تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
طالب علم
بارہمولہ کشمیر
6005465614
گھر میں جب بیٹیاں نہیں ہوں گی
پیڑ پر ٹہنیاں نہیں ہوں گی
ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات کے لئے رحمت بنا کر بیجھے گئے تھے اور اپنی پوری حیات مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام رحمت کو عام کیا اور اس رحمت کا ایک خاص پہلو امت کی بیٹیوں کے لئے خاص کردیا لیکن عصر حاضر کے مرد بالخصوص عورتج ذات کو اپنے جوتے کی نوک تصور کرتے ہیں لیکن یہ بات بتادوں کہ ایسے مرد اسلام کے اوپر ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں ,اپنی بزدلی کو بہادری کا نام دے کر اپنی عورتوں کو مارنا اور پیٹنا درندگی کی اتنہا ہے اور یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ایسے مرد حقیقتاً نمرد ہی ہوتے ہیں کیونکہ جو ہستی تمہارے وجود کی بنیاد ہے تم اسی کو اپنا نوکر تصور کرتے ہو.آج کے اس علمی دور میں ایسے جاہلوں کی کوئی جگہ نہیں لیکن یہاں تو پورا جسم ہی زخمی ہے ,کس کس زخم کا علاج کیا جائے ,خود کو ڈگریوں کے علمبردار کہلانے والے اس حیوانیت کے بانی بن چکے ہیں,اپنی کمزوری کو غیرت کا نام دے کر اپنی صلاحیت کو عورتوں کے خلاف استعمال کرنے والو یاد رکھنا تم میرے نبی کی وصیت کے باغی اور منکر ہو.
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق اعلی ہوں اور جس کا برتاؤ اپنے گھروالوں کے ساتھ سب سے زیادہ نرم ہو”(جامع ترمذی) یہ ہیں نبوی تعلیمات لیکن میں ایسے معاشرے کا حصہ ہوں کہ بعض افراد جو خود کو مختلف مسالک اور مذہبوں سے وابستہ کرتے ہیں بھی ان جرائم میں مبتلا ہے .دینی و سماجی نقطئہ نظر سے یہ فعل قابل سزا ہے .خامیاں اور کوتاہیاں کس میں نہیں ہوتی؟ لیکن یہاں مرد حضرات اپنی غلطیوں پر وکیل اور عورتوں کی کوتاہیوں پر جج اور قاضی بن جاتے ہیں لیکن میں اپنی بہنوں تک یہ بات پہنچانا چاہتا ہوں کہ اسلام نے آپکو ملکہ کا عہدہ بخشا ہے,آپ ہی اس حیات کی بنیاد کو ,آپکی وجہ سے ہی یہ کائنات چمک رہی ہے,اپنے حقوق ضایع نہ ہونے دیں .اسلام میں تشدد اور گھریلو مارپیٹ کی کوئی جگہ نہیں جہاں آج علماء آپ کےسائل حل کرسکتے ہیں تو وہی قانوں بھی آج آپ کے حق میں ہے لہذا خود کو کمزور نہ سمجھیں.آپ کو رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جگر کا حصہ قرار دیا ہے.فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "اللہ تعالی جن گھروالوں کو نرمی کی توفیق دیتا ہے انہیں نرمی کے ذریعہ بہت نفع پہنچاتا ہے اور جن گھروالوں کو نرمی سے محروم رکھتا ہے انہیں خسارے کے حوالے کردیتا ہے”.(سنن بیہقی)
دعا کو ہات اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
بعض دیوث اور بے غیرت اولاد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی آگ کو بجانے کے لئے اپنی ماں تک کو پیٹتے ہیں ,کچھ نااہل اولاد ایسے بھی دیکھے گئے جو اپنی ناپاک اور غلیظ زبان کو اپنے ہی والدین اور بالخصوص ماں کے خلاف استعمال کرتے ہیں.ایسی زبانیں کیڑوں کے لائق ہیں جو اس عارضی رب یعنی والدین کے خلاف استعمال ہوتی ہیں.کون سا دھرم اور کون سی انسانیت تمہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے لیکن یہاں تو ہر کوئی خدا بن بیٹھا ہے.فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو گھروالوں کو سلام کیا کرو .کیونکہ یہ سلام برکت کی ضامن ہے”.(مصنف عبد الرزاق) دوسری جگہ فرمایا کہ "ایمان والا محبت کرتا ہے اور اس سے محبت کی جاتی ہے .ایسے شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو نہ محبت کرتا ہے اور نہ جس سے محبت کی جاتی ہے.اور لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو انسانیت کے لئے نفع مند ثابت ہو”.(سنن دارقطنی) لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ہمارا سماج جل رہا ہے ,کتنے ہی گھر ہمارے اس وطن عزیز میں ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں ,ہر روز طلاق اور خلع کے مسائل سامنے آرہے ہیں ,آئے دن قتل نفس(خودکشی) کی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں,اس معاشرے نے ہر جرم کو پناہ دے رکھی ہے,وجہ یہی گھریلو گنڈہ گردی ہے جی ہاں گنڈہ گردی.
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
یہاں معاملہ ماں کا بھی ہے,بیوی کا بھی ہے ,بیٹی کا بھی ہے اور بہن کا بھی.اپنے بیٹوں کو ہر کوئی نعمت میسر رکھنے والے بیٹیوں کے حقوق کیوں پامال کرجاتے ہیں .تمہاری بیوی بھی کسی کی نور نظر ہوتی ہے وہ بھی محبت اور عزت کی حقدار ہے .لیکن آج تمہاری اس جہالت کی وجہ سے ہمارا دین مبین بدنام ہورہے ہیں.دوسروں کی بیٹیوں اور بہنوں کے معصوم جذباتوں کے ساتھ کھیلنے والے قانونی و سماجی سطح پر سنگ سار کے حقدار ہیں .تمہاری وجہ سے آج امت مسلمہ کی بیٹیاں اسلام سے دور جارہی ہیں .اگر ہماری بہنوں کو اسلام سکھایا اور پڑھایا جاتا تو آج یہ فحاشی و عریانی کے گرم بازار دیکھنے کو نہ ملتے.لیکن یہاں درسگاہوں کو بھی لڑکوں کے لئے مخصوص کردیا گیا.کتنی تنگ نظر ہے یہ؟؟ جو لڑکی میڈیکل سائنس کا علم پڑھنے سے گمراہ نہیں ہوسکتی وہ اسلام پڑھ کر گمراہ کیسے ہوجائے گی؟؟ یہ سؤال اہل انصاف کے لئے ہے…میرے عزیز دوستو! واللہ ثم واللہ اگر ہمارے گھروں میں اسلام کی تربیت داخل ہوگئی ,اگر تم اپنی عورتوں کو اسلام کے دائرے میں رہ کر پورے حقوق دو گے تو اللہ کے فضل و کرم سے تمہارا گھر جنت بن جائے گا…ان شاء اللہ
بہن کا پیار جدائی سے کم نہیں ہوتا
اگر وہ دور بھی جائے تو غم نہیں ہوتا
ایک شرعی قائدہ اور اصول ہے کہ "جو شخص لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرپاتا”. نکاح کے وقت پڑھی جانے والی آیات میں بار بار لفظ "إتقوا الله” آتا ہے یعنی نکاح سے لیکر مرتے دم تک اللہ سے ڈرتے رہنا. جب تم اپنے حقوق ادا کروگے تو تمہیں بھی اپنے حقوق حاصل ہونگے.کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی.مسئلہ وراثت کا ہو یا کسی اور شعبے کا صنف نازک کا ہمیشہ استحصال ہوتا آرہا ہے .اور اس لاک ڈاون(lockdown) میں تو گھریلو زیادتی انتہا کو پہنچ گئی .بھائی دن پر pubg game کے ساتھ مشغول رہتا ہے اور بہن دن بھر اسکی خدمت کرتی رہتی ہے لیکن یہ مرد پہلوان بھی کسی سے راضی نہیں ہوتا.یہاں شرعی احکام کو بھی فقط مردوں کے لئے خاص کردیا گیا ہے جو کہ ظلم و جبر کی انتہا ہے .جس طریقے سے شرعی احکام مردوں کے لئے بلکل اسی طرح عورتوں پر بھی شرعی قوانین و عبادات نافض ہوتے ہیں لیکن یہاں کوئی ان نقات کو نہیں سمجھتا اسی لئے تو عذاب الہی ہم پر نازل ہورہا ہے.
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "جس شخص کی دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ انکی صالح پرورش کرے ,انہیں تعلیم دے اور انکا نکاح شرعی حدود کے اندر کریں تو یہ بہنیں اور بیٹیاں اسکی جنت کا ذریعہ بن جائیں گی”.(ابن حبان,ترمزی وغیرہ) الغرض وقت کا تقاضہ ہے کہ اس زیادتی پر روک لگائی جائے اور اس کا واحد علاج شرعی تعلیم و سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اور میں اپنی بہنوں تک یہ بات پہنچانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ پر زیادتی ہوئی ہے تو اسے پیچھے چھوڑئیے اور خود اسلام کا مطالعہ کیجئے ,اگر والدین سے کوتاہی رہی ہے لیکن آپ انکے حقوق پورے ادا کریں اور اپنی آنے والی نسل کی فکر کریں.خود کو فحاشی و عریانی کے میلوں سے آزاد کیجئے اور کرار فاطمہ و عائشہ زندہ کیجئے تاکہ توحید و سنت کی بہار قائم ہوسکے…ان شاء اللہ.
بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں
اور کوئی دوسرا اس خواب کو پڑھ لے تو برا مانتی ہیں