یوپی میں دہشت گردی اور اس کے اسباب

0
0

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

کسی بھی ملک یا ریاست میں قیام امن اور خوشحالی وسلامتی کا مدار عوام کے ساتھ مساوات اور انصاف پر ہے’، اور انصاف اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ ریاستوں کے نگہبانوں کے اذہان ان کے افکار ونظریات تعصب وفرقہ پرستی کے جراثیم سے پاک نہ ہوں،
ریاست کی حاکمیت چند نظریات یا مخصوص ازم کی ترجمان یا محافظ نہیں ہوتی ہے بلکہ زیر حکومت تمام رعایا کے جان ومال کی وہ ذمہ دار ہوتی ہے’، لیکن جاہ وحشم کا نشہ اس قدر تیز ہوتا ہے’کہ قصر اقتدار پر تسلط کے بعد قانونی ضوابط کے ساتھ ساتھ سماجی اقدار وروایات بھی اکثر یاد نہیں رہتے ہیں،
یوپی حکومت ایک منتخب حکومت ہے’مگر اس کے باوجود آمریت کا وہ زور اور ڈکٹیٹر شپ کا وہ بدترین نمونہ کہ کسی کو حکومت کی پالیسیوں پر اپنی رائے پیش کرنے کا حق بھی وہ دینے کو تیار نہیں، ایک جمہوری ملک میں ہرشخص جانتا ہے’کہ عوام اگر محسوس کرتی ہے’کہ اس کی حق تلفی ہورہی ہے، یا اس کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا جارہا ہے’،یا ملک کی سالمیت پر حکمران وقت کے فیصلوں سے آنچ آرہی ہے’تو اسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ پرامن طریقے سے اپنی بات رکھ سکے، اپنے مطالبے کے لئے آواز اٹھائے، ایوان حکومت تک اپنی صداؤں کو پہونچانے کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کرے،

چند ماہ پہلے ملک کے اعلی اقتدار کی طرف سے ایک سیاہ قانون جو مذہب کی تفریق کا مظہر تھا اور مذہبی تفریق کی بنیاد پر اسے بنایا گیا تھا، اور سی اے اے کے نام سے اسے راجیہ سبھا میں اکثریت کی بنیاد پر پاس بھی کرالیا گیا،
یہ ایک خطرناک قانون تھا جس کے تحت بھارت کے مسلمانوں کی بھی شہریت خطرے میں تھی، اور ملک کے ان تمام ہندو برادران وطن کی بھی جو ذات کے لحاظ سے پسماندہ تھے،
معاشی اور تعلیمی لحاظ سے پست تھے، اس قانون کے خلاف
پورے ملک میں آواز اٹھی، اسلامیان ہند کے علاوہ ملک کے تمام انصاف پسند سکھ کرسچن اور ہندو برادری سڑکوں پر آگئی، پورا ملک احتجاجی مظاہروں سے لرز اٹھا جس کی ایک طویل تاریخی داستان ہے’،

جمہوریت کا تقاضا تھا کہ ان لاکھوں افراد کی بات سنی جاتی اور جمہوریت کو مستحکم کیا جاتا مگر مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ یوپی کی حکومت نے طاقت کے نشے میں ملک وحکومت کی تمام روایات و اقدار اور جمہوری نظام کو توڑ کر طاقت کا انتہائی جابرانہ انداز میں استعمال کیا، مظاہرین کی بڑی تعداد مسلم عوام اور اسٹوڈنٹس کی تھی ، اور یہی مسلمانیت سنگین جرم قرار پائی، حکومت نے
اس مظاہرے کی آڑ میں مسلمانوں پر ظلم وبربریت اور دہشت وسفاکیت کی داستان رقم کرکے عصبیت کا بدترین ثبوت پیش کیا تھا، اور مسلمانوں کے ساتھ علی الاعلان نفرت وتعصب کا ہر محاذ پر مظاہرہ کیا تھا،

عصبیت کی یہ خاصیت ہے کہ انسان کی پوری نظر مخالفین کی نقل وحرکت پر مرکوز ہوجاتی ہے، نسل پرستی اور انا پرستی کا اثر یہ ہوتا ہے’کہ انسانی صلاحیت زندگی کے تمام اجتماعی میدانوں سے ہٹ کر انتقام وعداوت کی لہروں میں گم ہوجاتی ہے، اس حکومت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، اس کی نظریں صرف ایک خاص طبقے اور کمیونٹی پر مرکوز ہیں، ریاست میں ان کا دعویٰ ہے’ کہ مجرموں کو ہم ٹھوک دیں گے،، لیکن اس کی آڑ میں اب تک ان کی زیادہ تر توجہ انہیں لوگوں پر رہی ہے’جن کا تعلق مسلمانوں سے ہے’کہ مظاہروں میں شرکت کرنے والے عام افراد بھی جیل کی سلاخوں میں بند کردئیے گئے، گیؤ کشی
کا مرتکب سنگین مجرم ٹھہرا، کرونا وائرس کے انتشار کا سارا ذمہ دار بھی اسی کمیونٹی کا فرد شمار کیا گیا، اور غیر اختیاری اس وبا میں مبتلا ہو نا بھی جرم گردانا گیا، غرض اب تک قیادت کی ساری توجہ،تمام ایکٹیویٹیز،اور تمام صلاحیتیں مسلمانوں کے تنقیدی جائزے ، ان کی وسیع اور متجسسانہ نگرانی،اورانھیں کی مذہبی،سماجی ،اقتصادی حالتوں کے ارد گرد گردش کرتی رہیں، اور جو اہم حکومتی اور سیاسی فرائض تھے مثلأ
ریاست میں عوام کی بنیادی ضروریات،سماجی ومعاشرتی مسائل،اور کرپشن،بدعنوانیت، راہ زنی و جرائم ،قتل وخوں ریزی، غربت،وپسماندگی ،بیروزگاری و مہنگائی، علاج ومعالجہ اور تعلیمی بحران کی وجہ سے ہر سو پھیلی ہوئی بے چینی واضطراب
کی طرف فرقہ وارانہ ذہن نے توجہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اور عصبیت ونفرت کے ماحول اور فرقہ وارانہ نظریات کے حصار میں جینے والوں کے یہاں اس کی گنجائش بھی نہیں ہوتی ہے’، نتیجہ میں ریاست ہر میدان میں تنزل اور پسماندگی کا شکار اور قتل وغارت کی آماجگاہ بن چکا ہے’۔

