مخصوص علاقے مشکوک علاقے؟

0
0

جموں وکشمیرکے ایک معروف ماہرقانون ایڈوکیٹ شیخ شکیل احمدنے اپنے ایک فیس بُک پیغام میں ضلع انتظامیہ جموں کوجھنجوڑتے ہوئے سوال کیاہے کہ جموں ضلع کے دومسلم اکثریتی علاقے بٹھنڈی اور گجرنگر سخت بندشوں کیساتھ ساتھ کس بناء پر ریڈزون قرار دئیے گئے ہیں جبکہ یہاں سے کوئی بھی مثبت معاملہ نہیں ہے،شیخ شکیل احمد نے کہاکہ جموں کامسلم سماج سیاسی اعتبارسے یتیم ہے،اِس کی آواز بلندکرنے والاکوئی نہیں اور اس طبقے کوانتظامیہ جیسے دباناچاہے دباسکتی ہے اور ایساکرتی رہتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں کامسلم طبقہ سیاسی طورپریتیم ہے اس کی کہیں کوئی نمائندگی نہیں ہے،کسی بھی مشکل گھڑی میں کوئی آواز اُٹھانے والانہیں،شیخ شکیل نے سچ کہاکہ جب کوئی اس طبقے کی آوازبلندکرتاہے تواُسے مقدمات میں پھنسایااور دبایاجاتاہے،یہ انتہائی افسوسناک پہلوہے کہ یہاں اِظہارِ خیال کی بھی آزادی نہ ہے، آئینی حقوق سے محرومی کی سب سے بڑی وجہ یہاں کی تنگ نذرسیاسی قیادت ،انتظامیہ میں فرقہ پرست عناصرکادبدبہ اورمسلم طبقہ کی اپنی کوئی سیاسی آوازکانہ ہوناہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں وکشمیرکی مسلم لیڈرشب جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہی بستی ہے لیکن آزمائش کے وقت وہ بھی مہمانوں کی طرح آتے اور چلے جاتے ہیں، پھرانہیں اپنے آبائی علاقے ہی یادآتے ہیں اور موقع پاتے ہی اپنے آبائی علاقوں کی جانب کوچ کرجاتے ہیں ، ایک عام ، بے بس وبے زبان  ساجموں کامسلم طبقہ تنہارہ جاتاہے،یہی وجہ ہے کہ بغیرکسی وجہ کے گجرنگر اور بٹھنڈی ریڈزون قرار دئیے گئے ہیں، مثبت معاملات نہ ہونے کے باوجود وہاں پابندیاں ہیں، صاحبِ توفیق حضرات پیٹ بھرکھاناکھارہے ہونگے لیکن جوغریب روزکماکرکھانے والاتھاآج وہ مجبور ہے،فاقہ کشی کاشکارہے،ان تک پہنچنے کی اجازت غیرسرکاری رضاکاراِداروں کے رضاکاروں کوبھی نہیں اورانتہائی کسمپرسی کے عالم میں یہ طبقہ اپنا وقت گذار رہاہے،یہ بھی حیران کن ہے کہ اگریہ علاقے ریڈزون قرار دئیے گئے ہیں تویہاں سوفیصدی سکریننگ کیوں نہیں ہوئی، مساجدمیں کچھ غیرریاستی لوگ پچھلے قریب قریب ایک ماہ سے بندہیں جنہیں کھانے پینے کی سہولیات تک میسرنہ ہیں، نہ ان کامیڈیکل ہورہاہے اورنہ ہی انہیں اپنی منازل تک پہنچایاجارہاہے،انتظامیہ اپنے ہزارگناہوں کو چھپانے کیلئے مسلم اکثریتی علاقوں میں بندشیں عائد کئے ہوئے ہے،کروناکیخلاف جنگ کی آڑمیں حکومت اپنی خامیوں پرپردہ ڈالنے کیلئے لاکھوں لوگوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہے،کیامسلم اکثریتی علاقہ ہوناہی ان کاقصورہے، یا پھر ان علاقوں میں روہنگیائی لوگوں کی جھگی جھونپڑیاں ہیں جن کی سزاسبھی کودی جارہی ہے،حکومت خاص طورپرڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو واضح کرناچاہئے کہ ایک معروف ماہرقانون کی جانب سے اُٹھائے گئے سوالات کے جوابات ان کے پاس کیاہیں؟تاکہ ان علاقوں میں یہ احساس مزیدنہ بڑھنے پائے کہ مسلم اکثریتی ہونے کی وجہ سے انہیں دبایاجارہاہے،کروناکی آڑمیں جمہوریت کاگلانہیں گھونٹاجاسکتا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا