*ہندوستانی میڈیا کی زہر افشانی۔۔۔۔۔ کیا پایا کیا کھویا !!!!*

0
0

کیا موجودہ دور میں ہندوستانی میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے ؟

کیا میڈیا پوری آزادی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہا ہے ؟

سماجی سائنس اور صحافت کے طلباء کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ میڈیا جمہوریت میں ایک غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے ہمارے ملک میں میڈیا کی حالت کافی تشویشناک ہے۔ اور یہ بات ہوا میں نہیں کہی جارہی ہے بلکہ… PFI ( Press Freedom Index ) ہر سال ایک سروے کرتا ہے جس میں دنیا بھر کے ۱۸۰ ممالک شامل ہیں، PFI سروے کرکے ایک رپورٹ پیش کرتا ہے جس میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس ملک میں میڈیا کو کتنی آزادی حاصل ہے۔ ۲۰۱۶ کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان ۱۸۰ ممالک میں سے ۱۳۳ ویں مقام پر تھا اور پھر یہ اعداد و شمار سال بہ سال اور کم ہوتا گیا جو کہ ۲۰۱۷ میں ۱۳۶ واں مقام، ۲۰۱۸ میں ۱۳۸ اور ۲۰۱۹ میں یہ گھٹ کر ۱۴۰ ویں مقام پر آ پہنچا ہے۔ جو کہ بہت ہی شرمناک بات ہے، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلائے جانے والے ہندوستان میں میڈیا کو اپنی بات اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اور اپنے فرائض انجام دینے کی مکمل آزادی نہیں حاصل ہے ۔

ایسا اسی لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ میڈیا کبھی کسی کی پیروی یا طرف داری نہیں کیا کرتا تھا۔

لیکن کچھ عرصے سے تقریباً تمام ہی میڈیا چینلز کا رویہ تبدیل ہو چکا ہے سوائے کچھ کچھ کے ۔ میڈیا کو اصل میں جمہوریت کی بنیاد بھی کہا جاتا ہے کہ میڈیا ملک کی عوام کی تکالیف و مسائل کو اٹھائے اور عوام کی آواز بنے، میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ حکومت جب بھی کوئی ایسا قانون یا پالیسی بنائے جس سے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہو تو اسکے خلاف آواز اٹھائے اپنے چینلز کے ذریعے ۔ میڈیا عوام اور حکومت کے درمیان ایک کڑی ہے ۔ جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو مسلسل اٹھائے اور جب تک ان مسائل کو حکومت کی جانب سے حل نہ کیا جائے تب تک اپنے محاذ پر ڈٹی رہے۔

اور میڈیا کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ وہ حکومت سے سوال کرے اور جواب بھی طلب کرے ۔

لیکن کیا آج ایسا ہو رہا ہے ؟

نہیں!!!

ہرگز نہیں!!!

آج تو کئی میڈیا چینلز کسی مسئلے کے ضمن میں اپنے چینلز پر ایسی خبریں چلاتے ہیں کہ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ فرقہ واریت کو فروغ دے رہے ہوں یا کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی خاص نظریے کو فروغ دے رہے ہوں وغیرہ ۔ اور آج کے میڈیا نے سچائی اور سماجی مسائل سے بھی کہیں نہ کہیں کنارہ کشی کر رکھی ہے ۔

آج کل کئی میڈیا چینلز بے مطلب کے مسائل پر بحث کر رہے ہیں تو کئی نیوز اینکر ایسے ہیں جنہیں اپنے ملک سے زیادہ دیگر ممالک کے مسائل میں دلچسپی ہے ۔ ان تمام چیزوں سے ہٹ کر کچھ چینلز اور کچھ صحافی ہیں جو اصل مسئلوں پر بات کرتے ہیں اور حکومت کی غلط پالیسیوں وغیرہ کے خلاف لکھتے ہیں آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں دبایا جاتا ہے جیسا کہ گوری لنکیش کے ساتھ ہوا جو کہ ایک اعلی پائے کی صحافی تھیں ۔

علاوہ ازیں ہم تمام جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی دنوں سے ملک بھر میں عالمی وبا کورونا وائرس کے چلتے مکمل لاک ڈاؤن نافظ ہے ۔ جو کہ ایک غیر منصوبہ بند عمل ہے جس میں غریب اور مزدوروں کا بالکل خیال نہ کیا گیا ۔ ایسے حالات کے چلتے جو غریبوں اور مزدوروں کا گزارا بے حد مشکل ہوگیا ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزانہ کما کر بھی بہت مشکل سے اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرتے تھے ۔ لیکن اب معاملہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس اناج اور دوسرے ضرورت کی اشیاء مہیا نہیں ہے۔ تو ایسے میں میڈیا کو چاہئے کہ وہ ان غریبوں کی پریشانیوں کو حکومت تک پہنچائیں اور حکومت سے جواب طلب کریں کی آخر کب تک غریب عوام کو بھوک مری جیسے مسائل سے دوچار ہونا ہوگا ؟

آج ہندوستانی میڈیا ہر معاملے کو اسلاموفوبیا، مسلم مخالف، فرقہ وارانہ اور مذہبی رخ دینے کا کام کر رہا ہے ۔ یہ ایک شرمناک عمل ہے جو ہندوستانی میڈیا موجودہ دور میں کر رہا ہے ۔ اپنی ان تمام حرکتوں سے میڈیا آج عوام کے مابین اعتماد کھو چکا ہے ۔

*_میڈیا نے عوام کے مابین اعتماد کھویا اور کچھ نہیں پایا !_*

بحرحال تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ میڈیا کی آزادی پوری طرح خطرے میں ہے کیونکہ اب بھی کچھ چینلز اور کچھ صحافی ہیں جو پوری آزادی کے ساتھ اپنے کاموں کو انجام دے رہے ہیں ۔ اسکا ایک حل یہ ہی ہو سکتا ہے میڈیا خود اپنے حالات کا جائزہ لیں اور خود کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہیں۔

Contact no
9653231654

 

صدیقی محمد اویس
میراروڈ، ممبئی ۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا