یہ مسلمہ حقیقت ہےکہ اس وقت امت مسلمہ جن دل سوز،پرآشوب،صبرآزمااوردل شکستہ مراحل سے گزررہی ہے،ہر صاحب دردان سے آزردہ اورکبیدہ خاطر نظرآتاہے۔امت مسلمہ کے قلب وجگرپرجس قدر جس تیزی اور جس منصوبہ بندی اور منظم سازش کے تحت حملے ہورہے ہیں،شاید تاریخ بھی اس بات پر شاہد ہو کہ اس کی مثال پیش نہ کر سکے۔آج مسلمانوں کے مال ومتاع لٹے جارہےہیں۔ہمارے کارواں پر رہزن کا بسیرا ہوگیاہے۔عصمت وعفت کو تار تار کیا جارہا ہے۔برطانیہ،امریکہ،تھاٸ لینڈ اور پورےمشرق ومغرب بلخصوص ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں اس وقت اگر کوی قوم قحط،خوفزدہ ،ذلت وپستی،ظلم و بربریت،غارتگری اورغربت وافلاس کاشکارہےتووہ ہے مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والے سادہ لوح قوم مسلم،جب کہ دوسری جانب مذہبی گروہ بندیاں،فرقہ پرستی،قوميت وعصبیت کا بدبودارنعرے،مغربی افکار سے مرعوبیت،بے پردگی وعریانیت،فحاشی وبےحیاٸ یہ وہ تمام داخلی اور خارجی فتنےوانتشار ہیں جو ہمیں آج اندر ہی اندردیمک کی طرح چاٹ رہےہیں۔آج ہمارے اندر افتراق وانتشار،سیاسی وطبقاتی تناٶ،عہدہ ومنصب کی لالچ،خودنماٸ،خود غرضی،خودپسندی،خودپرستی اوراناوعجب کوٹ کوٹ کر بھرے ہوے ہیں۔ہماری تہزیب وتمدن اورتعلیم وتعلم یہ سب کے سب فتنہ وفسادکی آماج گاہ بن چکے ہیں۔آج ہم اپنے آپ میں مست ومگن ہیں،ہمیں اس خوش فہمی نے تنزلی کی راہ پرلاکھڑاکردیاہےکہ ہم جیساعالم،فاضل،محقق ومدبراورطاقتور دوسرا کوٸ نہیں۔آج ہمیں ہر طرف سے زبوں حالی اورپستی وتنزلی کا منھ دیکھنا پڑ رہاہے۔ہماری جو حالت ہے وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے المناک ہےبلکہ ملت کے شیرازہ کو بالکل منتشراوراتحادواتفاق کےباب کوپارہ پارہ کرنے کے لیےکافی ہے۔پوری دنیاکےقوم ومذہب کے مقابل ہم نےاپنامقام ومرتبہ سب سےپیچھےچھوڑرکھاہے۔مادہ پرست قوموں کے اسیروغلام بن کراپنی زندگ کے پل گزار نے میں فخرمحسوس کرنے لگے ہیں۔ہم اس خالص مادہ پرست تہذیب وثقافت کی تقلیداورخوشہ چینی کو ترقی اور کامبابی کی علامت گرداننے لگے ہیں۔
ہرمذہب اورباشعور قوم کانظام حیات اس کے بنیادی عقاٸدونظریات،اقداروروایات،اصول وضوابط اورنظریہ حیات کا آٸینہ دارہوتا ہے۔اگرآج مسلمانوں میں اسلامی طریقہ حیات نہیں تو ہمیں مانناپڑےگاکہ ہم نےاسلام کو فقط زبانی دعووں اورکھوکھلےنعروں کے سوااسےایک کامل دین اورمکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے قبول نہیں کیا۔آج کاجو اجتماعی نظام (معیشت،عدل وانصاف،اخوت وبھاٸ چارگی،الفت ومحبت،قانون وسیاست)وغیرہ سے یہ بات عیاں ہے کہ یہ ایک اسلامی نظام حیات ہرگز نہیں۔کیاقرآن وسنت کاتعین کردہ نظم وضبط حق نہیں؟اگر حق ہے تو پھر حق کو چھوڑدینےکےبعدضلالت وگمراہی اورجہالت کےسوااورکیا رہ جاتا ہے جسے اپنا کر ہم کامیابی کی دولت سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔بیشک قرآن وسنت ہی کامیابی کی سنگ میل ہے،لیکن ہم قرآن وسنت سےبےزاروبےبہرہ دورگمراہی کی اندھیری کوٹھری میں قیدوبند ہیں،اورراہ راست سے ہٹ کر راہ فرار اختیار کیے ہوے ہیں۔براٸیوں پر ڈٹے فرحت وشادماں ہیں،ذرا برابر بھی یہ احساس نہیں کہ کل رب کے حضور جواب دہی کے لیے حاضر ہو کراپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے۔ہمارے دلوں میں خوف خدا موج زن نہیں،ہمارے اندر محبت ومودت کی پاکیزہ فضا قاٸم نہیں بلکہ عداوت و بغاوت کی صور پھونک دی گی ہے۔ماضی کی تاریخوں میں جس قوم نے علم وحکمت کاچشمہ اپنے گھر سے بہایاتھا،آج وہی ایک ایک قطرہ کے لیے دوسرے اقوام کا غلام بن کر جی رہی ہے۔وہی قوم جو دنیا کی ایک عظیم طاقت بن کرابھری تھی،آج ظالم وجابراورسفاک طاقتوں کے سامنےبےبس اورلاچار نظر آرہی ہے۔یہ اتنا بڑا تاریخی سانحہ ہے جس کے مضمرات کا جاننا امت مسلمہ کے لیے بے حد ضروری ہے۔اسلام کے علمی اورثقافتی دسترخوان پر بیٹھنےوالےآج امت مسلمہ سےبہت دورنکل چکے ہیں۔آج ہم غیروں کے ہاتھوں بک چکےہیں،اورہماری زمینوں پراغیارکاقبضہ ہوچکاہے۔ہماری نیتوں میں خلوص کی جگہ فتورحلول کرگیاہے۔علمی،ثقافتی،سیاسی،اقتصادی اورنظام زندگی کےمیدان میں تغافل وتسایلی کابہران ہو چکاہے۔حب نفس،عشق پرستی،راحت طلبی،تنگ نظری،طلب دنیااورذاتی اغراض سے دوستی ہوگی ہے۔بعض ذمہدار اشخاص چند سیم وزرکےبدلےبک چکے ہیں۔اہل دانش ومفکر سرگرداں رہنے کے بجاے گوشہ نشین اختیار کر چکے ہیں۔شدت پسندوں کا ایک طبقہ دن بدن پوری شدومدکےساتھ ظلم وستم کے چابک برسارہے ہیں۔آج ہماری جماعت ٹکڑوں اور ریوڑوں میں تقسیم ہوتی جارہی ہے۔کوٸ بھی شخص اپنی شہرت اورخودنماٸ کے چکر میں ایسےعمل کے لیے تیارنہیں جس میں پوری امت کی عزت وافتخارکاساماں ہو۔یاد رکھیں جو قوم اپنے مقصد زندگی اور نصب العین کو بالاےطاق رکھ دیتی ہے،اس کے ضروریات اورتقاضوں کے مطابق طرز عمل اختیار نہیں کرتی اور ان کے حصول یابی کے لیے ایثار وقربانی اورجہدمسلسل کرنے کےلیےکوساں اورکمربستہ نہیں رہتی اس کاصفحہ دہر سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے۔
ازقلم:محمد آفتاب عالم مصباحی سیتامڑھی