کرونا متاثرین کی باز آبادکاری؟

0
0

گزشتہ سال کے آخری ایام میں ایک ایسی وبائی مرض نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا کہ نیا سال شروع ہوتے ہی پوری دنیا میں اس کا اثر دیکھنے کو ملا اور مارچ کے مہینے میں وبائی مرض کرونا وائرس نے ہندوستان میں اپنے پائوں پسارنے شروع کئے ۔کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ملک کی تمام ریاستوں میں یہ بیماری پھیل گئی جہاں مہارشٹر اور دہلی میں اسکے کافی مثبت معاملات سامنے آنے لگے ۔بائیس مارچ کو ملک میں لاک ڈائون کا پہلا دن تھا جسکو جنتا کرفیو کا نام دیا گیا اور اس طرح لاک ڈائون کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔جو جہاں تھا ،وہیں رہ گیا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے مزدور طبقہ کی آہ و فگاں سامنے آنے لگی ۔بھوک تنگ کرنے لگی اور معاشی حالات کمزور ہونے لگے ۔اس دوران سب سے زیادہ مزدور طبقہ متاثر ہوا جس کے پاس جو کچھ تھا ،اسنے لاک ڈائون کی پاسداری کرتے ہوئے سب جمع پونجی ختم کر ڈالی ۔جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والا مزدور طبقہ ایک بڑی تعداد میں بیرونی ریاستوں میں درماندہ ہو کر رہ گیا ۔یو ٹی انتظامیہ نے ان کی واپسی کیلئے اقدام بھی کئے ۔ریل،سڑک اور ہوائی خدمات کا سلسلہ شروع کر کے مزدور طبقہ کو ان کے علاقہ جات میں پہنچانے کا کام شروع ہوا لیکن اس سب کے باوجود بھی مزدور طبقہ پریشان ہے کیونکہ کرونا نے مزدوروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔مالی حالات کمزور ہو چکے ہیں ،بھوک ہے بس پریشانی ہے اور مستقبل قریب کی فکر ہے کہ کام نہیں ہے اور پاس کی جمع پونجی بھی ختم ہے ۔حکومت کی جانب سے رسوئی گیس اور راشن کی سہولیات بھی دی گئیں لیکن ان سہولیات کی ایک طویل وقت تک ضرورت ہے ۔صرف رسوئی گیس یا راشن سے کچھ نہیں ہونے والا۔اس دوران بجلی اور پانی کے کرائے میں بھی چھوٹ کی ضرورت ہے ،قرضہ جات کے سود میں معافی کا سلسلہ کیا جائے اور مزدوروں کی بازآبادکاری کی جائے تاکہ ملک کے یہ باشندے ان مشکل اوقات میں مصیبتوں سے نجات حاصل کر سکیں۔اس دور میں حکومت کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری رضاء کار تنظیموں نے بھی ہمت نہیں ہاری ۔عوامی تعاون کا سلسلہ جاری رہا ،کرونا متاثرہ علاقہ جات کو سینی ٹائز کیا گیا ۔کرونا نے ابھی نرمی نہیں کی ہے بالکہ ہر آئے روز اس کے مثبت معاملات میںاضافہ ہو تا جا رہا ہے ۔حکومتی سطح پران معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے کرونا سے متاثر ہوئے طبقات کیلئے خصوصی بازآبادکاری پروگرام کیلئے اقدام اٹھائے جانے چاہئے تاکہ سخت ترین حالات میں راحت مل سکے ۔وہیں غیر سرکاری رضاء کار تنظیموں کو بھی اپنی امدادی کاروائیاں جاری رکھنی چاہئے تاکہ وطن میں کوئی بھوکہ نہ سوئے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا