ڈاکٹر محمّد شاہد اور ان کی کتاب

0
0

از قلم :۔شیبا کوثر (آرہ ،بہار )انڈیا ۔

"۔ترقی پسند نظم کی فنی فنی اور فکری اساس” کے تعلق سے چند باتیں۔

چند دنوں پہلے برادرم ڈاکٹر محمد شاہد خان کی ارسال کردہ کتاب "ترقی پسند نظم کی فنی اور فکری اساس "۔کتاب مجھے ملی مطالعہ کرنے سے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اس کتاب پر ایک تبصرہ کیا جائے۔اس کتاب کے مطالعے سے جو باتیں سامنے آئیں وہ مختصرا ً پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ حقیقت یہ ہےکہ دور جدید میں اردو شا عری کا دائرہ محدود نہیں رہا ۔تقریباً شاعری کی سبھی اصناف میں مختلف موضوعات جگہ پانے لگے ہیں ۔شعراء کے اس انفرادی رجحانات نے شاعری کے دائرے کو بہت وسیع کر دیا۔جس کی وجہ کر بہت سا ری رائے بھی سامنے آنے لگی ہے اور بہت سارے لوگ شاعری کے اصناف کو بڑی گہری چھان بین میں لگے ہوئے ہیں ۔اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر محمد شاہد صاحب نے اپنی کتاب میں ترقی پسند نظم کی فنی اور فکری جہد کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
تبدیلی انسانی فطرت ہے جسکا اثر سماج پر پڑنا لازمی ہے۔ دوسری طرف ادب کا تعلق انسانی سماج سے گہرا ہوتا ہے اس لئے جب بھی سماج میں تبدیلی رونما ہوتی ہے ادب بھی اس سے اچھوتا نہیں رہ پاتا ہے ۔انیسویں صدی کے اوائل سے ہی دنیا میں ایک انقلابی تبدیلی کی آہٹ سنائی پڑنے لگی تھی جس کا اثر دنیا بھر کے ادب پر بھی پڑ رہا تھا ۔مغرب کے اثرات اردو آبادی کو کافی متاثر کرتے تھے اس لئے مغرب میں پیدا ہو رہے نئے ادبی منظر نامے کے غیر معمولی اثرات بھی اردو آبادی کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے ۔جس کے نتیجہ میں 1935ءمیں لندن میں مقیم ہندوستانی نوجوانوں کے ایک گروپ نے جس میں سجاد ظہیر،ملک راج انند شامل تھے ایک انجمن تشکیل دی جسکا نام "ہندوستانی ترقی پسند ادیبوں کی انجمن ۔”رکھا گیا جس کے پہلے صدر ملک راج آنند بنے جسکا پہلا اجلاس میں منشی پریم چند کی صدارت میں لکھنؤ میں ہوا جو بڑا ہی کامیاب رہا جہاں سے اس نے ایک تحریک کی بنیاد ڈالی جس کے نتیجہ میں ایک وہ بھی دور آیا جب ترقی پسند شعراءاردو ادب میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوگئے ۔
ترقی پسند تحریک کی اگر بات کی جاۓ تو یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اس تحریک سے جڑے درخشاں ستارے تھے انہوں نے شا عری کی صنف میں سب سے زیادہ نظم کو ہی اپنا ہتھیار اور سماج کے مظلوم، محکوم اور مزدور طبقات کی خوبصورت اور دلفریب انداز میں ترجمانی کی جس میں فیض احمد فیض ،مجاز ،جوش،مخدوم ،جاں نثار اختر،سردار جعفری ،کیفی اعظمی ،آل احمد سرور ،اختر انصاری ،معین احسن جذبی اور ساحر لد ھیانوی کا نام نمایاں طور سے لیا جاسکتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آج بھی اس دور میں لکھی گئی نظموں کی معنویت اور اہمیت برقرار ہےجس کا ایک علمی نمونہ ابھی کچھ دن پہلے جب سارے ملک میں NRC اور NPR کی تحریکیں چل رہی تھیں تو مشاہدے میں آیا ،جس میں فیض کی نظم "۔و۔ بیقیٰ وجہ ربک” ۔۔۔۔۔۔لازم ہے کہ۔ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے۔
اور نظم "بول ” بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول،زباں اب تک تیری ہے
کے بول ہر احتجاجی کو قوت بخشنے کا کام کر رہے تھے اور ایک طرح سے یہ انقلابی نعرہ بن گئے تھے ۔جہاں تک ڈاکٹر محمد شاہد خان کا تعلق ہے انہوں نے بی ۔اے ویر بہادر سنگھ پور وانچل یونیورسٹی جونپور سے کیا اور پھر وہ علی گڑھ یونیورسٹی،علی گڑھ چلے آئے جہاں سے انہوں نے ایم ۔اے کیا اور پھر علی گڑھ مسّلم یونیورسٹی سے ہی نظم کے حوالے سے اپنا تحقیقی مقالہ بعنوان” اردو نظم کے فروغ میں علی گڑھ کا حصّہ۔”مکمّل کیا ہے جو ایک عمدہ تحقیقی کارنامہ ہے۔انہوں نے اپنا تحقیقی کام کتنے ایمانداری سے اور دل جمیء کے ساتھ کیا ہے اس کی ایک مثال انکی یہ کتاب بھی ہے کیونکہ اس کتاب کا موضوع بھی نظم ہی ہے ۔انہوں نے اپنے تحقیقی کام میں جو محنت کی اور جسکی وجہ سے کافی کچھ ان کے مشاہدے میں آیا یقیناً اس کا فائدہ انہیں اپنی اس کتاب کی ترتیب دینے میں ہوا اور یہ میدان انکے لئے بہ نسبت دوسرے صنف کے زیادہ موضوع ثابت ہوا اسکی مثال ہے ۔
میں پروفیسر طارق چھتاروی کی اس بات سے متفق ہوں جو انہوں نے کہی ہے کہ "۔ڈاکٹر محمد شاہد نے اپنی کتاب "۔ترقی پسند نظم کی فنی اور فکری اساس "۔میں نہایت سلیقے سے ترقی پسند تحریک کا پس منظر، ارتقا اور شعری رجحان اور اردو نظم اور ترقی پسند تحریک کا جا معیت کے ساتھ تنقیدی جائزہ لیا ہے "۔
کتاب میں ترقی پسند تحریک کا پس منظر ،اور شعری، رجحان کے۔ عنوان سے ایک الگ باب شامل کیا گیا ہے جس میں پورے منظر نامے کا بہت ہی بہتر ڈھنگ سے جائزہ لیا گیا ہے اور اس تحریک کا مقصد واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "۔ترقی پسند تحریک کا مقصد سماج کو متوازن بنانا اور انسانوں کے درمیان سماجی اور معاشی طور پر مساوات قائم کرنا تھا "۔
جہاں تک ترقی پسند تحریک کا سوال ہے تو یہ بھی سچ ہے کہ یہ میدان اشتراکیت سے بہت حد تک متاثر تھا جسکو انہوں نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور بقول شاہد خان کے وہ لکھتے ہیں کہ "میں یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ ترقی پسندوں نے بھی ادب براۓ زندگی کا نعرہ اشترا کیت کے معنی میں لیا ہے اور استعمال کیا ہے مگر یہ جدیدیت کے تصور ادب سے زیادہ قریب تر معلوم ہو تا ہے نئے ادیبوں اور شا عروں نے فرد کے حوالے سے زند گی کو زیادہ گہرائ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے اور شخصیت کے اسرار و رموز کی تفہیم کی کوششیں اور انکا گہرا مطالعہ ان کے یہاں ملتا ہے اس بحث اور اس پر ہو نے والے اختلا فات کے تعلق سے میری رائے یہ ہے کہ جو لوگ ادب کی ادبیت کو تسلیم نہیں کرتے وہ دراصل ادب کے اصل وجود کے انکاری ہیں اور جو ادب براۓ سماج یا زندگی سے گریزاں ہیں وہ ادب کے مقصد یت کو نہیں سمجھتے اس لئے ان سب باتوں کو ایک ساتھ دیکھنے اور سجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ادب کے اصل مفہوم اور مقصد تک رسائی حاصل کی جا سکے ۔”
ہر میدان کی طرح ادب میں کچھ لوگ اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ادب کو بھی بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور بہت سارے فنکار کو وہ مقام حاصل نہیں ہو پاتا ہے جو ہونا چاہئے ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اس کے اثرات بھی یقیناً برے ہوتے ہیں ترقی پسند ی کو بھی اس کی مار جھیلنی پڑی ہے اس میں اس کی طرف بھی اشا رہ ہے کہ "ترقی پسند تحریک کی اپنی نظریا تی اہمیت غیر معمولی معنویت اور اہم مقا صد کے باوجود اس بات سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ترقی کے اعلیٰ مدارج پر پہنچنے۔ کے باوجود بہت جلد زوال پذیر اس لئے ہو گئی کیونکہ بہت شدّت کے ساتھ ادیبوں اور شا عروں کو مخصوص اور محدود اظہار کا پابند۔ بنایا گیا اور انکی آزادئ اظہار فن پر طنزو طعن کیا جانے۔ لگا جس سے معتدل ترقی پسند اس سے بد ظن ہو گئے ۔ادبی ڈ کٹیٹر شپ نے اس تحریک کو بہت نقصا ن پہنچا یا۔ ”
شاہد خان نے اپنی کتاب میں "اردو نظم اور ترقی پسند تحریک ” کو بھی ایک الگ باب میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے جس میں انہوں نے ترقی پسند تحریک کو عوام سے جوڑنے میں نظم کی اہمیت کو مانا ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "ترقی پسند تحریک نے شا عری میں جس صنف کو سب سے زیادہ اہمیت دی وہ نظم ہے یا اگر یہ کہیں کہ ترقی پسند تحریک نے نظم کو شعری اظہار کیلئے مخصوص کر دیا تو بجا ہوگا ۔ترقی پسند نظریا ت اور اس کے موضوع اور اسلو ب بیان کے اعتبار سے نظم موزوں اور کار آمد ذریعہ اظہار بننے کی صلاحیت رکھتی تھی ،اس لئے ترقی تحریک کے زیر اثر اس پر شدید اصرار ملتا ہے "۔انہوں نے اس کتاب میں "ترقی پسند اردو نظم ” بھی ایک الگ عنوان قائم کیا ہے ساتھ ساتھ اس تحریک سے جڑے اہم شعراء کی شخصیت اور فکر و فن کا بھی تفصیلی جائزہ الگ الگ مضامین میں لیا ہے "۔
وہ اپنے مقصد کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ترقی پسند نظم کے حوالے سے احقر کی اس کاوش سے مقصود یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک اور اس کے زیر اثر تخلیق ہونے والی نظموں کی تشکیل و تعمیر میں کار فرماں فکری اور فنی عناصر اس کے ارتقا اور اہم نظم نگار وں کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی جا سکے ۔
لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ ادب میں کوئی موضوع کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ تحقیق کی راہیں کھلی رہتی ہیں اور ہر دور میں نئے زاو یئے سامنے آتے رہتے ہیں اور جہاں تک ڈاکٹر شاہد خان صاحب کی بات ہے انہوں نے سخت کاوش کی ہے اور بہت سارے پہلو ں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔پرو فیسر ابو الکلام قاسمی صاحب کے تاثر ات بھی قابل غور ہیں ۔” نو خیز اور تازہ دم تنقید نگار کی تحریر میں موضوع اور مافی الضمیر سے انصاف کا سوال عموماً قدرے بعد میں زیر بحث آتا ہے ،سب سے پہلے ایسے لکھنے والوں میں سے بیشتر کی نہ تو زبان دانی قابل اعتبار دکھائی دیتی ہے اور نہ انہیں اپنے انداز پر خاطر خواہ قابو ہوتا ہے ۔جسکا نتیجہ یہ ہے کہ تنقید کے میدان میں محض معدودے چند نو وارد لکھنے والے اپنی شنا خت قائم کر پاتے ہیں ،ورنہ تو بیشتر جس گمنامی سے باہر نکل کر سامنے آتے ہیں بہت جلد پھر اسی گمنامی کے دھند لکوں میں غائب ہو جاتے ہیں ۔
بہرکیف ڈاکٹر شاہد خان صاحب کی جتنی پذ یرائی کی جائے کم ہے کیونکہ انہوں نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ ترقی پسند نظم کے بارے میں اس کتاب میں اپنی رائے رکھنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں اور یہ کتاب اسی کوشش اور خدمت کا نتیجہ ہے ۔ڈاکٹر محمد شاہد خان صاحب کی یہ ادبی خدمات اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے انہیں میں اس نئے سفر کے لئے تہ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ اس طرف ان کا سفر جاری رہے گا ۔!
ختم شد ۔
[email protected]

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا