بشیر اطہر
7006259067
موجودہ زمانے میں کھانے کی چیزیں بند ڈبوں، لفافوں اور بوتلوں میں بازاروں میں کثرت سے ملتی ہیں اور ان کا استعمال آج کل رواج بن گیا ہے یا یہ کہا جائے کہ ان کا استعمال لوگ کثرت سے کرتے ہیں خاص کر ان کھانوں کا استعمال اُن خاندانوں میں ہوتا ہے جن کے والدین ملازمت کرتے ہیں یا جن کے والدین میں سے ایک ہی فرد (single parent family) اپنے خاندان کی ذمہ داری نبھاتا ہے اور وہ کام کے دباؤ میں آکر مشکل سے گھر میں غزا تیار کرنے کےلیے وقت نکالتے ہیں کھانے کی چیزیں پیک کرنے سے ہمیں اگرچہ ان چیزوں سے تحفظ فراہم ہوتا ہے ان میں سے مادی طور تغلیظ ہونے سے Physically from compression، کیمیائی طور آکسیجن اور گیلے پن سے(Chemically from oxigen and moisture) اور حیاتیاتی طور جراثیم (Biologically from growth of microbes) سے بھی تحفظ فراہم ہوتا ہے وہیں محققین نے ہمیں ان پیکٹوں میں استعمال شدہ کیمیائی مواد کے مضر اثرات سے بھی آگاہ کیا ہے حال ہی میں امریکہ سے شائع شدہ جریدہ Epidemiology and Community Health میں چھپے سائنسدانوں نے تجزیہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ پیکیٹ والی غزائی اجناس اس لئے مضر صحت ہیں کیونکہ اس میں موجود کیمیائی مواد اس غزا میں سرایت کرتا ہے جبکہ کم مقدار میں بھی کیمیاوی چیزیں استعمال کرنے سے صارفین کی زندگیوں پر برے اثرات پڑنے کے خطرات واضع ہیں غزائی اجناس خاص کر وہ جو رس دار ہوتی ہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک لے جانے سے کھانے میں حرارت اور تیزابیت بڑا دیتی ہیں اور جن چیزوں میں اشیاء خوردونوش ایک جگہ سے دوسری جگہ یا پلاسٹک کی۔ چیزوں میں جیسے سافٹ ڈرنک، بچوں کےلئے دودھ کی بوتلیں، چاکلیٹ اوردہی، پنیر، مکھن اور جو غیر پلاسٹک چیزوں میں ہوتے ہیں ان میں رنگ و روغن، چپکانے والی چیزیں جیسے گوند، چھپائی کی سیاہی اور ربر جیسی چیزیں عام طور سے استعمال میں لائی جارہی ہیں ان سب چیزوں میں کمیکل شامل ہوتا ہے اور اس سے بھی انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات ظاہر ہیں مثال کے طور پر فارمل ڈیہائڈریشن کاگیس(Fumes of Formaldehyde) جو ایک سرطانی مادے کارسینو جن (Carcinogen) کے نام سے جانا جاتا ہے کافی کے پیالوں اور پلاسٹک بوتلوں میں کثرت سے پایا جاتا ہے اس سے انسان کے جلد میں جھنجھلاہٹ (Skin Irritation) آنکھوں میں جلن اور متلی آنے کے خطرات واضع ہوتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سے کینسر جیسی مہلک بیماری کے خطرات بھی لاحق ہوتے ہیں اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہم گھر میں رنگ و روغن کرتے ہیں تو عام لوگوں کو اس کے بُو سے نفرت ہوتی ہے اور ان کو متلیاں بھی آرہی ہیں
Bisphenolاور پالیکار بونیٹ(Policarbonate) جیسے کینسر پھیلانے والے مواد پلاسٹک میں کافی مقدار میں موجود ہوتا ہے اسی طرح Phthalates جو عام طور سے کسی چیز کو لچکدار بنانے میں کارآمد ہوتا ہے اور شیرہ ساز (
Emulsifiers) ، جلد ساز، سٹیبلآئزر (Stabilizers) اور ان چیزوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جن میں غزائی اجناس رکھے جاتے ہیں اس سے انسانوں میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت، وردانہ کمزوری اور موٹاپن میں اضافہ ، اےنڈوکرائن میں خلل جیسی علامات پائی جاتی ہیں اس کے علاوہ ہارمون پیدا کرنے میں خلل پیدا کرنے کے علاوہ باقی بیماریاں بھی لاحق ہوجاتی ہیں جو کیمیکلز ان جیسی بیماریوں کو جنم دیتی ہیں ان میںTBT(Tributylin), Triclosone, Benzophenones, Polyolefine, Phytoestrogen اور Zearalenone جیسے کیمیکلز قابلِ ذکر ہیں ان کے علاوہ بھی کئی ایسے جز پائے جاتے ہیں جن کا اثربراہ راست ہماری صحت پر پڑتا ہے۔ آج کل پیکڑ غزائی اجناس کا فیشن عام ہوتا جارہا ہےاور توقع کی جارہی ہے کہ آنے والے وقت میں پیکیجڈ کھانا زیادہ ہی ہردلعزیز ہوجائے گی مگر اس سے بیماریاں بڈھنے کے خطرات بھی کافی زیادہ ہیں۔ پیکڑ غزا کے کچھ فائدے بھی ہیں کیونکہ ان میں کچھ حد تک حفظان صحت کا بھی خیال رکھا جاتاہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بہ آسانی لے جایا جاسکتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس وقت ہندوستان میں غزائی اور مشروباتی کارخانے66.3بلین ڈالر کے اشیاء کی خریداری کررہے ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ آئندہ آنے والے کچھ سالوں میں یہ مقدار 89.3بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی اور یہ تخمینہ کسی عام شخص کا نہیں ہے بلکہ انڈین برانڈ ایکویٹی فاؤنڈیشن(Indian Brand Equity Foundation) نے لگایا ہے اس کے علاوہ دنیا میں سب سے زیادہ پیکڑ غزا فراہم کرنے والا ملک بھی ہندوستان ہی کو مانا جارہا ہے اور اس سے یہاں کے صحت عامہ کو بہت سے خطرات لاحق ہورہے ہیں اور بیماریوں میں اضافہ ہونے کے خطرات بھی ہیں آپ انداہ لگائے کہ اگر اس پر روک نہیں لگائی گئی تو ان کی بہتات سے کیا ہوجائے گا ۔ فوڈ سیفٹی کو لیکر ان چیزوں کو بنانے، پیک کرنے اور ذخیرہ کرنے تک بہت سے خدشات ظاہر ہورہے ہیں اس لئے ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ غزائی اجناس کو اگر محفوظ رکھا جاسکتا ہے وہ صرف شیشے ، بےزنگ اسٹیل اور مٹی کے برتنوں میں ہی رکھا جاسکتا ہے اور انہوں نے ان چیزوں کی سفارش بھی کی ہے اس کے علاوہ ہمیں بازاری تیار شدہ غزا کا قطعاً استعمال میں نہیں کرنا چاہئےاور بچوں کو بھی ان چیزوں سے باز رکھنا چاہئے۔ یونیسیف نے بھی غزا اور غزائیت کے عنوان سے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ غیر تغزیہ بخش اور پیکڑ غزاؤں اور کھانے کے سبب ایک تشویشناک تعداد میں بچےبیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور بچے ہی ان چیزوں کا استعمال زیادہ کرتے ہیں کیونکہ بچوں کی غزائی چیزوں میں ایسے کمیکل ملائے جارہے ہیں جن کی وجہ سے بچہ ان کی طرف کشش کرتا ہے اور اس کے علاوہ ان غزاؤں کا استعمال کرنے سے بچوں کی بھوک بھی مٹ جاتی ہے ان میں سے چاکلیٹ بھی شامل ہیں اور بچے نہ کھانے کی وجہ سے بیماریوں کے شکار ہورہے ہیں اس لئے اپنے بچوں کو ان چیزوں کا عادی نہ بنائیں اور ان کو ان چیزوں سے لاحق ہورہی بیماریوں سے محفوظ