یواین آئی
سرینگر؍؍دنیا بھر میں یکم مئی کو منائے جانے والے ‘یوم مزدور’ کے موقع پر تقاریب و سمیناروں کو اہتمام کیا جاتا تھا لیکن امسال یہ دن اس وقت آیا ہے جب کورونا قہر کے باعث دنیا بھر کے مزدوروں کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر کے مزدروں کا حال بھی بے حال ہے۔بتادیں کہ وادی میں بھی اس دن کی مناسبت سے تقاریب اور سمیناروں کا اہتمام کیا جاتا تھا جن میں مزدور طبقے کے حقوق اور ان کی فلاح بہبود پر سیر حاصل گفتگو کی جاتی تھی اور سری نگر کی پریس کالونی میں احتجاج بھی ہوتا تھا۔ لیکن کورونا وائرس کے پیش نظر وادی کشمیر میں گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدور گھروں میں ہی محصور ہیں جس کے باعث انہیں گوناگوں مالی مشکلات کا سامنا ہے۔مزدورں کا کہنا ہے کہ اگر صورتحال مزید ایک ماہ تک جوں کی توں ہی رہی تو ان کا عیال وبا کے بجائے فاقوں سے مر جائے گا۔وسطی ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے علی محمد نامی ایک مزدور نے یو این آئی اردو کے ساتھ اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا: ‘میں ہر روز صبح سویرے حیدر پورہ چوک میں پہنچ جاتا تھا، جہاں روز درجنوں مزدور جمع ہوتے تھے اور وہاں مجھے کام مل جاتا تھا اس طرح میرے گھر کا چولھا جلتا تھا لیکن جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے تب سے میں نے اپنے گائوں میں صرف پانچ دن کام کیا ہے باقی دنوں سے بے کار گھر میں بیٹھا ہوں’۔انہوں نے کہا کہ گھر میں جو کچھ تھا وہ ختم ہونے کو ہے اور اب اگر کام نہیں ملا تو فاقے لگنا طے ہیں۔موصوف مزدور نے کہا کہ اگر میرے گھر میں کوئی بیمار ہوجائے گا تو اس کے علاج کے لئے میرے پاس پیسہ نہیں ہے۔بلال احمد نامی ایک مزدور نے کہا کہ میں تو دن میں مزدروی کرکے شام کو اپنے عیال کو کھلاتا تھا لیکن لاک ڈاؤن کے بعد مجھے کام ہی نہیں مل رہا ہے۔انہوں نے کہا: ‘میں دن میں مزدوری کرکے شام کو اپنے عیال کو کھلاتا تھا میرے پاس روزگار کا کوئی دوسرا وسیلہ ہی نہیں ہے لیکن لاک ڈاؤن کے بعد میرا کام بند ہے تب سے آج تک میں نے ایک پیسہ بھی نہیں کمایا اب دوستوں سے قرضہ لے کر عیال کی کفالت کررہا ہوں’۔موصوف نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران مجھے کسی فلاحی ادارے کی طرف سے نہ انتظامیہ کی طرف سے کسی قسم کی کا کوئی امداد ہوا اگر ایسا ہی رہا تو میرا عیال وبا کے بجائے فاقوں سے مر جائے گا۔دریں اثنا غلام حسین حسینی نامی ایک سماجی کارکن نے یو این آئی اردو کے ساتھ مزدوروں کی حلات زار کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: ‘یہ بات حق بجانب ہے کہ حکومت مزدوروں کی فلاح و بہبودی کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن یہاں عوامی سطح پر بھی مزدوروں کی بہبودی کے لئے ایسے اداروں کا فقدان ہے جو ایسے حالات میں ان کا خیال رکھتے’۔انہوں نے کہا کہ بیشمار ادارے موجود ہیں لیکن شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہے جو مزدوروں کو مشکل حالات میں چھپ کے مدد کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔موصوف سماجی کارکن نے کہا کہ اگر کوئی آج کسی کی مدد کرتا بھی ہے تو اس کی اس قدر سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر کی جاتی ہے کہ جن کی مدد کی گئی ہوتی ہے وہ شرمسار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سماجی سطح پر ایسے ادارے قائم کئے جائیں جو مشکل گھڑی میں مزدورں اور دوسرے ضرورت مندوں کی کو امداد بہم پہنچاتے ہوں۔ایک ریسرچ اسکالر نے نام مخفی رکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ حکومت نے غریبوں تک مفت راشن پہنچایا ہے اور رجسٹرڈ مزدوروں کے بینک کھاتوں میں کچھ پیسے بھی جمع کئے ہیں تاہم یہ کسی بھی لحاظ سے کافی نہیں ہیں اور حکومت کو مزدوروں کو فاقوں سے بچانے کے لئے مزید اقدامات اٹھانے چاہیے۔دریں اثنا کورونا وائرس لاک ڈائون کی وجہ سے وادی میں موجود ملک کی مختلف ریاستوں کے ہزاروں مزدوروں و کاریگروں کا جینا بھی از بس محال بن گیا ہے۔ وادی میں موجود غیر ریاستی مزدوروں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن سے ہمارا جینا محال بن گیا ہے۔وادی میں موسم سرما میں بھی بیرون وادی کے سینکڑوں مزدور وکاریگر موجود رہتے ہیں اور موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی ملک کی مختلف حصوں سے مزدور و مختلف کاریگر وارد وادی ہونا شروع کرتے ہیں جن کی تعداد ایک تخمینے کے مطابق پانچ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