نجی تعلیمی اِدارے کِتنے بیچارے؟

0
0

ملک بھرمیں جاری لاک ڈائون کے چلتے زندگی تھم سی گئی ہے،ہرکسی کودووقت کی روٹی کے لالے پڑ رہے ہیں،امیروں کابھی دم گھٹ رہاہے،درمیانہ دارطبقہ سفیدپوشی میں وقت گذار رہاہے، غریب پس رہاہے، مزدور رُسواہورہاہے،ریل گاڑیوں ،بسوں وٹرکوں تلے کچلاجارہاہے،کوئی پھانسی کے پھندے پہ لٹک کرموجودہ صورتحال سے نجات پانے کے جتن کررہاہے،ایسے حالات وواقعات سے انسانیت کانپ اُٹھتی ہے، مردہ ضمیر کومہ سے اُٹھ جاتے ہیں،ہرکسی اہل دِل میں مددکاجذبہ پیداہوتاہے ،رب سے دُورہوئے لوگ پھرسے اپنے اپنے طورطریقے سے رب سے رجوع کررہے ہیں،سرمایہ دارلوگ غریب غرباء کی مددکررہے ہیں، لیکن ایسے حالات میں بھی کچھ ایسے عناصر،ایسے گروے اورایسے’ دھندے والے‘ ہیں جواعلیٰ حکام کو شیشے میں اُتارلیتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے مجبورلوگوں کودودوہاتھ لوٹنے سے بازنہیں آتے۔
اس ضمن میں جموں وکشمیرکی بات کی جائے تو یہاں نجی اسکولوںکے اتحادنے حکومت کوایسے شیشے میں اُتارا،حکومتی نگاہوں میں ایسے مگرمچھ کے آنسوبہائے کہ اُس کی نظریں دھندلی کردیں کہ اُس چشمے میںسرکارکونجی اسکول والے کنگال نظرآئے اور غریب غرباء مالامال دِکھنے لگے!،اور پھرحکمنامہ جاری کردیاکہ نجی اسکول ٹویشن فیس کریں!
افسوس کامقام یہ ہے کہ نہ صرف ٹویشن فیس بلکہ حکومتی ہری جھنڈی ملتے ہی نجی اسکولوں نے ٹویشن فیس کیساتھ ساتھ سالانہ اخراجات کے نام پرایک بھاری بھررقم بھی طلب کرناشروع کردی اور مصیبت کی اس گھڑی میں پریشان حال لوگوں کے موبائل فونوں پراسکولی پیغامات کی بوچھاڑنے انہیں ذہنی اذیتوں میں مبتلاکررکھاہے،بچے گھروں میں قیدہیں،والدین اپنے کام دھندے سے محروم ہیں،اُن کے پاس اِتنی جمع پونجی بھی نہیں کہ دووقت کی روٹی کیساتھ ساتھ گھربیٹھے بچوں کی ٹویشن فیس ودیگر اخراجات اسکول والوں کی جھولی میں ڈال دیں۔
حکومت نے یہ فیصلہ لیتے ہوئے انتہائی عجلت سے کام لیااور یک طرفہ فیصلہ لیتے ہوئے کروڑپتی نجی اسکول مالکان کی ’فریبی فریاد‘سُنی لیکن والدین کی جانب نگاہیں نہیں دوڑائیں، نجی اسکول اگر اپنے اساتذہ کو تنخواہیں دینے کااحسان جتلاکروالدین کی جیب پہ ڈاکہ ڈالناچاہتے ہیں تواگروہ اپنے اساتذہ کوتنخواہیں دینے کے اہل نہیں توحکومت سے کوئی پیکیج طلب کریں، آپ متحدہیں ، آپ کی ایسوسی ایشن ہے اور ایل جی اور مرکزی حکومت سے رجوع کریں ،اپنے بے بسی کاجوازپیش کریں،اگرآپ اِتنے ہی غریب ہیں تواپنے لئے مالی پیکیج کی مانگ حکومت کے سامنے رکھیں۔
دہائیوں سے آپ نے والدین سے کمایاہے،اپنے اساتذہ کو ویسے بھی حقیر سے تنخواہیں دی جاتی ہیں،اُن کی ملازمت کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی جب من کیااُنہیں باہرکاراستہ دکھادیاجاتاہے، بے روزگاری کے عروج پانے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان آپ کی تجوریاں بھرنے والے کاایندھن بن گئے ہیں کیونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو حقیر سی تنخواہوں پہ رکھتے ہواور پھرچندماہ کایہ آزمائشی دورکیاآیاآپ کے پاس ان اساتذہ کے گھرکاچولہاجلانے کیلئے پھوٹی کوڑی تک نہیں اورآپ والدین پہ عذاب بن کرمسلط ہورہے ہو!
پرنسپل سیکریٹری محکمہ تعلیم ڈاکٹر اصغرحسن ساموں انتہائی شفیق اوراعلیٰ تجربہ کار بیوروکریٹ ہیں،وہ یقینا والدین کی مجبوری کوسمجھتے ہیں اور لاک ڈائون کے چلتے وہ اس طرح کے سرکیولرجاری کرنے سے اجتناب کریں گے اور جاری کردہ سرکیولر کوفوری طورپرمنسوخ کرنے کافرمان جاری کریں گے، ایسی اُمیدلاکھوں بے بس والدین کی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا