آہ لگنے میں دیر نہیں لگتی
تجزیہ نگار
شبیر احمد مصباحی
جب سے دنیاپرانسان کے قدم پڑے ہیں تب سے اسے ہر روز کسی نہ کسی نئے تجربے یا مشاہدے سے گزرنا پڑا ہے۔ ہر بار انسان نے انہی تجربات ومشاہدات سے سبق لیکر اگے بڑھنے کی کوشش کی۔ وبائی امراض کا تعلق بھی انہی مشاہدات وتجر بات سے ہے۔ کورونا وائرس سے پہلے بھی متعدد وبائی بیماریاں آئی ہیں اور اپنی خدا داد صلاحیت سے انسان نے اس کا تریاق بھی ڈھونڈ نکالا۔مگر اس بار کی وبائی بیماری نے ہمیں چند جدیدتجربات سے روبرو کرایا۔ کہتے ہیں کہ ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ اس وبائی مرض میں بھی دو طرح کی چیزیں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ زندگی میں پہلی بار انسان کو انسان سے دور رہنے میں اپنی بھلائی نظر آنے لگی۔ یہ دنیا مانو تھم سی گئی۔ لوگ گھروں میں قید ہوکر رہ گئے۔ ایک دوسرے کو چھونے تک میں ڈر محسوس کرنے لگے۔زمانہ کتنا ترقی یافتہ ہوگیا تھامگر لاکھ جدید ٹکنالوجی کی نت نئی ایجادات کے باوجود ہمیں قدرتی آفات کے سامنے انسان کی بے بسی صاف نظر آنے لگی۔ وہ احباب کی قہقہوں سے پر محفلیں یاد آتی ہیں تو مانو دل میں ایک ٹیس سی لگ جاتی ہے۔ وہ انسان جو دن رات مصروفیات کی زنجیر سے جکڑ کر بھی نہیں تھکتا تھا آج گھر کی چہار دیواری میں آرام کرکرکے تھکاوٹ محسوس کرنے لگا۔ پدر پسر میں نفسی نفسی کاعالم کیا ہوتا ہے اس کا عملی نمونہ ہمیں جیتے جی مشاہدہ کرنے کو ملا۔ عقل انسانی کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والے سائنسدان بھی آج خود حیرت میں پڑے ٹکٹکی باندھ کر قدرت کی کارستانی کو پھٹے منہ دیکھے جا رہے ہیں۔ مگر اسی درمیان کچھ ایسی باتیں بھی مشاہدے میں آئی ہیں جو شاید دنیا کو کسی نئے نظام سے روبرو کرانے میں اہم کڑی ثابت ہوسکتی ہیں۔ جیسے پہلی بار ہمیں مشاہدہ کرنے کو ملا کہ دنیا میں بڑھ رہی ماحولیاتی آلودگی کو روکنے میں ہم ناکام ہوگئے تھے اس وباء نے پل بھر میں دنیا کے تمام ہنگامے بند کراکے دنیا کو مانو آلودگی سے بچانے کی جانب ایک پیش رفت کرائی۔ دکانیں، کارخانے، فیکٹریاں سب بند غرض آلودگی سے بچانے کے تمام تر انتظامات۔ چند جدید ایجادات کی طرف ہم نے توجہ بہت کم دی تھی جیسے آن لائن خریداری، آن لائن سٹیڈی، آن لائن دفاتری کام کاج، بچوں کی پڑھائی یہ وہ چیزیں ہیں جو ہم پہلے بھی کرسکتے تھے مگر اب کرنا پڑ رہا ہے۔ قدرت کی برتری کو لادینی افکار کے ذریعے شکست دینے کی ایک مہم سی چلی تھی اب ایسا نہیں ہے سب تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ کوئی ہستی ہے جو نظام کائنات کو اپنے کنٹرول میں لے کر چلارہی ہے۔ آپسی رشتہ دار، ازواجی رشتے، بال بچے، بوڈھے ماں باپ سب کو شکایت تھی کہ ہم ایک دوسرے کو وقت نہیں دے پا رہے ہیں، اب جب وقت ملا تو ایسا ملا کسی کو اب بہت دنوں تک شکایت نہیں رہے گی۔ جن بے سہارا
ا ور مظلوم اقوام کے درد کو کوئی نہیں سمجھ رہا تھا، ان پر ہورہی نیوکلیر بموں کی بارش اور اس میں مر رہے ان کے بے یارومددگار احباب کی جانوں پر آنسو بہانا تو دور یہ ہمارے لئے کوئی خبر بھی نہیں ہوتی تھی اب لوگوں کو احساس ہوا کہ انسانی جانوں کی قیمت ہوتی ہے؟ مجھے تو لگتا ہے اس شامی بچے کی خدا نے سن لی ”جس نے مرتے وقت کہا تھا ” خدا کو جاکر سب کچھ بتا دوں گا” شاید اس افغانی بچے کی آہیں پہنچ گئیں جس نے شدید زخمی ہونے پر کہا تھا ”ڈاکٹر میرے بازو کاٹ دینا استین نہیں کیونکہ میرے پاس اور کپڑے نہیں ہیں“یا ہو سکتا ہے اس فلسطینی بچے کے الفاظ عرش کے پردے سے ٹکرا گئے جس نے بھوک سے نڈھال ہوکر خدا سے دعا مانگی تھی”یا اللہ مجھ سے میری زندگی چھین لے اور مجھے جنت بھیج دے تاکہ میں پیٹ بھر کھانا کھا سکوں“ان لاکھوں فلسطینی، شامی، عراقی، یمنی، افغانستانی، دیگر تمام مظلوم اقوام کی آہ لگتا ہے خدا نے سن لی۔ مگرپھر بھی خدا بڑا رحیم و کریم ہے کہ یہ بیماری چین جیسے ترقی یافتہ دیش سے نکلی ورنہ کسی ترقی پذیر ملک سے نکلتی تو سوچو کیا ہوتا؟ اس کی تشخیص تک تو نسل انسانی کی ایک بڑی تعداد لقمہ اجل بن چکی ہوتی۔
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں اگے اگے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ جہاں تک ابھی تک تو بس یہ کہا جاسکتا ہے یہ دنیا ایک بڑی تبدیلی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ دنیا میں ان حالات کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
*دراس کرگل لداخ* 8082713692