مختصر مگر بامعنی

0
0
 شعراء حضرات خود کو پرکھیں
چودھری ذکریا مصطفائی ترابی
زمانے کا اصول ہے کہ ہر چیز کے اصول ہوتے ہیں، اور جس چیز کے بھی اصول نہیں ہوتے وہ بے معنی ثابت ہوتی ہے۔جس طرح دنیا کے ہر ملک کا قانون ہوتا ہے اور قانون سے بغاوت کرنے والے کو مجرم سمجھا جاتا ہے، اس کی واہ نہیں ہوتی بلکہ وہ سزا کا مستحق ٹہر جاتا ہے، اسی طرح ادب کا بھی کچھ معاملہ ہے، ادب کسی بھی زبان میں رقم ہوتا ہو وہ اپنے قانون و ضوابط کے مطابق رقم ہوتا ہے، ادب میں نثر کے الگ قوانین موجود ہیں اور صنفِ شعاعری کے الگ قوانین موجود ہیں، اور اس میں فرق کرنے کے قوانین کو علمِ عروض کا نام دیا گیا ہے، شاعری ایک  فن ہے اگر اس فن کو اپنے قوانین کے مطابق عمل میں لایا جائے تو بہتر ورنہ قانون سے روگردانی فن کے ساتھ ناانصافی تو ہے ہی خود بھی انسان کسی مقام تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ فن کو سمجھنے کے لیے قانون کو سمجھنا ضروری ہے قانون کو اصول کہا جاتا ہے اصولوں سے کنارہ کشی وہ لوگ کرتے ہیں جن کے اصول نہیں ہوتے۔ اصول فن میں اعلی مقام رکھتے ہیں جہاں یہ فن کو چاندنی عطا کرتے ہیں وہاں ہی یہ ہمیں اپنی اہمیت و ضروریت کا احساس بھی دلاتے ہیں۔ شعراء حضرات کے لیے شاعری کے ساتھ ساتھ ان اصولوں سے وقفیت ہونا بھی بہت ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ شاعری یا عروضِ شاعری کی زمین پر کیا ہے۔اس کی جانکاری حاصل کرنے کہ لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم علوم کی وجہ تسمیہ کا علم حاصل کریں۔مختصر گفتگو کے ساتھ میں اپنی بات آپ صاحبان تک پہچاتا۱ ہوں کہ صاحب علم کہتے ہیں کہ عروض کی بنیاد بصرہ میں خلیل احمد بصری 100ھ 180ھ کے ہاتھوں پڑی۔
مولوی نجم الدین نجمی رامپوری اپنی کتاب "بحرالفصاحت” میں اسی وجہ تسمیہ کو یو بیان کرتے ہیں کہ "عروض اسکو اسلیے کہا جاتا ہے کہ شعر کو اس پر عرض کرتے ہیں” مطللب یہ ہے کی یہ وہ علم ہے جس کی بدولت شعر کو تولا جاتا ہے، تاکہ موزوں، غیر موزوں سے الگ رہے۔۔اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علم عروض سے مراد اطرافِ شعر بھی ہیں کہ اس سے شعر کے اطراف و جوانب کا علم ہوتا ہے، کسی محقق نے یہ بات بھی بیان کی ہے کہ خلیل بن احمد نے مکہ شریف میں دعا کی تھی کہ اے اللہ مجھے وہ علم دے جو میری طرف منسوب ہو تو اسے یہی علم حاصل ہوا اور مکہ شریف کا ایک نام عروض بھی ہے تو اس نے اسی نام پہ اس علم کا نام بھی رکھا۔ کچھ محقیقین کا کہنا یہ بھی ہے کہ شعر کے دوسرے مصرعے کے اخری لفظ کا نام عروض ہے اور اس علم میں زیادہ تذکرہ اسی کا ہوتا ہے اسلیے اس کال نام علمِ عروض ہے۔ اپنے معنی میں عرض کشف و ظہور کو بھی کہا جاتا ہے اور عرض ہی عروض کا مادہ ہے۔ چو نکہ یہ وہ علم ہے جس سے کھرے اور کھوٹے وزن کا انکشاف ہوتا ہے اسلیے اسے علم عروض کہا گیا۔
غرض علمِ عروض ہی وہ راستہ ہے جس کے زریعہ ہم شعر کی موزونیت اور غیر موزونیت تاک سفر کر سکتے ہیں، یہ علم شاعری کی زمین کو اس طرح سرسبز و شاداب بنا دیتا ہے جیسے آسمان سے بادل آ کر زمین کو سیراب کر جاتے ہیں۔ علمِ عروض سے ناواقفیت کی وجہ سے شعراء حضرات کی شاعری پُر عیوب ہوتی جا رہی ہے، افسوس کی ایسی بھی شاعری ہوتی ہے جس تعلق  شاعری سے دور نثرِ مقفی تک بھی رسائی نہیں ہوتی اور اچھے بلے شاعر لوگ اپنے اصل رسوک کی خاطر واہ واہ میں لگے رہتے ہیں اور اس طرح یہ مل کے صنف شاعری کو کمزور کر رہے ہیں۔ آج کل شاعری مشکلات کی منزلیں تحہ کر رہی ہے جس کی وجہ علمِ عروض کا نا ہونا اور لوگوں کو اپنی جھوٹی واہ واہ چاہنا بھی ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ اگر آپ شاعری کے اصول نہیں اپنا رہے ہیں تو آپ کی شاعری کبھی عیوب و نقوص سے پاک بھی نہیں ہو سکتی اور پھر کبھی کسی بھری انجم میں کسی صاحبِ علم کے سامنے جب آپ اپنا کلام پیش کرتے ہیں تو آپ کو بڑی مشکلات ہی نہیں بلکہ باتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس اللہ کی عطا سے شاعری کا فن اعلی پایا کا ہوتا ہے انہیں علم عروض کی حاجت بھی نہیں ہوتی۔ اسلیے کبھی کبار اچھے علوم عروض کے ماہر اچھی چیز نہیں کہہ سکتے۔علم عروض کا جاننا ایک شاعر کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جنا ایک فلسفی کے لیے علم منطق کا جاننا ہے۔ علم منطق کی تعریف یہ ہے کہ اس سے ایک صاحب فلسفہ فکری غلطی سے محفوظ رہتا ہے، تو علم عروض کا ماہر بھی اسی طرح شاعری میں موزونیت، اہنگ،موسیقیت کی خطا سے محفوظ رہتا ہے، عروض ایک ایسا فن ہے جس سے اشعار کا وزن کیا جاتا ہے اور موزوں یا ناموزوں ہونے کا علم ملتا ہے۔ ڈاکٹر جمالدین جمالؔ اپنی تصنیف "تفہیم العروض” میں لکھتے ہیں کہ عرو  وہ علم ہے جو شعراء کے کلام کی جانچ پڑتال کرتا ہے، مصروں کو ناپتا تولتا ہے تاکہ علم ہو کہ وہ اوزان میں سے کسی وزن کے برابر ہیں یا نہیں۔ علم عروض میں شعر کے بہت سارے اوزان مقرر کیے گیے ہیں۔ اگر کوئی کلام ان میں سے کسی وزن پہ پورا اتترے تو اسے موزوں کہتے ہیں نہ اترے تو غیرِ موزوں۔ مشہور نقاد و محقق شمس الرحمن "درسِ بلاغت میں لکھتے ہیں کہ ’عروض اس علم کانام ہے جس میں زبان اور شعر کا مطالعہ ایک مخصوص طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اس علم میں زبان کا مطالعہ اس نہج سے ہوتا ہے کہ زبان میں آوازیں کس نمونے پر جمع ہوتی ہیں، یعنی الفاظ کو ادا کرتے وقت جس قسم کی آوازیں نکلتی ہیں وہ لمبی ہیں یا چھوٹی ہیں؟کتنی لمبی آوازیکجا ہوسکتی ہیں، کتنی چھوٹی آوازیں یکجاہوسکتی ہیں ؟اور چھوٹی آوازوں کا بیک وقت اجتماع کس حدتک اور کس نمونے پر ممکن ہے”
     گویا کہ ہم اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ علم عروض کی قدرومنزلت اور فن شاعری میں اس کی اہمیت مسلم ہے
اور علم عروض کے بغیر فن شاعری کا کماحقہٗ مطالعہ اور اس میں کمال حاصل کرنا ممکن نہیں۔ علم عروض کے بغیر صنف شاعری میں آنا یا شاعری کرنا ایسا ہی ہے جسے بغیر اندازے کے نشانہ لگانا وہ لگ بھی سکتا ہے پر اسکے چوک جانے کے خطرات زیادہ ہیں۔ یہی حال موجودہ زمانے کا ہے کی علم عروض کے بنا ایسی شاعری کی جاتی ہے جو عیوب و نقوص سے مالا مال ہوتی ہے اور یہاں تک کہ کبھی کبار قافیہ اور ردیف کی بھی ایسی ٹھوکریں کھائی ہوتی ہیں کہ اللہ ہی حافظ و ناظر ، اور شاعری کرنے والے کے چاہنے والے اس کی اتنی جھوٹی واہ واہ کرتے ہیں کہ وہ اس واہ کی واہ میں اتنی ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے کہ اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ خطا کر رہا ہے جو وقت آنے پہ اسے سریہ سے زمیں پہ دے مارے گی۔ لہذا شعراء حضرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ علم حاصل کریں تاکہ کھرے اور کھوٹے کو پرکھنے کا ہنر آ جائے اور ہم باآسانی نظم و نثر کے درمیان فرق بھی کر پائیں اور خود بھی علم کے اعلی مراتب تک رسائی حاصل کر سکیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا