جب اللہ کا مؤذن پکارتاتھاتو ہم مغرور تھے!

0
0

اللہ پاک کی صفت جہاں غفورُرّحیم ہے۔ وہی ایک صفت قہار بھی ہے۔جب چائے جہاں چائے اپنی دونوں صفات کی تجلیاں دیکھا کر اپنی پہچان کروادیتاہے۔ اللہ پاک کی رحیمی تھی کہ آس کا مؤذن پکارتاتھا۔جب ہم نے آس پکار پر مغروری کی تو اس نے  قہاری کی  ایک جھلک دیکھا کر ہر ایک کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ اصل میں  اس کائینات کو چلانے والی ذات کوئی اور ہے۔ غیر تو غیر ہم مسلم بھی اللہ کے منادی کی  آواز پر بہت مغرور تھے۔  کل تک اللہ کا منادی اللہ کے گھر سے دن رات میں پانچ وقت یہ پکار لگاتاتھاکہ آو نماز کی طرف آو نماز کی طرف ۔آو کامیابی کی طرف آو کامیابی کی طرف۔نماز نیند سے بہتر ہے۔تاجر اپنی تجارت میں ملازم اپنی ملازمت میں مزدور مزدوری میں مصروف رہا۔آفیسران اپنے عہدے کے غرور میں رہے۔بادشاہ صدر وزیر مشیر قیادت اور کرسی کے نشے میں رہے۔ اللہ پاک کے منادی کو اپنے عمل سے بیکار قرار دیتے رہے۔فجر کی نماز قضاکردی نیند بہانے سے عشاء کی نماز تھکان کی بھینٹ چڑھا دی ۔ظہر کی نماز کام کاج اور مصروفیت کی نذر کردی عصر کی سفر کے بہانے ادا نہیں کی۔ اور مغرب کی نماز سیروتفریح اور یاروں دوستوں کے ساتھ گپوں میں نکل جاتی ہے۔یہاں تک نماز کو صرف غریب غربا علماء کے ساتھ ہی محصوص کردیاگیا۔امیر یا دولت مند  معاشرے یاسماج میں بظاہر مقام رکھنے والے نماز کو آر سمجھتے تھے۔ اللہ کی پناہ نمازیوں کو تو اتنا کہہ دیاجاتاتھاکہ تم نکمے ہوپڑتے رہو ہمیں  وقت نہیں ہے۔حج اور عمرہ جیسی عظیم عبادت کو سیر وتفریح کے طور عملایاگیا۔اسلامی اجتماع میں جانے سے گریز کرتے تھے ۔ امر بلمعروف اور نہی انلمنکر سے پرہیز کرتے تھے ۔مساجد سے مؤذن پکارتاتھا۔ہمیں کوئی خیال بھی نہیں ہوتاتھاکہ آخر سارے کائینات کے خالق کے منادی کی آواز ہے۔ ہر روز کے بہانک حادثات بھی ہمیں پیشگی اطلاع دیتے تھے۔ طوفان زلزلے بے وقت بارشیں رب کی ناراضگی کا پیغام دیتے تھے۔ لیکن ہم نے سب کچھ ایک طرف چھوڑ کر رب کی حضوری اور فرمانبرداری سے اعراض کیا۔ پہلے سے کیا دنیا بیماریوں مصائیب ولام میں مبتلا تھی کہ ایک ایسی بہانک اور مہلک بیماری نے جنم لیا ہے۔ جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔صدر وزیر اعظم سے لیکر ایک عام ملازم تک مجبور و پریشان ہیں ۔ ماہرین سائینسدان طبیب یا حکیم سیاست دان سب بے  بس ہوکر رہ چکے ہیں۔بس اس نتیجہ پر سب پہونچے کہ حفاظتی تدابیر ہی کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔اب عام لوگ کیا مخصوص طبقہ بھی مساجد میں جاناچاہتاہے۔ دل میں تڑپ جاگ اٹھی ہے۔ لیکن مساجد میں  جانے کی اجازت نہیں ہے۔ نماز جمعہ  کے لئے وقت تو ہے ۔منادی آذان دیتاہے۔ لیکن ساتھ میں اسی لوڈ سپیکر سے اعلان ہوتاہے۔ لوگ نماز جمعہ اپنے اپنے گھروں میں ہی اداکریں ۔آذان ہونے کے باوجود نماز  پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔مساجد کے باہر پہرے دار کھڑے ہیں کہ کوئی اندر نہ چلاجاے۔کوئی ذکر کی محفل کی محفل نہ منعقد کرلے کوئی اجتماعی دعا نہ کرلے ۔شادی بیاہ پر پابندی ہے۔ اب تو وقت یہ آچکا کہ جنازہ میں جن افراد کو سرکاری حکم نامہ ملے گا وہی جنازہ میں کھڑا ہوسکتاہے۔ایسی بہانک  حالت ہونے کے باوجود ہم ابھی خواب غفلت میں ہیں ۔ ابھی نمازوں کی پابندی نہیں قرآن پاک کی تلاوت کا معمول نہیں بناہے۔  اللہ تعالی  اور رسول مکرم کے احکام سے دوری ہے۔ ابھی  جھوٹ نہیں چھوٹا ہے۔ ابھی غیبت چغل خوری نہیں چھوڑی ہے۔ ابھی نفرت کی آگ ہمارے سینوں میں جل رہی ہے۔دوسروں کے عیب ڈھونڈنے میں ابھی بھی ہم اپنی خیریت تصور کررہے ہیں ۔اور جن گناہوں  نافرمانیاں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ناراض ہوکر مالک دوجہاں نے  کروناوائرس جیسی بیماری کو  پیدا کرکے پوری دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کردیاہےکہ آس کائنات کا خالق و مالک صرف ایک اللہ ہے۔مگر ہم اپنے آپ کو مسلمان تسلیم کرنے والے ابھی ان تمام بداعمالیوں نافرمانیوں میں مبتلا ہیں ۔ جن کی وجہ سے یہ ایک کرونا وائرس جیسی بیماری کو پیدا کرکے ہمیں اللہ کی طرف لوٹ آنے کا ایک موقع نصیب کیاہے۔  ایک چیونٹی کے سر جتنی آس بیماری نے سب بڑی بڑی طاقتوں کے سر نیچے کردئے ۔دنیا بھر کے سائنسدان اس وائرس کی ویکسین بنانے کی سرتوڑ کوششں کررہے ہیں لیکن ابھی تک ایسی کوئی ویکسین مارکیٹ میں نہیں آسکی جو اس کا علاج کرسکے۔۔۔
یقینا” اس کا علاج بھی تب ہی دریافت ہوگا جب رب راضی ہوگا۔رب ہم دنیا والوں سے ناراض ہوچکا ہے اسے منانا ہوگا۔کسی کو یاد ہوگا کہ ایک معصوم شامی بچے نے کہا تھا کہ میں ﷲ تعالیٰ کے پاس جاکر سب کچھ بتادوں گا۔یہ بھی مان لو کہ اس نے سب کچھ بتا دیا ہے۔اگر بچنا چاہتے ہوتو اپنے رب کو راضی کرلو اور یہ وقت صرف اسے منانے کا ہے جب وہ مان گیا تو اس بیماری کی ویکسین اور علاج ایک طرف اس وائرس کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا۔شرط یہ ہےکہ ہم اپنی تمام سابقہ غلطیوں کوتاہیوں لغزشوں پر ندامت کے آنسو بہائیں ۔گناہوں سے توبہ کرتے ہوے اللہ کے حضور صدق دل سے سجدہ ریز ہوجائیں ۔ابھی مساجد کے دروازے ہمارے لئے بندہوے ہیں ۔ گھروں میں اللہ کے حضور توبہ استغفار اور نماز پنجگانہ ودیگر نوافل سے اللہ کو منالو صدقہ وخیرات سے وبا سے اپنی حفاظت یقینی بنائیں ۔ابھی توبہ کا در کُھلا ہے۔ ورنہ اگر ہم نے پھر وہی سابقہ ریکارڈ گناہوں کو دہرایاتو آئیندہ جو عذاب آئے گا وہ اس سے بھی شدید ہوگا۔ پھر یہ کہہ کر پچھتانابیکار ہوگا کہ جب اللہ کا مؤذن     پکارتاتھا تو ہم مغرور تھے۔!!!!!!!
محمد ریاض ملک منڈی پونچھ جموں وکشمیر

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا