شاهد اعظم
9986831777
کوروناوائرس کے بتدریج پھیلتے قہر کی پریشانیوں میں پوری دُنیا مبتلا ہے۔لوگوں کے میل جول یا سماجی اختلاط Social distancing کو عملی طورپر احتیاطی تدبیر کے طور پر اپنانے لاک ڈاؤن کا راستہ اختیار کیاگیا۔ ساری چہل پہل پر روک لگ گئی، گہماگہمی تھم گئی۔ مگر باوجود اس کے کورونا کی وباء شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ہندوستان میں تین مرحلوں میں پورے 54؍ دن کا لاک ڈاؤن چل رہا ہے اور 17؍ مئی تیسرے مرحلہ کی تالہ بندی/لاک ڈاؤن کے بعد کیا ہوگا اس پر سب لوگ بے چین ہیں۔ پچھلے دس دنوں سے لاک ڈاؤن میں نرمی لائی گئی۔ صبح تاشام لوگ اپنی گاڑیوں میں گھرو ں سے نکلے، راستوں پر ٹرافک جام لگ گیا۔ تجارت کی گرتی حالت کو سنبھالا دینے کے نام پر اور ریاستی حکومتوں کی ٹھپ ہوئی آمدنی میں بہتری کے لئے دُکانیں کھل گئیں۔ بالخصوص تقریباً چالیس دنوں سے بند شراب کی فروخت کا اعلان ہوتے ہی شراب کے شوقین اور عادی لوگ لمبی قطاروں میں لگ گئے۔ ملک کے بڑے شہروں میں صرف ایک دن میں 2؍ کروڑروپیوں کی شراب فروخت ہوئی۔ وہ لوگ جو گھروں میں بند تھے ، انہیں اپنی لت کی تکمیل کا موقع فراہم کرکے ریاستی حکومتیں پُرامید ہونے لگیں کہ چند مہینوں میں جو خسارہ تھا اُس کی بھرپائی ہوجائے گی۔ یعنی شراب کی فروخت سے حکومتیں یہ چاہتی ہیں کہ اُن کی آمدنی کے ذرائع بہتر ہوجائیں ۔ یوں لگ رہا ہے کہ سڑکوں اور دُکانوں میں بھیڑ بھاڑ سے سماجی ومعاشرتی فاصلے اب مذاق بن گئے ہیں۔ مہاجر مزدوروںکی گھرواپسی کے اعلان کے ساتھ ہی بس اور ریلوے اسٹیشنوں پر بھیڑ اُمڈ آئی۔ Social distancing بھاڑ میں گئی۔ دھکّم دُھکاکے دوران مزدور بے بس و لاچار ہوکر سوار ہونے لگے۔ اب مزدوروں کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے،جو ملک کی معیشت میں اپنی محنت سے اہم کردارادا کرتے ہیں اُن کی دُرگت افسوسناک ہے۔ جو ٹھیکیدار مزدوروںکوکام پر رکھا کرتے تھے ایک تو وہ روپوش ہوگئے اور اُن کی خبرگیری کو غیرضروری سمجھا۔ اب جب مزدورشہروں سے اپنے گاؤں واپس ہونے لگے تو انہیں روکے رہنے پر ریاستی حکومت پر دباؤ بنائے رکھنے کی کوششیں کیں کہ وہ اگر نکل پڑے تواُن کے لئے کام کرنے کی خاطر کوئی مل نہیں پائے گا۔ بھوک پیاس اور بے روزگاری سے مایوس مزدور اپنے گاؤں نہیں لوٹتے تو کرتے کیا؟۔ ریاستی حکومتوں کی جانب سے ان مزدوروں کے لئے جو کچھ راحت کاری کے نام پر کیاگیا وہ ناکافی تھا۔
مصیبت کے دوران پریشان حال مزدوروں کے کام آنے کے بجائے منافع خور اُن کے استحصال پر اُتر آئے ہیں۔ خصوصاً شمالی ہند میں بہار اور یوپی کے مزدور نہتے راستوں پر پیدل چلتے اپنے گاؤں جارہے ہیں۔ جو حکومتوں کی جانب سے بسیں (Buses )چلائی گئیں وہ بھی ناکافی رہیں ۔ سامان لے جانے والی ٹرکیں اب ان بے بس مزدوروں سے فی کس تین ہزار روپئے بٹورنے میں لگی ہیں یعنی ہوائی جہاز کا کرایہ اس سفر کا ان ٹرکوں میں لیا جارہا ہے جو کہ مزدوروں کو ہائی وے کے دہانے پر چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اپنے گھروں کو پھر پیدل چلنے انہیں پہنچانا پڑتا ہے۔ ایسے حالات ہیں جو صرف چند ہی اصول پرست ٹی وی چینلس پر دکھائے جارہے ہیں۔ حاملہ عورتیں اپنے گھر والوں کے ساتھ جھلستی گرمی میں پیدل راستوں پر چل رہی ہیں۔ ایک مزدورحاملہ نے سڑک کے کنارے اپنے بچے کو جنم دیا ۔ پھر ایک گھنٹہ بعد وہ اپنے کنبہ والوں کے ساتھ 160؍ کلومیٹر پیدل چلتی رہی۔ یہ کچھ ایسے دردناک واقعات ہیں جو حکومتوں کی بدنظمی کی بولتی تصویریں ہیں۔
ویسے اب ہندوستان میں سب جان گئے ہیںکہ لاک ڈاؤن کا اعلان کسی معقول منصوبہ بندی کے بغیر Unplanned طریقے سے ہوا۔ رات 8؍ بجے اعلان ہوا اور چار گھنٹوںبعد 12؍ بجے اس کے اطلاق کے احکامات یہ کہتے جاری ہوگئے کہ جو جہاں ہے وہ وہیں رہے۔ ریاستی حکومتیں اپنا کام سنبھالیں گی ۔ مگر دوسری ریاستوں سے کام کرنے کی غرض سے آئے مزدوروں کی حالت بدسے بدتر ہوتی گئی۔ کورونا وائرس کی پھیلتی وباء کی روک تھام کے لئے لاک ڈاؤن لاگو کیاگیا تھا۔ اب مرکزی حکومت یہ کہتی نظرآرہی ہے کہ بیماری کی روک تھام میں کامیابی ملی ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس سامنے آرہی ہے، اب کورونا کے بڑھتے قدم روکے نہیں جارہے ہیں۔ متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہی جارہا ہے، لوگ صحتیاب بھی ہورہے ہیں۔ اور ساتھ میں اموات کا سلسلہ بھی جارہی ہے۔ ایسے میں بی جے پی یہ خوشخبری پھیلارہی ہے جو اُن کی خوش فہمی ہے کہ لاک ڈاؤن کے باعث وزیراعظم مودی کی مقبولیت میں تقریباً 8؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی خوشامد کرنے والے ٹی وی چینل ٹائمز نوTimes Now نے گودی میڈیا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے 6؍ بڑے شہروں میں سرسری طور پر 600؍ لوگوں سے تاثرات لئے گئے اور معلوم ہوا کہ کورونا کی روک تھام کے لئے مودی کے اقدامات کے باعث ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ حیرت ہے کہ 130؍ کروڑ کی آبادی والے ملک میں کم سے کم ایک کروڑ یا پھر ایک لاکھ کی آبادی بھی اگر کہتی کہ مرکزی حکومت کے اقدام لائق ستائش ہیں تو بات بنتی۔ مگر بدقسمتی ہے کہ ملک میں چاپلوسی اور نفرتوں کی وباء کورونامہلک مرض سے زیادہ خطرناک طور پر اُبھرتی آئی ہے۔ اپوزیشن نے جو ملک میں ہورہی بدنظمی پر فکر جتائی تو اس کا مذا ق اُڑایا جارہا ہے۔ مجموعی طور پر ایسے حالات اُبھر کر سامنے آرہے ہیں کہ تجارت اور معیشت کو سنبھالادینے کے نام پر لاک ڈاؤن میں نرمی لانے کے ذریعہ خطرناک نتائج کو راہ دی جارہی ہے۔ کوروناکے ساتھ ہی جینے کا اگر چلن عام ہوگیا تو حالات سنگین رُخ اختیار کرسکتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہوکہ حکومتوں کو لینے کے بجائے دینے کی ضرورت آجائے۔ اور دینے کے لئے کچھ نہ بچا توکیا دے پائیں گے۔