عدل و انصاف کا پیکر

0
0

حضرت عمر فاروق اعظم

 

خان عرشیہ شکیل
نالاسوپارہ

22 لاکھ 51ہزار 30 مربع میل پر اسلام کا پرچم لہرانے والے والے حضرت عمررضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اپنے لقب فاروق کی تفسیر تھے ۔ آپ نے حجازسے فارس اور اندلس سے روم تک حق و انصاف کی نادر مثال قائم کی۔ دنیا کے حکمرانوں کو ایک اہم پیغام دیا کہ ہر فرد کی جان، مال ،عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے آپ نے سلطنت کے انتظام کو اچھی طرح چلانے کیلئے اسے صوبوں میں تقسیم کیا ہر صوبے میں عہدے دار مقرر کیے ۔
آپ عہدیداروں کو نصیحت فرماتے کہ تم لوگوں کے امام ہو لہذا ان کے حقوق ادا کرنا تمہاری ذمہ داری ہے ۔ بےجا کمزور کو نہ ستایا جاۓ ۔ کسی کی حق تلفی نہ ہو کسی کے ساتھ بے انصافی نہ ہو ۔آپ نے گورنروں کو تاکید کی کہ حاجت مندوں کے لیے ہر وقت دروازہ کھلا رکھے ۔ پولیس افسران کو ہدایت کی تھی کہ امن و امان قائم کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی دیکھ بھال بھی کرتے رہے مثلاً دکاندار ناپ تول میں کمی نہ کرنے پائے دیکھا جاۓ کوئی شخص عام راستے پر مکان تو نہیں بنا رہا ہے ۔جانوروں پر زیادہ بوجھ تو نہیں لا دا جا رہا ہے ۔ شراب علانیہ تو نہیں بک رہی ہے اس قسم کے بہت سے کاموں کی نگرانی کی جائے جن کا تعلق عوام سے ہو اورجو شریعت کے حکم کی نافرمانی میں آتا ہو۔

حکومتی نظام کو عدل و انصاف پر قائم کرنے کے لئے آپ نے عدالتی نظام قائم کیے ۔
ججز کو اختیار حاصل تھے کہ قرآن و سنت کے مطابق فیصلے صادر کرے۔
آپ نے حاکم و محکوم سلطان و رعایا میں کوئی فرق نہ رکھا ۔خود کو احتساب کے دائرے سے فروتر نہیں سمجھتے تھے ۔
ایک مرتبہ آپ اور ابی بن کعب کے درمیان اختلاف پیدا ہوگئے گئے اور یہ معاملہ قاضی زید بن ثابت کے روبرو پیش کیا گیا۔ جب معاملے کی کارروائی شروع ہوئی تو امیرالمومنین کا لحاظ کرتے ہوئے قاضی نے آپ کا خصوصی ادب و احترام کرنا چاہا ۔ آپ نے روک دیا اور فرمایا یہ تمہاری پہلی ناانصافی ہے یہ کہہ کر ابی بن کعب کے برابر بیٹھ گئے ۔
مدعی نے گواہ طلب کیے۔ آپ کا کوئی گواہ موجود نہ تھا لہذا آپ کو مدعی علیہ کے طور پر قسم کھانی تھی قاضی نے سفارش کی کہ امیر المومنین کو قسم کھانے سے معاف کر دیا جائے ۔آپ ناراض ہوگئے فرمایا یہ تمہارا دوسرا ظلم ہے پھر معاہدے کے مطابق قسم کھائی اور فرمایا "اے یزید انصاف کرتے وقت جب تک امیر اور فقیر اور ایک عام آدمی تمہارے نزدیک برابر نہ ہو تم قاضی کے عہدےا کے قابل نہیں سمجھے جاسکتے ۔” قانون کی بالادستی کی ایک نادر مثال آپ نے قائم کی ۔
آپ کے بیٹے ابوشحمہ شراب پینے کے جرم میں پکڑے گئے تو ان کو قاتون کے مطابق کوڑے مارے گئے اور وہ مار کی تاب نہ لاکر چند دنوں میں انتقال کر گئے۔
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ اللہنے خطبہ جمعہ میں لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا "میں چاہتا ہوں کہ مہر کی زیادہ سے زیادہ رقم متعین کر دوں تاکہ کوئی شخص اس سے زیادہ مہر نہ باندھ سکے ۔ایک بوڑھی خاتون کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی امیرالمومنین یہ حق آپ کو کس نے دیا ہے جبکہ قرآن مجید میں زیادہ سے زیادہ مہر کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔ آپ نے اعتراض کو قبول کیا اور فرمایا ایک عورت بھی عمر سے زیادہ جانتی ہے ۔ ایسی ہزاروں مثالیں ہیں جو آپ کے عدل و انصاف مساوات اور اظہار رائے کی آزادی کی منہ بولتی تصاویر پیش کرتی ہے ۔
آپ حاکموں کو دیانت داری کے ساتھ فیصلوں کے لئے ہمیشہ نصیحت کرتے تھے ۔
اس سلسلے کی ایک کڑی آپ کا خط جو بصرہ کے حاکم صحابی حضرت ابو موسی اشعری کو لکھا تھا جو بڑی قیمتی نصیحتوں سے بھرا تھا۔ خط کا خلاصہ یہ ہے مقدموں کا فیصلہ کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ لہذا جب بھی مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہو تو اس کی ایک ایک بات پر غور کرو اورسوچو تب فیصلہ کرو ۔ فیصلہ دینے کے بعد اس کے مطابق عمل بھی ضروری ہے ۔ مدعی اور مدعی علیہ دونوں کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کرو۔ دعویٰ کرنے والےسے گواہ مانگے جائے اور جو دعوی نہ مانےا اس سے قسم لی جائے مسلمانوں میں صلح کرادینا بہت اچھا ہے جو شخص دعویٰ ثابت کرنے کے لیے مہلت مانگے اسے مہلت دی جائے۔ اگر گواہ پیش کر دیےجائے تو ان کی گواہی کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرو اور اگر وہ گواہ نہ پیش کر سکے تو مقدمہ خارج کر دو۔
ہر مسلمان کو بات کا سچا سمجھو سواۓ اس کےجو کسی معاملے میں سزا یافتہ ہو یا اس نے جھوٹی گواہی دی ہو۔
مدعی اور مدعا علیہ کی طرف سے تمھارے دل میں ناراضگی ، اکتاہٹ ، چڑچڑاپن بالکل پیدا نہ ہونا چاہیے کیونکہ حق اور انصاف پر قائم رہنے والا اللہ کے انعامات اور اچھی شہرت کا حقدار ہوتا ہے۔ جس نے اپنی نیت درست رکھی اس کے اور لوگوں کے درمیان اللہ کافی ہے۔
آپ بہت نیک اور انصاف پسند رہنما تھے۔آپ کا انتظام سلطنت حمکرانوں کے لۓ مشعل راہ ہے۔اللہ آپ سے راضی ہو۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا