غیرت کا جنازہ ہے

0
0

ارونا ایک سیدھی سادی لڑکی ہے۔ وہ اچھی شکل اور پاکیزہ سیرت کی مالک ہے۔ اس کا رشتہ ایک اچھے گھرانے میں طے ہوگیا، لاک ڈاؤن کی وجہ سے شادی ملتوی ہوگئی ہے۔ بند نے گھر میں فاقہ کی صورت حال پیدا کردی ہے۔
اتفاق سے گلی میں ریلیف تقسیم ہونے لگی، چھوٹے بھائی بہنوں کی بھوک نے ارونا کو باہر نکلنے پر مجبور کردیا؛ وہ راشن کا پیکٹ حاصل کر کے اندر چلی گئی۔
دوگھنٹے بعد ارونا کے پاس اس کی سہیلی کا فون آیا: ” کیا ری! تُو تو WhatsApp اور Facebook پر چھا گئی، راشن کے پیکٹ کے ساتھ تو بہت اچھی لگ رہی ہے۔۔۔۔!“۔ وہ سن کر ہکا بکا رہ گئی، اسے پتہ ہی نہیں چلا، ریلیف لینے میں کب اس کی تصویر نکال لی گئی تھی!
پھر کیا تھا! اس کی یہ تصویر Share پہ Share ہوتی رہی اور وہ گھر کے ایک گوشے میں بیٹھ کر خاموش اپنی غیرت کو تار تار ہوتی محسوس کرتی رہی۔ دوسرے دن یہی فوٹو ایک مشہور اخبار میں شائع ہوگئی۔ وہ اخبار لے کر روتی ہوئی اپنے ابا کی طرف دوڑی، اس نے دیکھا کہ ان کے والد صاحب کسی سے فون پر بات کر رہے ہیں، وہ کسی کو صفائی دینے میں مصروف تھے، وہ بار بار ایک جملہ دہرا رہے تھے، ”ہم لوگ ایسے نہیں ہیں“، ان کے چہرے پر خواری اور شرمندگی کے آثار صاف نظر آ رہے تھے۔ آخر کار سامنے والے نے یہ کہ کر فون کاٹ دیا: ”سمجھ لو رشتہ ختم“۔
کچھ گھنٹوں تک گھر میں سناٹا چھایا رہا۔ پھر اچانک ایک کہرام مچا، پورا گھر ماتم کناں ہوگیا، ارونا نے انتہائی قدم اٹھا لیا تھا، اسے لگا، یہی اس کا آخری راستہ ہے۔ ؎
راشن تو بٹ رہا تھا، وہ فوٹو سے ڈر گیا
خود دار میرے شہر کا غیرت سے مر گیا

یہ ایک تمثیلی کہانی ہے؛ لیکن ایسی کہانیاں سچی بھی ہو سکتی ہیں۔ چند کیلو راشن پر مشتمل ایک پیکٹ دے کر کسی کی بے بسی کا تماشا بنانے والو! خدا کا یہ فرمان غور سے سن لو! شاید تمھارے کان کھل جائیں!
”اے ایمان والو! اپنے صدقات باطل نہ کردو احسان جتاکر اور ایذا دے کر“ (البقرہ: 264)۔ اتنا ہی نہیں؛ بلکہ اللہ رب العزت نے ریا اور دکھاوے نیز احسان جتانے کو منافقوں کی خصلت بتایا ہے۔
اسی آیت میں مزید ارشاد ہو تا ہے: ”اس کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور اللہ و قیامت پر ایمان نہ لائے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان، اس پر مٹی ہے۔ اب اس پر زور کی بارش ہوئی، جس سے اسے نرا پتھر کر چھوڑا“ (البقرہ: 264)۔
یہ ”نیکی کر اور فیس بک میں ڈال“ والا کار خیر بالکل اس بے کار سے پتھر کی طرح ہے، جس پر دھول اور مٹی کی پرتیں جمی ہیں، بارش کی چند بوندیں اس کی اصلیت فاش کرنے کے لئے کافی ہوتی ہیں۔
آگے اللہ تعالی نے ان لوگوں کی بھی مثال پیش فرمایا ہے، جو اپنے مال صرف اللہ کو راضی کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں: ”اور ان کی مثال جو اپنے مال اللہ کو خوش کرنے اور اپنے دل جمانے کے لئے خرچ کرتے ہیں ؛ اس باغ کی سی ہے جو بھوڑ (ریتیلی زمین) پر ہو، اس پر زور کی بارش گری تو پھل دوگنے ہوگئے“ (البقرہ: 265)۔
حضرت امام نووی شرح الاربعين میں لکھتے ہیں:
”کسی کو دکھانے کے لئے کوئی نیک کام کرنا ”ریا“ ہے اور کسی کام کو اس لئے انجام دینا کہ لوگوں کے سامنے اس کا فخریہ تذکرہ کرے گا، ”سمعہ“ کہلاتا ہے۔ یہ دونوں حرام ہیں“۔(شرح الاربعین، پہلی حدیث) ابن ماجہ کی حدیث ہے: ”حضرت ابو سعید خدری (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) بیان کرتے ہیں: ہم لوگ ایک بار آپس میں مسیح دجال کا ذکر کررہے تھے، اچانک نبی کریم ﷺ تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ”میں تمھیں ایسی چیز کی خبر نہ دوں، جو تمھارے لئے میرے نزدیک دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے!“ ہم نے کہا، ”ہاں“ یارسول اﷲ! ﷺ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’وہ شرک خفی ہے“، آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے اور اس وجہ سے لمبی کرتا ہے کہ دوسرا شخص اسے نماز پڑھتے دیکھ رہا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ: 4204)
مسلم شریف میں ہے: ”من سمّع سمّع الله به؛ من رای رایَ الله به“
جو لوگوں کو سنانے کے لئے نیکی کرے، اللہ اسے (عذاب) سنا دے گا اور جو دکھاوے کے لئے کرے اللہ اسے بہت جلد دکھا دے گا۔ (صحیح مسلم: 2986)

مستحقین کو راشن دینا بڑا نیک کام ہے، نمائش، تصویر کشی اور احسان جتاکر اسے برباد نہ کریں! آج ہم جن ہاتھوں سے ریلیف تقسیم کر رہے ہیں، کچھ دور نہیں کہ اللہ تعالی کل وہی ہاتھ کسی کے سامنے پھیلانے پر مجبور کردے۔

مرسلہ: انصار احمد مصباحی

9860664476

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا