ڈھول بجاکر لوگوں کو جگانے کی روایت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی
یواین آئی
سرینگر؍؍عالمی وبا کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے نافذ لاک ڈاؤن نے جہاں دنیا کے بیشتر ممالک میں تمام تر معمولات زندگی کو در وبرہم کرکے رکھ دیا ہے وہیں وادی کشمیر میں ماہ صیام میں سحری کے وقت سحر خوانوں کی طرف سے لوگوں کو مختلف طریقوں سے جگانے کی سالہاسال سے چلی آرہی روایت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔بتادیں کہ وادی کے شہر ودیہات میں عصر حاضر کے ہائی ٹیک دور میں بھی لوگوں کو سحری کے وقت بیدار کرنے کے لئے سحر خوان بارشیں ہوں یا برف باری میں گلی گلی اور قریہ قریہ گھوم کر کہیں ڈھول بجا کر تو کہیں بلند آواز میں ‘وقت سحر’ کہہ کہہ کر لوگوں کو نیند سے بیدار کرتے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ سری نگر کئی علاقوں میں سحری کے وقت سحر خوانوں کے بجائے مساجد میں لائوڈ اسپیکروں سے اعلانات کے ذریعے لوگوں کو بیدار کیا گیا جس سے لوگ تو اٹھ گئے لیکن وہ روایتی لطف وسکون غائب تھا۔تاہم کچھ علاقوں میں سحر خوانوں کو سحری کے وقت ہاتھوں میں ڈھول اور چھڑی لئے ہوئے محلوں میں جاکر لوگوں کو نیند سے جگانے میں مصروف دیکھا گیا۔ سحر خوان لوگوں کو نیند سے جگانے کے لئے ڈھول بجانے کے علاوہ قرآنی آیات اور نعت شریف اونچی آواز سے پڑھتے ہیں۔سری نگر کے پرانے شہر سے تعلق رکھنے والے فیاض احمد نامی ایک شہری نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ سحری کے وقت مسجدوں میں ہوئے اعلانات سے ہم اٹھ گئے۔انہوں نے کہا: ‘وبا نے سب کچھ بدل کے رکھ دیا ہے دیرینہ روایتوں کو بھی متاثر کررہا ہے، ہمارے محلے میں ایک سحر خوان سحری کے وقت لوگوں کو نیند سے بیدار کرتا تھا لیکن آج سحری کے وقت ہماری محلہ مسجد سے لائوڈ اسپیکر کے ذریعے اعلان کرکے لوگوں کو بیدار کیا گیا جس سے لوگ بیدار تو ہوگئے وہ سکون اور لطف غائب تھا’۔فیاض احمد نے کہا کہ جو سحر خوان ہمارے محلے میں گذشتہ کئی برسوں سے یہ کام انجام دیا کرتا تھا وہ بھی گھر میں ہی بند ہوگیا ہے۔ وسطی ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے شبیر احمد نامی ایک شہری نے کہا کہ ہمارے گاؤں میں بھی پہلی بار سحر خوان کے ڈھول بجانے کے لوگ اپنے موبائل فونوں کے الارم بجنے سے سحر کے وقت اٹھ گئے۔انہوں نے کہا: ‘ہمارا گاؤں کافی بڑا ہے، ماہ رمضان سے قبل ہی ایک دن سحر خوان یہاں ڈیرہ زن ہوکر سحر کے وقت لوگوں کو ڈھول بجا کر بیدار کرتے تھے لیکن امسال ان میں سے کوئی بھی یہاں نہیں آیا اس لئے لوگ اپنے موبائل فونوں کے الارم سے اٹھتے ہیں اور ایک دو محلوں میں مسجدوں میں موذن بھی اعلان کرکے لوگوں کو سحری کھانے کے لئے اٹھاتے ہیں’۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنس کی بدولت موبائیل فونوں اور گھڑیوں میں الارم کی سہولت آنے کے بعد بھی وادی میں سحر خوانوں کا لوگوں کو سحری کے وقت نیند سے جگانے کا سلسلہ نہیں رکا۔ بیشتر سحرخوانوں کا کہنا ہے کہ وہ رمضان المبارک کی آمد کا انتظار سال بھر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مطابق اگرچہ عیدالفطر کے موقع پر لوگ ہمیں اس کام کے عوض پیسہ اور ملبوسات و گھریلو استعمال کی چیزیں انعام کے طور پر دیتے ہیں لیکن سحری کے وقت لوگوں کو جگانے سے ہمیں دلی سکون ملتا ہے۔ تاہم انہیں اس بار دکھ ہے کہ وہ لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کا فریضہ سر انجام نہیں دے پائے۔