خدا تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے، اور اس کی زندگی کے ہر قدم پر نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔اسی طرح سے دل کے اظہار و خیال، بیان کرنے کے لیے زبانیں بھی ایک نعمت کے طور پر عطا فرمائی ہیں۔ جب انسان وجود میں آیا تب شاید دُنیا پر اس کے بول چال کے لیے ایک ہی زبان ہو گی، لیکن جوں جوں یہ نسل آگے بڑھتی رہی توں توں نت نئی زبانیں پیدا ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔زبانیں عام طور پر ملک شہر علاقہ یا پھر قوموں کی وجہ سے قائم میں آتیں ہیں، یعنی ان کے نام اُس طرح سے پڑھتے ہیں جو علاقہ یا قوم کا نام ہو جیسے ہندی، ہندوستان سے، انگریزی، انگلینڈ سے۔ چینی چین سے، عربی عرب سے، اسی طرح بہت سے نام زبانوں کو علاقوں یا پھر ملک کی وجہ سے دیے گئے ہیں۔
لیکن یہ سوال بہت سارے انسانوں کے دل اور دماغ میں ہو گا۔کہ اردو زبان کا نام کیسے پڑا ہو گا؟ باظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ نہ تو یہ نام کسی ملک کا ہے نہ کسی قوم کا اسکے باوجود اتنی مقبولیت کے ساتھ یہ زبان کیسے اتنی ترقی یافتہ زبانوں میں شمار ہوتی ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ لفظ اردو اُس زبان کا لفظ ہے جس کا اصل میں اردو سے کوئی تعلق نہیں، یعنی یہ لفظ تُرکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر کے ہیں۔
اگر اردو کی تاریخ دیکھی جائے تو اس کا تعلق کئی پرانی زبانوں سے جا ملتا ہے،بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قدیم زمانے میں بادشاہوں کی فوج کو لشکر کہا جاتا تھی یعنی یہ ان کے بہادر ہونے کی عکاسی کرتا تھا۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لشکر ایک شخص کا نام تھا جو فوج میں شامل تھا۔ بعض لوگوں نے اسے شہر کا نام بھی کہا ہے۔ کل ملا کر اگر اردو زبان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو کہیں نہ کہیں اس کا تعلق بھی قوم قبیلے یا پھر شہر سے ہی جُڑتا ہے۔قدیم زمانے میں ہندوستان کے اندر جب مغلوں کا دور تھا تب اس زبان کو دہلوی، یا پھر ریختہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔اور اب بھی اس ملک میں کچھ جگہوں پر اس کو انہی ناموں سے جانا جاتا ہے۔پہلے زمانے میں یہ زبان بادشاہوں کے دربار میں بولی جاتی تھی۔پر آہستہ آہستہ اس زبان کو مصنفوں ادیبوں اور شاعروں نے اسے کتابوں کی شکل دینی شروع کی۔ پھر یہ زبان اتنی مقبول ہوئی کہ، برصغیر ہند و پاک میں عربی اور فارسی کی جگہ اسے استعمال کیا جانے لگا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس زبان کے رسم الخط عربی اور فارسی کے ساتھ ملتے ہیں۔یعنی اردو وہ زبان ہے جو ہر زبان کی ترجمانی کرنے کی خوب صلاحیت رکھتی ہے۔ اسکی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ دنیا کے کئی بڑھے ملکوں میں اس کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔
اردو اپنے بہترین لب و لہجے کی وجہ سے ہر شخص کی ہونٹوں پر عام ہے، اردو انسان کو تہذیب سکھاتی ہے، بہترین اظہار خیالات کے لئے اردو سے بہتر کوئی زبان نظر نہیں آتی، کیونکہ اس میں بہت ساری زبانیں سمٹ جاتی ہیں۔ اردو جب اپنے بہترین تلفظ کے ساتھ بولی جائے تو انسان کے کانوں میں شہد کی طرح مل جاتی ہے۔کئی اختلافات کے باوجود اردو اپنی اصلی صورت میں موجود ہے۔ اگر زمانے میں ہمیں اپنی نسلوں کو تہذیب اور تمدن سے اراستہ کرنا ہے تو اس کے لیے مدرسوں سکولوں کالجوں میں اردو زبان کا پڑا اور بولا جانا لازمی ہے۔ دنیا کی بہت ساری زبانوں نے پاس وہ الفاظ نہیں جو اردو زبان کے پاس موجود ہیں۔اور اردو کی اگر کوئی سب سے بڑھی حصوصیت ہے تو وہ یہ کہ ، اردو کسی ایک قوم ذات قبیلہ مذہب شہر یا ملک کی زبان نہیں ہے، اسے جو چاہے بول سکتا ہے، آسان اور میٹھا لب و لہجہ اس کی مقبولیت کا بڑا سبب ہے۔
لیکن اگر موجود وقت کی بات کی جائے تو اردو زبان پر انگریزی کا کافی اثر پڑا ہے، خاص طور پر یہ زیادتی اج کی نئی نسل کر رہی ہے، ہر جملے میں انگریزی کی لفظ کی دخل اندازی سے یقیناً زبان کمزور اور غیر معیاری ہوتی جا رہی ہے۔ اس دور میں کئی جگہوں پر اردو کے لفظ ہونے کے باوجود انگریزی کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، مثال کے طور پر، "شئیر” حالانکہ اس کا متبادل اردو میں موجود ہے "اشَترک” اس کے بعد ڈھیروں ایسی مثالیں ہیں جن کی وجہ سے زبان کو نقصان ہو رہا ہے اور آئے دن زبان کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی عزت اور حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ زبان کے سپاہی اس مضبوط کرنے میں ڈٹے رہیں۔ ہمارے ملک میں (کچھ جگہوں کو چھوڑ کر) ادیبوں اور شاعروں کی بہت کم عزت اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے،جس کا اثر برائے راست زبان پر پڑھتا ہے،کیونکہ اس سے زبان کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ادبی حلقوں میں زیادہ سے زیادہ بڑھوتری کی ضرورت ہے اس کے بعد جگہ جگہ پر مشاعروں اور ادبی مجلسوں کا انعقاد ہونا بہت ضروری ہے۔تانکہ زبان ترقی کی راہ پر برائے راست چلتی رہے۔ اردو زبان ہمارا سرمایہ ہے اردو زبان ہماری ضرورت ہے۔شکریہ۔
ممتاز احمد چوہدری۔(راجوری)
ای میل:- [email protected]
Attachments area