3/جولائی کو کانپور میں ہونے والا سانحہ درحقیقت اسی نظریہ اور عمل کا شاخسانہ ہے، اور اسی تعصب کا نتیجہ ہے’جس کا اوپر ذکر ہوا ہے’، ملک میں اس نوعیت کی اس سنگین وارادت ماضی قریب میں دیکھنے میں نہیں آئی، کانپور کے ایک کرمنل اور متعدد قتل ودیگر جرائم کے مجرم وکاس دوبے کو قتل کے جرم کی پاداش میں گرفتار کرنے کے لئے پولیس کی ٹیم اس کے گھر آتی ہے’،اسے اس کی خبر ہوجاتی ہے’بجائے اس کے کہ وہ قانون کے ہاتھوں سے فرار ہوتا،قانون کے رکھوالوں پر منظم طریقے سے بغاوت کے انداز میں ان پر حملہ آور ہوجاتا ہے، پہلے سے پلاننگ کے تحت اپنے ساتھیوں کے ساتھ اے کے 47رائفل سے آٹھ محافظوں کو لمحوں میں شہید کردیتا ھے جس میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس بلہور،دیویندر کمال مشرا، شیوراج پور تھانہ انچارج کے مہیش یادو،ماندھنا چوکی کے انچارج انوپ کمار،شیوراچ پور پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر نیبو لال،چوبے پور تھانہ کانسٹیبل سلطان سنگھ،مہورتھانہ کے کانسٹیبل راہل،جیتیندراورببلو،شامل ہیں،اس کے علاوہ سات پولیس اہلکار شدید زخمی ہیں جس میں سے دو کی آج موت ہوگئی ہے، اس منظم اور دہشت گردانہ حملوں سے ملک لرز اٹھا، ہر طرف دہشت پھیل گئی، ایک متشدد اور متعصب فرمانروا کے ان سارے دعوؤں کی قلعی اس واردات نے کھول دی ہے’، اور یہ ثابت کردیا ہے’ریاست قانون وانصاف اور عوام کے ساتھ خود محافظین کے تحفظ میں یکسر ناکام ہے’،پرینکاگاندھی کے بیان کے مطابق صرف ایک ہفتے کے اندر اس ریاست میں 60/قتل کی وارداتیں ہوئی ہیں، یوپی غنڈہ گرد ی اور غنڈوں کی حکمرانی کے اعتبار سے ملک کی ریاستوں میں سرفہرست ہے’، اس کی بنیادی وجہ وہی مذہبی انتہا پسندی
اور جمہوریت و مساوات اور قانون وسیکولر ازم کی پامالی اور ایک مخصوص قوم کے ساتھ امتیازی سلوک اور متعصبانہ رویہ ہے’،اسی نظرے اور سوچ نے اس عادی مجرم جس کے اوپر ساٹھ سے زیادہ کرائم اؤر قتل کے کیس تھے،ہر موڑ پر بڑھاوا اور
حوصلہ افزائی کرکے قانون کے مقابلے میں کھڑا کیا تھا،
صاف بات ہے کہ اگر یہ دوسری کسی اقلیتوں کا فرد ہوتا تو
دوسری سیاسی جماعتوں کے علاوہ خود موجودہ وزیر اعلیٰ کے ساتھ اس کی تصویریں نہ ہوتیں، جو ان سے تعلقات اور روابط کی چغلی کھا رہی ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ اس قدر خطرناک اور باغیانہ حملوں کے باوجود میڈیا نے آٹھ آٹھ گھنٹے تک اس پر کسی قسم کی خبر نشر کرنا ضروری نہیں سمجھا،شوشل میڈیا کے ذریعے جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں یہ خبر پھیل گئی مگر بھارت کے وفادار اور نام نہاد جمہوری چینلوں میں عام اخبار کی ہی کی طرح اسے بھی جگہ دی گئی، اس روئیے سے اس ملک میں جرنل ازم کی حالت اور ان کے متعصبانہ کردار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،یہ بالکل کھلی بات ہے’کہ اگر وکاس کی جگہ کوئی مسلم نام ہوتا تو یہی میڈیا کے جیالے اور اینکروں کی ٹیم ان تمام حملہ آوروں کو پہلی ہی فرصت میں دہشت گرد اور آتنگ واد ثابت کردیتی، اور پورے ملک میں جہاں جہاں بھی ان کے روابط ہوتے سب کو پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیا جاتا۔

ملک کے اہم عہدہ دار وں کے حامل پولیس اہلکاروں کے وحشیانہ قتل کی یہ واردات ملک کی سالمیت اور اس کے استحکام کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے’، یہ کھلی ہوئی دہشت گردی ہے’ اور باغیانہ حملہ ہے’ جس نے پورے ملک کو جہاں شرمسار کیا ہے’ ہیں یوپی کی اس مضبوط حکومت جس میں تمام مجرموں کو ٹھوک دینے کے دعوے کئے گئے تھے اس کی قلعی بھی کھول دی ہے’، اور ان سفاک عناصر کی طاقتوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے حکومت کے متوازی جس کی حکمرانی ہر سو قائم ہے’، ملک کے امن وامان اور اس کی خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے کہ حاکم وقت انصاف سے کام لے، اپنے مزاج کو سیکولر ازم کے مطابق کرکے سماج کی بنیادی ضروریات کی طرف توجہ کرے ، تعصب نفرت کے حصار سے نکل کر پورے معاشرے کے ساتھ مساوات وبرابری کا سلوک کرے، اس کے بغیر نہ جرائم رک سکتے ہیں، نہ امن کا قیام ہو سکتا ہے ، نہ پسماندگی دور ہوسکتی ہے’نہ ہی خوشحالی کا سورج طلوع ہوسکتا ہے۔

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
مسجد انوار گوونڈی ممبئی 8767438283

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا