکہ مذہب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو حساس ہونا انسانی ہمدردی کے جذبات ہونا ضروری ہوتا ہے ،لیکن اس عہد میں جہاں ہر طرف افرا تفری کا عالم ہو ، دہشت گردی کے گہرے سائے ہر طرف منڈلا رہے ہوں، انسانی خون پانی کی طرح بہہ رہا ہو ۔ایسے میں کسی شخص کا بہت زیادہ حساس ہونا اسے پاگل بنا سکتا ہے یا لوگ اسے پاگل بنا دئیں،لیکن یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ ہر شاعر،ادیب یا کوئی فنکار جتنا حساس ہوگا اتنا ہی اس کے فن میں جان پیدا ہوگی ۔
جاوید تو ویسے بھی ایک اچھا شاعر اور ادیب تھا ۔ کسی بھی فنکار کا حساس ہونا ایک فطری عمل ہوتا ہے ۔ جاوید کا دل ہمدردی اور انسانیت کے جذبات سے سرشار تھا ۔ اسے ذرا ذرا سی بات پر غصہ بھی آتا تھا اور کسی کی تکلیف پر رونابھی ۔
اس کی بیوی زویا اسے بہت سمجھاتی کہ دنیا میں بے شمار لوگ روز پیدا ہوتے ہیں اور روز مرتے ہیں ۔ ہمیں اس سے کیا لینا دینا ۔ تم کس کس کی ہمدردی کروگے ۔ کیا دنیا سے corruptionمٹ سکتا ہے ؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر گز نہیں !!! دنیا پیغمبروں اور ائوتاروں سے نہیں سدھری پھر تم سے کیسے سدھریگی ۔ اس لئے سب بھول جائو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لو میں تمہارے لئے آج بہترین کافی بنا کر لائی ہوں ۔ ذویا نے پیار سے جاوید کے ہاتھ میں کافی کا کپ تھما دیا ۔
کافی پینے کے بعد تھوڑا تازہ دم ہوا تو اس نے ذویا کا ہاتھ پکڑ کر کہا ،ـ’’ زویا اگر ہم کسی کے ساتھ ہمدردی نہ کر سکیں یا کسی کے غم نہ بانٹ سکیں ،کسی کے دکھ درد اور تکلیف میں کام نہ آ سکیں تو پھر انسان ہونے کا کیا مطلب ؟اورپھر میں تو ایک شاعر ہوں ۔ رشید احمد صدیقی نے کہا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ جو اچھا انسان نہیں ہو سکتا ، وہ اچھا شاعر بھی نہیں ہو سکتا‘‘۔
زویا نے کہا ،’’ میں آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتی ، نہ آپ سے بحث کرنے سے کوئی فائدہ اس لئے کہ آپ کرتے وہ ہی ہیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں ۔ میرا بحث کرنا اور آپ کو سمجھانا فضول ہے ۔‘‘
جاوید نے زویا کی ناراضگی دور کرتے ہوئے کہا ،’’ ارے تم تو خفا ہو گئیں ‘‘۔
ابھی وہ دونوں گفتگو کر ہی رہے تھے کہ جاوید کا ایک دوست دانش آ گیا اور اس نے آتے ہی اپنی دکھ بھری داستان سنانا شروع کر دیا کہ میری بیوی بہت بیمار ہے ۔ مجھے پانچ ہزار روپئے کی بہت سخت ضرورت ہے ۔ میں بڑی امید لے کر تمہارے پاس آیا ہوں ۔ میں دو ایک مہینے میں لوٹا دوںگا ۔
جاوید نے زویا کو آواز دی اور کہا ،’’ ذویا! وہ پانچ ہازر روپئے جو میں نے تمہیں بچے کی فیس کے لئے دیے تھے وہ دینا ذرا ‘‘۔
زویا جانتی تھی کہ میں نے انکار کر دیا تو وہ پھر لڑنے تیار ہو جائیںگے ۔ ٍٍ
ٍاس لئے کہ وہ اکثر اپنی ضرورتوں کو چھوڑ کر دوسروں کی ضرورتوں کو پرا کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔انہوں نے کبھی اپنے نقصان کی پرواہ نہیں کی ۔ گھر میں کچھ نہ ہو ،لیکن انہوں نے کبھی اپنے دوست یا کسی غریب کو اپنے گھر سے خالی نہیں لوٹایا ۔
دانش کے جانے کے بعد میں نے جاوید کو پھر سمجھانے کی کوشش کی کہ مجھے آپ کا یہ دوست دانش کوئی ضرورتمند دکھائی نہیں دیتا ۔ کم از کم یہ تو دیکھ لیا کرو کہ واقعی وہ ضرورتمند ہے !!! میں یہ نہیں کہتی کہ آپ کسی سے ہمدردی نہ کریں ،کسی کے کام نہ آئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ضرور کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خدا کا حکم بھی ہے اور انسانی تقاضا بھی ۔ جاوید نے کہا کہ مجھے معلوم ہے ،لیکن بقول کسی شاعر کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون کس کو فریب دیتا ہے ، کس کے چہرے پے نام لکھا ہے
اور واقعی دوسرے دن اس نے دانش کو ایک جوئے خانے میں تاش کھیلتے ہوئے اور شراب پیتے ہوئے دیکھا تو اسے اپنے آپ پر بہت غصہ آیا اور اب جاوید زویا کی ہر بات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
استوتی اگروال،اگروال جیولرز،سرونج(مدھیہ پردیش)
stuti agrawal,agrawal jewellers sironj mp(464228)
mn-9575089694