امیت بیجناتھ گرگ
جے پور، راجستھان
آزادی کے وقت ملک میں قومی سطح پر خواتین کی خواندگی کی شرح محض 8.6 فیصد تھی لیکن 2011 کی مردم شماری کے مطابق یہ 65.46 فیصد ہو گئی۔ پرائمری سطح پر لڑکیوں کے اسکولوں میں داخلے کا مجموعی تناسب (جی ای آر) 24.8 فیصد تھاجبکہ اَپر پرائمری سطح پر (11–14 سال کی عمر میں) یہ محض 4.6 فیصد تھا۔ کیرالا میں خواتین کی خواندگی کی شرح سب سے زیادہ 92 فیصد ہے جبکہ راجستھان میں خواتین کی خواندگی کی شرح صرف 52.7 فیصد ہے،جو ملک میں سب سے کم ہے۔ تاہم ، راجستھان میں تعلیم کے تئیں خواتین کی بیداری قابل ذکر ہے۔ راجستھان سے جڑی ایسی بہت ساری کہانیاں ہیں جو خواتین کے تعلیم کے جذبے کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی جے پور کے سنگنیر بلاک میں لکھنا گرام پنچایت کی انیتا شرما کی ہے۔ انیتا نے خواندگی کیمپ میں پڑھنا لکھنا سیکھا ہے۔ اس نے بنیادی تعلیم کا امتحان بھی پاس کیا ہے۔ اب وہ دعوت نامہ وغیرہ بحسن خوبی پڑھ لیتی ہے مگرا بھی اس میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی للک ہے۔
کرولی ضلع کے نادوتی بلاک میں واقع کملا گرام پنچایت کی اندرا گپتا نے سلائی کرنی چھوڑ دی تھی۔ خواندہ ہونے کے بعد وہ خود اعتماد ہوئی اور پھر سے سلائی کا کام شروع کیا۔ اب وہ اِنچی ٹیپ سے ناپ لے کر لکھنے بھی لگی ہے۔ ادھر ضلع جھالاواڑ کے خان پور بلاک میں واقع گولن گرام پنچایت کی کالی بائی ریاضی میں پیچھے رہی۔ اسی دوران اس کی بیٹی بیمار ہوگئی۔اپنا کام ختم کر کے وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کاپی کتاب لے کر بیٹھ جاتی تھی اور کیمپ میں پڑھائے ہوئے سبق کو دوبارہ پڑھنا شروع کردیتی تھی۔اس کی پڑھائی میں اس کی بیٹی نے بھی خوب مدد کی۔ اسی طرح سے ریاست کے ضلع کرولی کے راجور گرام پنچایت کی لیلا دیوی بھی کافی خوش ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ” اب مجھے نریگا میں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سلائی کا کام ہی اچھا خاصا مل جاتا ہے۔ اب میں اِنچی ٹیپ سے ناپ لیکر لکھ لیتی ہوں اور گاہکوں کو بل بنانا کر دینا بھی سیکھ گئی ہوں۔”
بھرت پور ضلع میں بیانا پنچایت سمیتی کے سید پور گرام پنچایت کی سرپنچ بینا گجر ایم اے – بی ایڈ ہیں۔ سر پنچ بننے تک کا سفر طے کرنے سے پہلے وہ عوامی تعلیمی مرکز کے ذریعہ ایک محرک رہی ہیں اور انہوں نے عوام، خاص طور پر خواتین کی تعلیم میں بہت ہی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ یوگا پر بھی زور دیتی ہیں۔ جب وہ سرپنچ بنیں تو انہوں نے کہا تھا کہ "مجھے گھوم گھوم کر لوگوں کو تعلیم کے بارے میں بتانا ہے اور انہیں اس کی اہمیت کو سمجھانا ہے۔میری پنچایت کی ترقی کے لئے میرا تعلیم یافتہ ہونا بہت کام آیا۔ تعلیم کی بنیاد پر میں نے عزم کیا تھا کہ کسی کو بھی تعلیم سے محروم نہیں ہونے دونگی اور لوگوں کو ساتھ لے کر چلوں گی۔”
جھالاواڑ ضلع میں بھوانی مندی پنچایت سمیتی کی سرود گرام پنچایت کی سرپنچ رہ چکی سشیلا دیوی میگھوال کی پڑھائی ان کی شادی کے بعد چھوٹ گئی تھی۔ وہ اس وقت بی اے کے دوسرے سال میں زیر تعلیم تھیں۔ اپنے شوہر کی موت کے بعد انہوں نے عوامی تعلیمی مرکز کے محرک کی حیثیت سے کام کیا۔ محرک بننے کے تین سال بعد انہیں سرپنچ بننے کا موقع ملا۔ تب تک اس کے سسرال والے بھی تعلیم کی اہمیت کو سمجھ چکے تھے۔گاو¿ں کی خواتین نے انہیں الیکشن لڑنے کے لیے ابھارا۔ بالآخر ان کے اسرار پر انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور وہ الیکشن جیت بھی گئیں۔ اس کے بعد انہوں نے دیگر محرکات کے ذریعہ اپنی پنچایت میں خواتین کی تعلیم کی سمت میں بہتر کام کیا اور اس علاقے کی ترقی کے لیے مناسب کام کیے۔
ضلع کڑولی کے ہنڈون بلاک کی اکبر پور نامی گرام پنچایت کی سائنا نے پبلک ایجوکیشن سینٹر کے زیر انتظام کیمپ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ چار بھائی چار بہنوں میں ایک سائنا ہی ایسی ہے جسے گریلو غربت نے پڑھنے نہیں دیا۔ کیمپ میں بھی نام درج کرانے پر سائنا کے اہل خانہ نے کافی اعتراض کیا۔ تاہم ، سائنا کو اپنی والدہ کا سپورٹ حاصل ہونے کی وجہ سے کیمپ میں داخلہ ہوگیا۔ آج سائنا نہ صرف اخبار پڑھ لیتی ہے بلکہ سلائی اور کڑھائی بھی سیکھ گئی ہے۔ اب وہ اپنے گھر کے اخراجات کا حساب کتاب بھی کر لیتی ہے۔ سائنا کا کہنا ہے کہ اب وہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے اور پڑھ لکھ کر دوسری خواتین کی پڑھنے میں مدد کرنا چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پڑھنے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے۔
جے پور ضلع کے چاکسو بلاک کی روپاہیڑی کلاں گرام پنچایت کی سیتا دیوی نے شادی کے بعد لوگوں کے کپڑے سلائی کرکے اپنے گھر کا خرچ چلایا۔ شوہر بھی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ آمدنی کا ذریعہ بھی بہت مضبوط نہیں ہے۔ تعلیم حاصل نہ کرنے کا دکھ سیتا کے دل میں اس وقت تک رہا جب تک کہ اس نے پبلک ایجوکیشن سینٹر کے کیمپ میں داخلہ نہیں لے لیا۔ سیتا کے شوہر نے بھی تعلیم حاصل کرنے کے لئے تحریک دی تو سیتا کی خواہشات کے پر لگ گئے اور اس نے فوراً کیمپ میں داخلہ لیا۔ آج سیتا تعلیم یافتہ ہے۔ اس کے تین بچے ہیں۔ وہ خواتین کے کپڑوں کی سلائی کا کام کرتی ہے۔ اب وہ ان سب کو بل بنا کر دینا بھی سیکھ گئی ہے۔ سیتا نے اپنے سلائی کے کمرے کے نام پر اپنی بیٹی کا نام پریا رکھا ہے۔
ضلع جہالاواڑ کے خان پور بلاک کے موڈی بھیم ساگر گرام پنچایت کی بردی بائی کی عمر 45 سال ہے۔ شوہر کرانے کی دکان چلاتے ہیں۔ مختلف وجوہات کے بنا پربردی بچپن میں نہیں پڑھ سکی۔ شادی کے بعد بردی دیوی اپنے دونوں بچوں کو پڑھتے دیکھ کر اسے خود بھی پڑھنے کا دل کرتا تھا۔ بردی دیوی کو پتہ چلا کہ اس کی پنچایت میں ایک تعلیمی مرکز کھلا ہے۔ اس نے اپنے شوہر کو پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر اس کے شوہر نے انکار کردیا لیکن بعد میں اپنی بیوی کی خوشی کے لیے وہ اس کی تعلیم کے لیے راضی ہوگیا۔ بردی دیوی نے کیمپ میں د لجمعی سے تعلیم حاصل کی۔ آج وہ اپنے شوہر کی دکان پر بیٹھتی ہے اور دوکان کی رقم کا حساب کتاب بھی کرتی ہے۔ شوہر کے باہر جانے پر بھی وہ پوری دکان اکیلے سنبھال لیتی ہے۔ آج بردی پڑھ لکھ کر بہت خوش ہے
۔(یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2019کے تحت لکھا گیا ہے)