”عید“

0
0

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر کلثوم چوہدری۔

ڈھیروں شادمانیاں انسان کے سراپے میں گھل جاتی ہیں، ہر شخص کے خیال کدے میں ان گنت غنچے چٹک جاتے ہیں، عید کے تصور ہی سے انسان کے لب و رخسار پر سنہرے اور اجلے رنگ جھلملانے لگتے ہیں۔
عید پر صاحب حیثیت لوگوں کو پہلے سے کچھ زیادہ غربا اور مساکین کی امداد کرنا ہوگی کیونکہ اس بار خوفناک مہنگائی کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھی لوگوں کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ کورونا اور لاک ڈاؤن میں درمیانے طبقے کی خوشیاں بھی بہہ گئی ہیں اور اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ ان کے لیے عید کی خریداری بھی نہایت مشکل ہو گئی۔ ان حالات میں درمیانے طبقے سے یہ امید وابستہ کرنا کہ وہ غربا کی عید کے حوالے سے مالی امداد کریں، ایک نامناسب بات ہے۔
ان کے تو اپنے حالات اتنے ناگفتہ بہ ہیں کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بھی عید کی خوشیاں پہلے کی طرح منانے کے قابل ہیں یا نہیں۔اس لیے اب صرف دولت مند طبقہ ہی رہ جاتا ہے جس سے یہ توقع لگائی جا سکتی ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ ایثار کا مظاہرہ کریں۔
اگرچہ حکومت اور کچھ رفاہی تنظیمیں اربوں خرچ کر رہی ہیں، مگر اب بھی کروڑوں ایسے خاندان ہیں کہ جن کے پاس سامانِ عید نہیں۔ بطور خاص ان بچوں کی محرومی اور آزردگی کا اندازہ لگائیے کہ جن کے پاس عید کے لیے نئے کپڑے ہیں نہ نئے جوتے۔ کیوں کہ ہمارے ملک میں بے روزگاری کی حد پار ہو چٌکی ہے۔ہزاروں، لاکھوں گھر ایسے ہیں جنھیں عورتیں اور بیٹیاں مزدوری کرکے چلا رہی ہیں، ہزاروں لاکھوں نوجوان اعلی تعلیم پانے کے باوجود بیکار بیٹھے ہیں، گھروں میں بیمار ماں باپ اور بیماربچوں کے لیے دوائیاں نہیں۔
کیونکہ عید ان کو ستانے آرہی ہے .اس موقع پرہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے ؟اسلامی تعلیمات کیا ہیں ؟ !اللہ تعالیٰ نے آپ کو مال دیا ہے تو اس کی اتنی نمائش نہ کریں کہ غریبوں کے لئے زندہ رہنا مشکل ہوجائے۔ بہت قیمتی چیزیں اپنے بچوں پر نہ لا دیں۔ بانٹ کر کھائیں اور ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھیں اور تو اور کسی غریب کے گھر کے سامنے گوشت کی ہڈیاں اور پھلوں کے چھلکے تک نہ ڈالیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے بچے بھی گوشت اور پھل مانگنے لگیں اور وہ بے چارہ غم کے آنسو پی کر جلتا رہے۔اللہ تعالیٰ نے جن کو غریب بنایا ہے وہ مالداروں سے افضل ہیں وہ مالداروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ انبیائ علیہم السلام کے طریقے پر ہیں وہ اپنی آنکھوں میں لالچ، محرومی اور سوال کی ذلت نہ بھریں۔ اپنے سر پر قناعت کا تاج رکھیں عید کے دن نئے کپڑے بالکل ضروری نہیں ہیں۔ بچوں کے لئے نئے جوتے ہرگز ہرگز ضروری نہیں ہیں اس لیے ان چیزوں کا غم نہ کھائیں اور نہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ لائیں۔ پیوند لگے کپڑوں میں جو عزت اور شان ہے وہ ریشم کے لباس میں نہیں ہے کسی کو اس بات پر نہ کوسیں کہ وہ ہمیں کیوں نہیں دیتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کو کسی کے مال پر نظر کرنے دیں۔ قناعت اور استغنا کا تاج پہنیں اور قبر کی مٹی کو یاد رکھیں۔ رب کعبہ کی قسم دنیا انہیں لوگوں کو ستاتی ہے جو موت اور قبر کو بھول جاتے ہیں اور جو لوگ موت اور قبر کو یاد رکھتے ہیں یہ دنیا ان کے قدموں پر گرتی ہے۔ عید کا ایک دن بھی گزر جائے گا چاروں طرف دنیا کے میلے دیکھ کر اپنی غریبی اور فقیری کو داغدار نہ ہونے دیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عید کے دن نبی کریم ﷺمسجد جارہے تھے کہ راستے میں کچھ ایسے بچوں کوکھیلتے دیکھا جنہوں نے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔بچوں سے سلام دعاکے بعدآپﷺآگے تشریف لے گئے تووہاں ایک بچے کواٌداس بیٹھے دیکھا۔آپﷺ نے اس کے قریب جا کرپوچھا تم کیوں اٌداس اور پریشان ہو؟اس نے روتے ہوئے جواب دیا۔اے اللہ کے رسولﷺمیں یتیم ہوں میراباپ نہیں ہے،جومیرے لئے نئے کپڑے خریدتا،میری ماں نہیں ہے جو مجھے نہلاکر نئے کپڑے پہنادیتی اس لئے میں یہاں اکیلا اداس بیٹھا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر اپنے گھر تشریف لے گئے اور ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے فرمایا ”اس بچے کو نہلا دو”اتنے میں آپﷺ نے اپنی مبارک چادر کے دو ٹکڑے کردیے۔چادر کا ایک ٹکڑا شلوار کی طرح باندھ دیا اور دوسرا اس کے بدن پر لپیٹ دیاگیا۔بچہ جب نہلاکر نئے کپڑے پہن کر تیار ہوگیا تو آپﷺ نے بچے سے فرمایا آج تو پیدل چل کر مسجد نہیں جائے گابلکہ میرے کندھوں پرسوار ہوکر جائے گا،آپﷺ نے یتیم بچے کو اپنے کندھوں پر سوار کرلیا اور مسجد کی طرف روانہ ہوگئے راستے میں وہ مقام آیا جہاں بچے نئے کپڑے پہنے کھیل رہے تھے جب اِن بچوں نے دیکھا وہ یتیم بچہ جو اکیلا اٌداس بیٹھا تھا رحمت دوعالم حضرت محمدﷺ کی کندھوں پہ سوار ہے تو کچھ کے دلوں میں خیال گزرا کہ کاش وہ بھی یتیم ہوتے تو آج نبی کریمﷺ کے کندھوں کی سواری کرتے۔یہاں تک کہ سرکار دوعالمﷺ نے اِس بچے کو اپنے ساتھ ممبر پر بٹھایا اور فرمایا جو شخص یتیم کی کفالت کرے گااور محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرے گا،اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا۔ہمیں بھی نبی کریمﷺ کی پیروی کرتے ہوئے عید کے موقع پر اپنے ارد گرد بسنے والے غریب،یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہئے تاکہ ان کی بھی عید ہوجائے اور ہمیں کل روز قیامت آپﷺکے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔عید سب کے لئے خوشیوں کا پیغام لاتی ہے ۔عید الفطر جہاں خوشیوں کا پیغام لاتی ہے اس کے ساتھ عید کے اصل مقاصد معاشرتی ہم آہنگی،رواداری اور غریب،امیر کے فرق کو ختم کرنا ہے لیکن ہم ان مقاصد کو بھول جاتے ہیں۔عید ہمارے سماجی فرق کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ غریب کے بچوں کابھی خاص خیال رکھنا ہوگا۔جہاں آپ اپنے پانچ بچوں کے لئے نئے سوٹ،شوز خرید تے ہیں اس کے ساتھ ایک غریب بچے کے لئے بھی وہی چیزیں خرید سکتے ہیں
مجھے کافی مایوسی، بے بسی اور غم محسوس ہو رہا ہے۔ جنہوں نے اپنی جانوں کو کھو دیا، ان کے یتیم بننے والے بچوں اور ان کی بیوہ ہونے والی بیواوں کا سوچ کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے،

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا