شہاب مرزا ،9595024421
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور ہر اہل ایمان کو رمضان کی آمد کی خوشی ہوتی ہے یہی مہینہ اہل ایمان کو اللہ کے قریب لے جاتا ہے رحمتوں، برکتوں، صبر کا مہینہ رمضان المبارک کے منتظر گنہگار بندے شدت سے اس ماہ کا انتظار کرتے ہیں کہ اس ماہ میں اپنے رب کو راضی کرکے گناہوں سے بخشش حاصل کرلی جائے غربا کی امداد، یتیموں کو کپڑے پہنانا، مستحقین میں روزمرہ کی اشیاء تقسیمِ کرنا کیوں کہ رمضان المبارک میں ثواب کی شرح میں عام دنوں کے مقابلے ستر گناہ اضافہ ہو جاتا ہے –
لیکن اس مرتبہ رمضان المبارک مختلف رہنے والا ہے کہ کرونا وائرس کے عالمی وبا کو روکنے کے لیے پوری دنیا میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے یہ وقت یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں پر کافی کٹھن ہے صرف مزدور نہیں اہل ثروت حضرات بھی مشکلات کا شکار ہے دوسری ریاستوں سے کام کی تلاش میں آنے والے کاریگر، ڈرائیور، مزدور پیشہ افراد بھی پریشان حال ہے یہ وقت سبھی کے لیے مشکلات بھرا ہے اور بتا نہیں سکتے کہ ایسے حالات کب تک رہیں گے گھروں میں آناج ختم ہو رہا ہے حکومت کی جانب سے بھاشن ہی مل رہا ہے جبکہ ایک بڑا طبقہ راشن کے انتظار میں ہیں عوام گھروں میں بند ہے کاروبار ختم ہوگئے سرکاری نمائندے غائب ہے اور عوامی نمائندے چھپے ہوئے ہیں سرکاری امداد کاغذوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے –
اگر اب جلد حالات ٹھیک نہیں ہوئے تو کورونا سے زیادہ بھکمری سے اموات واقع ہوگی لاک ڈاؤن کے بعد بڑی جماعتوں، سیاسی جماعتوں، فلاحی تنظیموں کی جانب سے راشن تقسیم کیا گیا تھا لیکن اس وقت بھی ایک بڑی آبادی اناج سے محروم تھی اور اب بھی محروم ہیں – جن مستحقین کو اناج دیا گیا تھا ان کا اناج بھی اب ختم ہوگیا ہے اور جنھیں نہیں دیا گیا وہ اب بھی منتظر ہے جماعتوں اور فلاحی تنظیموں کو بجٹ میں ختم ہونے کی کگار پر ہے – سبھی نے جلد بازی میں غیر منظم طریقے سے اپنے اپنے حساب سے اناج تقسیم کردیا اور اب غرباء مستحق منتظر ہے کہ رمضان المبارک سے قبل اناج یا امداد ملے گی لیکن اس کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں –
ہر سال رمضان المبارک میں مستحقین، مساکین، یتیموں، میں اناج تقسیم کیے جاتے تھے بیواؤں کو کپڑے، ضعیفوں کو امداد کی جاتی تھی لیکن اس مرتبہ یہ سب ممکن نہیں کیونکہ لاک ڈاؤن میں اناج امداد تقسیم کی جاچکی ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ شہر میں ہزاروں گھر ایسے ہیں جہاں سفید پوش لوگ حالات کی وجہ سے اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے سے قاصر ہیں – غریب، مفلس کے ساتھ میڈل کلاس طبقہ بھی پریشان حال ہیں اور جو اہل ثروت حضرات تھے انہوں نے تقسیم کردیا بس جو رمضان کی نیت سے بچا کر رکھا تھا وہ تقسیم کرنا باقی ہے شہر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شہر میں جتنا اناج اب تک تقسیم ہوا اس سے چھ گنا زیادہ آبادی اناج کے منتظر ہے اب ان حالات میں یہ کیا جاسکتا ہے کہ ہر سال ہم جو افطار اور سحر کا اجتماعی انتظام کرتے تھے جس میں ہمہ اقسام کے پھل و لوازمات کا اہتمام کرتے تھے، سیاسی شخصیات کی دعوت ہوتی تھی ، مہنگے فوٹو سیشن ہوا کرتے تھے وہ سب اب ہونے سے رہا تو اس سحر و افطار کے خرچ سے ہم آس پڑوس میں اناج و افطار کا سامان تقسیم کرسکتے ہیں اب کسی کے حالات ٹھیک نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن والے رمضان میں اپنا گزر کر سکے اس لیے ایسے لوگوں کا خاص خیال کریں جو کھاتے پیتے گھر کے تھے لیکن لاک ڈاؤن سے پریشان ہیں اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے – رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں کے ساتھ صبر کا مہینہ ہے اور عوام کو صبر کرنا ہوگا یہ دوہری آزمائیش ہے اور ایک طرح سے اللہ کا انعام بھی ہے فاقہ کشی سے مرنے کے بجائے اللہ آپ کو روزوں سے نواز رہا ہے رمضان المبارک کا نام "رَمضَ ” سے ماخوذ ہے رمضان کے معنی ہوتے ہیں ایسا مہینہ جس میں سورج کی گرمی اور تپش سے پتھریلی اور ریتیلی زمین گرم ہو جاتی تھی اور اس پر چلنے والوں کے پاؤں گرم ہو جاتے تھے اس لئے اس مہینہ کا نام رمضان رکھا گیا-
رمضان میں رحمتوں، برکتوں کے ساتھ صبر و تحمل، تقوی وپرہیزگاری، فراخ دلی، بھائی چارے کا مظاہرہ کرنا ہے ایمانی تقاضہ یہ ہے کہ عالمی وباء سے جو حالات ہوئے ہے اس میں ہم صبر سے کام لے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے دیکھنے میں آیا ہے کہ رمضان کے دوران مسلمانوں کے دسترخوان وسیع ہو جاتے ہے ایک شخص سال بھر اللہ کی نعمتوں سے اہل ثروت کی طرح سے استفادہ نہیں کرتا رمضان میں ایسے لوگوں کا بھی اللہ تعالی وہ نعمتیں عطا کرتا ہے جو اس کی دسترس میں نہیں یا جن کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا رمضان میں اہل خیر حضرات دستگری، زکوۃ کی شکل میں غریبوں کی مدد مسلمانوں کے معمولات میں شامل ہے لیکن اس بار جو رمضان آرہا ہے اس کی نوعیت مختلف ہے – اس لیے ہر شخص کو اپنے آس پڑوس میں خیال رکھنا ہوگا یہ وقت کا تقاضہ ہے ایک مہینے سے زیادہ جاری لاک ڈاؤن نے ہر کسی کا دائرہ تنگ کردیا ہے جو اہل خیر ہے انہوں نے اپنی بساط بھر لوگوں کی مدد کی اب صورتحال یہ ہے کہ دینے والا ہاتھ بھی خالی ہے اور لینے والا ہاتھ بھی خالی ہے – ایسے صورت میں کوشش یہ کی جائے کہ رمضان کو انتہائی سادگی کے ساتھ گزارے زیادہ لوازمات اور شاہ خرچ کرنے کے بجائے دوسروں کا خیال رکھا جائے یہ وقت واقعی صبر و تحمل اور اپنے رب کو راضی کرنے کا ہے اگر ہم نے صدق دل سے توبہ کی اور اپنے رب کو منا لیا تو نہ صرف اس رمضان کا حق ادا ہوگا بلکہ اللہ نے چاہا تو ہمیں اس عالمی وباء سے بھی نجات مل جائیں گے – انشاء اللہ