وزیراعلی کے حکم کے باوجود پولیس نہیں کرتی سخت کارروائی
ایم ندیم احسن
جمشید پور//گھوڑا باندھا میں مرکزی وزیر ارجن منڈا کے گھر کے قریب سبزی بازار میں سبزی فروش محمد نسیم کے ساتھ پہلے تو گالی گلوچ کی گئی اور پھر اس کی بری طرح پٹائی کر دی گئی لیکن یہ اچھی بات ہوئی کہ موجود لوگوں کی مداخلت سے اس کی جان بچ گئی غور طلب ہے کہ نامزد ایف آئی آر درج ہونے کے 40 گھنٹے گزرجانے کے بعد بھی کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے پولیس اپنی روایتی تفتیش کا بہانہ بناکر شرپسند عناصر کی پشت پناہی کر رہی ہے معاملہ گزشتہ روز بدھ کی صبح کا ہے ٹیکو باری نگرکے رہنے والا نسیم سبزی بازار میں سبزی دکان لگا رہا تھا کہ اسی درمیان اشیش پال اور اس کے غیر سماجی دوست آدھمکے نسیم کی شباہت سے شک ہونے پر اس کا نام پوچھا اور مسلم کے طور پر اس کی شناخت ہونے پر پہلے تو گالی گلوچ کی اوپھر پٹائی کا سلسلہ شروع ہوگیا موقع پر موجود لوگوں نے ہمت دکھائی اور مشکلوں سے نسیم کی جان بچ پائی نسیم آٹو رکشہ میں لوڈ سبزی لے کر وہاں سے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوگیا نامہ نگار نے آج جب گوبند پور تھانہ انچارج سے اس سلسلے میں پولیس کے اقدام کی تفصیلات جاننا چاہی تو انکا جواب تھا کہ تفتیش جاری پے نامہ نگار نے ان سے پوچھا کہ نامزد شکایت کے باوجود گرفتاری کیوں نہیں ہو رہی ہے تو انہوں نے پھر وہی جواب دیا چھان بین کر رہے ہیں دوسرا سوال کیا گیا کہ مسلم سبزی فروشوں کو دکان لگانے کے لیے انہیں حوصلہ اور تحفظ دیا گیا ہے تو اس پر بھی ان کا جواب تھا کہ پولیس کی گشتی گاڑی حالات پر نظر رکھ رہی ہے معلوم ہو کہ چند ماہ قبل ا ادیتیہ پور میں مسلم پھل فروشوں کو بھی مار پیٹ کر کے بھگا دیا گیا تھا وزیر اعلی نے ضلع پولیس کو سخت کارروائی کرنے کا فرمان جاری کیا تھا لیکن پھسپھسی کارروائی کی وجہ سے شرپسندوں کے ہوصلے بڑھ گئے اور تھوڑے وقفے کے بعد اسی آدتیہ پور میں اسی واقعہ کو پھر دہرایا گیا اور مسلم پھل فروشوں کی پٹائی کر کے انہیں دکان لگانے سے روکا گیا جس سے حوصلہ پاکر گھوڑا باندھا میں مرکزی وزیر کے گھر کے قریب شرپسندوں نے مسلم سبزی فروش کو تشدد کا نشانہ بنایا اور کھلے عام دی گئی گی کہ یہاں ہاں مسلم سبزی فروش دوکان لگائیں گے تو انہیں جان سے مار دیا جائے گا لمحہ فکریہ ہے کہ اب تک تفتیش کے نام پر پولیس لیپا پوتی کر کے شر پسندوں کو تحفظ دیتی نظر آرہی ہے واضح ہو کہ نامہ نگار نے واقعی کے دن ہی وزیراعلی کو ٹویٹ کرکے اس کی جانکاری دی تھی لیکن وزیراعلی کی طرف سے اس سلسلے میں اب تک کوئی فرمان جاری نہیں کیا گیا ہے اگر اس طرح کے واقعات پر روک نہیں لگایا گیا اور حکومت کی جانب سے سخت کارروائی نہیں ہوئی تو موبلنچنگ کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے گا اور ظاہر سی بات ہے کہ اس کا نشانہ زیادہ تر مسلم طبقہ ہی ہوتا ہے جس طرح کورونا معاملے میں مرکز نظام الدین اور تبلیغی جماعت کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت جھوٹا اور شرانگیز الزام لگا کر نشانہ بنایا گیا اس نے غیر مسلم برادران وطن کے دلوں میں داڑھی اور ٹوپی والوں سے بیزاری اور نفرت کا زہر بھر دیا ہے اس کے اثرات موبلنچنگ کی صورت میں سامنے آنے لگے ہیں گزشتہ ہفتہ اسی جھارکھنڈ میں ایک مسلم نوجوان راجو انصاری کا نام پوچھنے کے بعد رام گڑھ کے "گدی اے”تھانہ علاقہ میں اسے بہیمانہ طور سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا پولیس بھی پہنچ گئی اور پولیس کا حیرت انگیر اور بے حد شرمناک رویہ سامنے آیا جب پولیس کی موجودگی میں اسے مادرزاد ننگا کرکے پورے محلہ میں گھمایا گیا ہونا تو یہ چاہئے کہ پورے تھانہ کو معطل کر دیا جاتا اور اصولوں کے خلاف سخت کاروائی کی جاتی لیکن چند ایک نوجوانوں کو گرفتار کرنے پر بس کیا گیا ہے وائرل کیےگئے ویڈیو میں صاف نظر آ رہا ہے کہ پولیس مادر زاد ننگے نوجوان کا ہاتھ پکڑ کر بھیڑ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے کئی لوگوں کے کندھے پر "گمچھا” بھی دیکھا جا رہا ہے لیکن من کسی سے گم سا لے کر اس کے جسم کو ڈھاپنے کی کوشش کرتی نظر نہیں آتی ہے پولیس اور اور یہ بات پولیس کی کی فرض شناسی اور مجرمانہ غفلت پر سوال اٹھانے کے لیے کافی ہے گمان غالب ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد پورے ملک میں ماب لنچنگ کے واقعات سامنے آئیں گے جھارکھنڈ حکومت ماسٹر دنوں کے اندر دو جگہوں میں ہوئے موب لنچنگ کے واقعات پر سخت کارروائی نہیں کرتی تو پھر شر پسندوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور جھارکھنڈ ایک بار پھر ماب لنچنگ کی فیکٹری کے نام سے جانا جانے لگے گا