مسائل کی زنجیر

0
0
     یہاں ہر انسان مسائل کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عوام تلخیوں اور پریشانی کا شکار ہو گئے ہیں، خاص طور پر نوجوان عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ایسے میں قابل تحسین ہیں وہ لوگ جو لوگوں کے دُکھ درد سمیٹنے اور ان میں آسانیاں بانٹنے کے لئے عملی طور پر سرگرم رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آنا انسانیت اور عبادت ہے۔ جو انسان دوسروں کے غم میں شریک ہوتا ہے۔ اس کے اپنے غم مٹ جاتے ہیں۔ زمانہ جوں جوں ترقی کرتا جا رہا ہے، باہمی محبت و تعاون کا جذبہ سرد پڑتا جا رہا ہے۔ایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل کا نقطہ ٔ آغاز ہوتا ہے۔ جموں کشمیر میں اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں۔ انسان کی ضروریات میں صحت، تعلیم، لباس اور طعام و قیام ہے مگر جموں کشمیر  میں زیادہ تعداد ان سے بھی محروم ہے، آج کے پرُ فتن دور میں ایسے اداروں کا قیام بے حد ضروری ہے جو خدمت خلق فلاحی اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اسلام کے عملی تعارف کے لئے خدمت خلق کا میدان سب سے پسندیدہ اور مؤثر عمل ہے۔ فلاحی و سماجی خدمات میں نوجوانوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔کیونکہ وہ بے غرض ہو کر خدمت خلق کا کام انجام دیتے ہیں۔ معاشرے میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کا سہرا بھی نوجوانوں کے سر ہے۔ نوجوان ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں۔ قوم کے معمار اور قیمتی سرمایہ تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ ملت کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ دماغی و جسمانی لحاظ سےدوسروں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ان میں ہمت و جستجو کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔کٹھن حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت نوجوانوں میں مضمر ہے۔ جموں کشمیر  میں بہت سے نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت یہاں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہے ہیں۔ معاشرے کے معاشی، فلاحی، انفرادی اصلاحی اور تحقیقی پہلو سے وابستہ انسانیت کی خدمت و ترقی کے امور کو سماجی کام کہا جاتا ہے۔ ان کاموں کا تعلق روح اور عمرانیات کے فلسفہ میں پنہاں ہے۔انسانیت سے پیوست ہر پہلو کی اصلاح، فلاح اور رہنمائی کے لئے جو بھی راستہ چنا جائے، وہ سماجی خدمت کے زمرے میں آتا ہے۔ سماجی کارکنان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انفرادی طور پر بھی مثبت و تعمیری سوچ کو پھیلائیں اور مفاد عامہ کے مسائل کے حل کے لئے سماجی تقاضوں کے تحت کوششیں کریں، کیونکہ وہ خود بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہیں، خاص طور پر نوجوان سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر اپنی قوم  کی تعمیر و ترقی و حفاظت میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ہر معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بڑی خاموشی کے ساتھ فلاح و بہبود کے کام کرتے ہیں۔ ایسے افراد کو نہ تو شہرت کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا لالچ، ان کے فلاحی کاموں سے حاصل کردہ اطمینان ہی ان کے لئے سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ فلاحی ادارے ہمارے معاشرے میں نعمت سے کم نہیں ہیں۔ ہمارے سماجی مسائل کی ایک بڑی وجہ جذبہ خدمتِ خلق کی کمی ہے۔ ہمارے ارد گرد مسائل میں گھرے کئی افراد مدد کی آس میں تڑپ رہے ہیں۔بیمار، لاچار، بے سہارا، یتیم، بیوہ، غریب، مسکین، بے گھر، سیلاب  یا دوسری کئی آفتوں کے مصیبت زدہ افراد، ایسے پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا ہم پر فرض ہے، خصوصاً نوجوان پر۔ انہیں چاہیے کہ ایسے افراد کی مدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور لوگوں میں شعور آگاہی پیدا کریں تاکہ وہ معاشرے کے کار آمد شہری بن کر  قوم کی ترقی میں تعمیری کردار ادا کریں۔ علاقے کے مسائل کی نشاندہی کریں۔ نوجوان اپنے فارغ وقت میں دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اپنا فارغ وقت کبھی فیس بک استعمال کرنے میں، تو کبھی اسٹیٹس لگانے میں، کبھی ٹک ٹاک پر ویڈیوز اَپ لوڈ کرنے میں ضائع کر دیتے ہیں۔ اپنے شوق کی تسکین ضرور کریں مگر اپنے قیمتی وقت کو کارآمد بنانے کے لئے سماجی و فلاحی کاموں کے ذریعے انسانیت کی خدمت کریں۔ اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ وہ کون سی سرگرمیاں ہیں، جنہیں انجام دے کر آپ اس کرہ ارض کو بہتر بناسکتے ہیں؟ ضرورت اس امرکی ہےکہ نوجوان طالب علم اپنے علم سے تاریک راہوں کو روشن کریں۔ کسی فلاسفر نے خوب کہا ہے کہ ’’ہمارے الفاظ ہی امید کے چراغ روشن کرتے ہیں۔اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا بلکہ اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ الفاظ خوشبو کی طرح ماحول کو معطر کر دیتے ہیں۔ یہ مواقع ہمیں ترقی کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص محروم طبقے کی بھلائی کے لئے کچھ نہ کچھ کر سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی دولت یا مادی اشیاء سے دوسروں کی مدد نہیں کر سکتے تو ہم اپنے وقت، علم، ذہانت اور اپنے ٹیلنٹ سے دوسروں کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں۔ جب آپ اپنا ذہن بنا لیں کہ آپ نے خدمت گزار بننا ہے تو آپ کے ذہن میں یقیناً مختلف خیالات آنے لگیں گے۔ان خیالات پر آسانی سے عمل کر سکتے ہیں، جن سے آپ کی تعلیم، ملازمت یا کام متاثر نہیں ہوتا۔ اگر ہفتے میں دو تین گھنٹے بھی بھلائی کے کاموں کے لئے نکال لئے جائیں تو اس سے معاشرے میں کئی اچھی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ اگر آپ انفرادی طور پر فلاحی کام کرنے سے قاصر ہیں تو مختلف نوجوانوں پر مشتمل گروپس بنائیں۔ فارغ وقت میں سماجی اور فلاحی مسائل کے حل کے لئے مل کر کام کر سکتے ہیں۔رضا کارانہ سرگرمیاں ملازمت کے حصول اور کیریئر میں ترقی کے لئے آسانی پیدا کرتی ہیں۔
تحریر: چودھری ریاض بڈھانہ
چرارشریف بڈگام
9596000508

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا