منتہائے فکر کی جانب سے طرحی بین الاقوامی آن لائن مشاعرہ
رپورٹ نوازش نقوی ، امروہہ،انڈیا
’’ایک شام رفیع ؔ سرسوی کے نام ـ‘‘ کے عنوان سے منتہائے فکر عالمی شعری ادارے کی جانب سے ضلع سنبھل ،اتپردیش میں واقع ایک مردم خیز تاریخی بستی سرسی سادات سے تعلق رکھنے والی عظیم شخصیت اوراس ادارے کے نہایت فعال اور بہترین شاعر سید رفیع الحسن رفیعؔ سرسوی کی یاد میں ۶؍ اپریل ۲۰۲۰ء کو ایک مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جو ہندوستانی وقت کے مطابق شام سات بجے سے اگلے دن صبح سات بجے تک جاری رہا ۔معلوم ہو کہ ۲۴؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو ایک افسوسناک خبر موصول ہوئی کہ گروپ کے فعال رکن اور مشہور و معروف استادشاعر محترم رفیعؔ سرسوی صاحب دار فانی سے دار بقا کی طرف رضائے الٰہی سے کوچ کر گئے۔اللہ تعلی انکی مغفرت فرمائے اور انکے درجات بلند فرمائے۔ آمین
الغرض گروپ کے ذمہ داران نے اس سلسلہ میں یہ فیصلہ لیا کہ مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کی یاد میں ایک مشاعرہ منعقد کیا جائے جس میں مرحوم کے اشعار پر کلام کہہ کر احباب گروپ میںپیش کریں۔اس کے لئے موصوف کے درج ذیل اشعار کا برائے طرح انتخاب کیا گیا۔
۱۔ بے سہارا چھوڑ کر ماؤں کو ہجرت کر گئے
گھر کے دروازے پہ گائیں دستکیں دیتی رہیں
۲۔ پابندِ سلاسل کی یہ رفتار کا عالم
میں وقت کے چہرے پہ تھکن دیکھ رہا ہوں
اس مشاعرہ کے لیے ردیف ان مصرعوں سے ہی لی گئی ہیں۔اشعار کے کسی بھی مصرع پر کلام کہنے کی شعراء کرام کو اجازت دی گئی تھی۔شعراء کرام کو قافیے، ردیف، واحد، جمع ،مذکر، مونث کے صیغے میں بدلاؤ کی رعایت بھی دی گئی تھی۔اس عالمی آن لائن مشاعرہ کی صدارت مشہور و معروف استاد شاعر جناب خورشید بسمل صاحب نے کی اور مہمان ِ خصوصی جناب اشفاق اسانغنی صاحب رہے۔حسب دستور مشاعرہ کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ اس ادارہ ٔ ’’منتہائے فکر ‘‘کے بانی و سرپرست جناب ذوالفقار نقوی صاحب نے آیات کلام الٰہی پیش کیں اورآپ نے نظامت کے فرائض بھی بخوبی انجام دیئے۔اس کے بعد جناب شاہد ترابی صاحب نے اپنی خوبصورت آواز میں جناب رفیعؔ سرسوی مرحوم کی کہی گئی نعت پاک پیش کی۔ اس کے بعد ہند و پاک اور دیگر ممالک سے وابستہ متعدد مشہور و معروف معتبر شعراء کرام نے باری باری ایک وقفہ کے ساتھ اپنے اپنے کلام پیش کئے۔ان تمام شعرا کے بہترین اورمعیاری کلام میں سے اشعار کا انتخاب کرنا یقیناً ایک بڑا مرحلہ ہے۔کیوں کہ شعراء کرام کی فہرست بہت طویل ہے اس لئے ہر شاعر کے پیش کردہ کلام سے ایک ایک شعر کا انتخاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلے ڈاکٹر شبیر حسین عنوان صاحب نے اپنا بہترین طرحی تعتیہ کلام پیش کیا۔نعت وہ صنف سخن جسے کہنے کے لئے سب سے پہلے خلوص ا ور عشق نبیؐ درکار ہے۔نور احمدی ہی نور اول ہے۔یہ کائنات خلق ہی نہ ہوتی جو اگر خلاق دو عالم ہمارے سرکار دو عالم کے ظہور کا ارادہ نہ کرتا۔ڈاکٹر شبیر حسین عنوان صاحب کی نعت کا شعر ملاحظہ فرمائیں۔کہتے ہیں۔
پھیلا جو فضاؤں میں تھا مہکار کا عالم
کیا سمجھے کوئی آمدِ سرکار کا عالم
اس کے بعد غزل کا سلسلہ شروع ہوا۔جناب یاور حسین یاور صاحب نے غزل پیش کی ۔جس کا ایک شعر یوں تھا۔
قوتِ پرواز ملتے ہی پرندے، پیڑ پر
بے سہارا چھوڑ کر ماؤں کو ہجرت کر گئے
نوجوان شاعر جناب بضاعت سانکھنوی صاحب نے کچھ اس طرح غزل میں کربلائی شعر پیش کیا۔ کہتے ہیں۔
پیاس کا خیمہ سجائے صبر کے دریا میں تھا
تیز سورج کی شعاعیں دستکین دیتی رہیں
جناب حافظ مؤثر عبا س زیدی صاحب نے اپنے درج ذیل شعر میں موت کی حقیقت اور انسان کی بے بسی کو اس خوبصورت شعر میں یوں پیش کیا۔
مجبور ہوا اتنا بشرموت کے آگے
گلشن سا بدن زیر کفن دیکھ رہا ہوں
حقیقت ہے انسان کی جذبات کی کوئی زبان نہیں ،لیکن انسان کیا کرے اظہار دل کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے لفظوں کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے۔جنا ب مؤثر صاحب نے اپنے اس شعر میں اس لفظوں کی تشنگی کو محسوس کیا ہے۔کہتے ہیں۔
وسعت کے نہ ہونے کی بنا اردو زباں میں
لفظوں کے کلیجوں میں گھٹن دیکھ رہا ہوں
جناب میر شبیر صاحب سرینگر ، کشمیر ہند نے غزل پیش کی جس میں احساسات کی خوشبوصاف نظر آتی ہے ۔ ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔ کہتے ہیں۔
سورج کی شدتوں میں کمی پائی تھی لیکن
برسوں کے بعد تجھ پہ گہن دیکھ رہا ہوں
جناب علیم اسرار صاحب کی غزل کا خوبصورت مطلع ملاحظہ کریں۔کہتے ہیں
ہر سمت تجلی ہے کہ تنویر کا عالم
کیا تجھ سے کہوں میں تری تصویر کا عالم
راقم نوازشؔ نقوی، امروہہ نے بھی غزل پیش کی، جس کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔
مہتاب نے کیا شب کے اندھیروں کو مٹایا
سورج ترے ماتھے پہ شکن دیکھ رہا ہوں
ایک شکستہ دل کو اگرذرہ برابر بھی امید کی کرن نظر آ جائے تو اکثر وہ تمام غموں کو بھول کر پھر ایک نئی راہ دیکھنے لگتا ہے۔ جناب رضا الحسن رضا ؔ صاحب پائتی کلاں ، امروہہ کہتے ہیں۔
وہ ملنے کو آئنگے یہ جس دن سے سنا ہے
بڑھتے ہوئے خوشیوں کے قدم دیکھ رہا ہوں
جناب شاداب انجم صاحب ، کامٹی، ضلع ناگپور نے غزل پیش کی۔آپ کی غزل میں جہاں دور حاضر کے پرآشوب حالات کا کرب دکھائی دیتا ہے وہیں امید کی ضیا بھی نظر آتی ہے۔غزل کا ہر شعر لائق داد ہے ،مطلع درج ذیل ہے۔کہتے ہیں۔
میں میل کا پتھر نہ ڈگر دیکھ رہا ہوں
پیروں پہ جمی گردِ سفر دیکھ رہا ہوں
جناب اکمل حنیف صاحب صدر تنظیم ’’اسلوب انٹر نیشنل‘‘نے اپنی تین طرحی غزلیں پیش کیں۔آپ نے محفل میں ایک الگ رنگ پیدا کر دیا ۔ہر غزل معیاری تھی اور تمام اشعارلائق داد تھے۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
صرف اب الفاظ پورے ہو رہے ہیں بحر میں
شاعری سے آج کل افکار ہجرت کر گئے
حاکم کے قصیدے نہیں لکھے اسی خاطر
شاعر کے ہوئے ہاتھ قلم دیکھ رہا ہوں
ہاتھ میرے جل گئے لیکن دیا جلتا رہا
میرے ہاتھوں پر ہوائیں دستکیں دیتی رہیں
جناب حسن اصغر نقوی صاحب سرسی سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک ادبی مرکز ہے۔یہاں کی مٹی کے ذرہ ذرہ میں شاعری کی خوشبو ہے۔آپ رفیع سرسوی صاحب کے بھتیجے بھی ہیں۔آپ کا ایک شعر ملاحظہ کریں۔
مُر جھائے ہوئے پھول ہیں جھُلسی ہوئی کلیاں
کس حال میں یہ اپنا چمن دیکھ رہا ہوں
جناب مظہر قریشی صاحب ناگپور کی طرحی غزلیں پیش کی گئیں۔ باظرف ہونا کسے کہتے ہیں اس بات کی عکاسی مظہر صاحب نے اپنے اس شعر میںکی ہے۔ کہتے ہیں۔
غرق ہوتے ہوتے بھی اس کو ہماری فکر تھی
ڈوبنے والاکنارے کا اشارہ دے گیا
جناب مظہر صاحب کے کلام منفرد لب ولہجہ لئے ہوئے ہے۔یہ شعر دیکھیں۔
آنکھوں میں حیا ہونٹوں پہ اقرار کا عالم
ہے آج جدا یار کی گفتار کا عالم
محترمہ شائستہ سحر صاحبہ نے بہترین غزل پیش کی جو نئے مضامین سے آراستہ ہے۔ہر شعر لائق داد و تحسین ہے۔ ایک شعر دیکھیں۔
اک وہ ہے کہ منزل کی طرف دیکھ رہا ہے
اک میں ہوں کہ بس، رختِ سفر دیکھ رہی ہوں
جناب شارق خلیل آبادی صاحب نے دو طرحی غزلیں پیش ۔آپ نے محفل میں رونق کو اور بڑھا دیا۔ہر شعر خوبصورت و منفرد لب و لہجہ لئے تھا۔جن میں سے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ کہتے ہیں۔
وہ رہے ہوں گے کسی شہرِ ستمگر کے مکیں
چھین کر جو لوگ گل، ہاتھوں میں پتھر دے گئے
بدلا ہے بھلا طرز چمن آج یہ کیسا
اب خار بھی ،یاں گل کی قبا مانگ رہے ہیں
کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جن کی موجودگی کسی محفل میں ہو تو دیگر حاضرین محفل بھی فخر محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ایسی ہی ایک عالمی شہرت یافتہ اور معتبر شاعرہ ڈاکٹر مینا نقوی صاحبہ ہیں۔آپ نے اس نشست میں چار طرحی غزلیں پیش کریں۔ جن کا ہر شعر لائق داد و تحسین ہے۔بہر حال ہر غزل کا ایک ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔
کار زارِ عشق میں ویسے تو لوگ آئے گئے
ہم شہادت تک مگر مقتل میں ٹھہرائے گئے
دل میں تھا موجود پھر بھی ہم کو جانے کیا ہوا
ہو کے کس سنسار میں گم دستکیں دیتے رہے
امید جو قائم ہے تو ہے زندگی باقی
ہے دھوپ میں سائے کی طرح آس کا عالم
آداب بھلا بیٹھے ہیں شعرا و مصنف
کس سمت کو جائے گا ادب دیکھ رہی ہوں
جناب امید اعظمی صاحب ،ممبئی ایک معتبر شاعر ہیں آپ نے بہت خوبصورت اور بہترین غزل پیش کی ۔جس کا ہر شعر بہت خوبصورت اور علیٰ تخیل لئے ہوئے ہے۔ ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔
اوڑھے ہوئے پوشاک ہیں کچھ وحشی صفت لوگ
پہنے ہوئے انساں کو کفن دیکھ رہا ہوں
جناب شمشاد صاحب نے دو بہت عمدہ طرحی غزلیں پیش کیں ۔نایاب فکر کے مالک ہیں آپ کا انداز منفرد ہے۔جن کے اشعار درج ذیل ہیں۔
حکام کے ذہنوں کا خلل دیکھ رہا ہوں
آنکھیں ہیں رعایا کی سجل دیکھ رہا ہوں
مجھ کو میری بزدلی نے روک رکھا تھا وہاں
خون میں لت پت ردائیں دستکیں دیتی رہیں
منتہائے فکر گروپ کے بانی و سرسپرست جناب ذوالفقار نقوی صاحب نے ایک منفرد فکر و نظر پیش کرتے ہوئے اپنی ایک بہترین و معیاری طرحی غزل پیش کی۔نایاب انداز سخن اور اعلیٰ تخیلات آپ کے کلام میں موجود ہیں۔ ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔
ہر سمت ہیں شعلوں کے چٹخنے کی صدائیں
جلتا ہوا ہر ایک مکاں دیکھ رہا ہوں
جناب ضیاء شہزادصاحب ، کراچی نے اپنی دو غزلیں پیش کیں۔جن کاہر شعر لاجواب اور منفرد فکر لئے ہوئے ہے۔اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
وحشتوں نے اس برس بھی کیسا ہنگامہ کیا
لوگ اپنا چھوڑ کر گھر بار ہجرت کر گئے
در بند ہوا مسجدو مندر کا بھی یارو
جو پہلے نہ دیکھا تھا سماں دیکھ رہا ہوں
مشہور و معروف معتبر استاد شاعر جناب کامل جنیٹوی صاحب نے چار طرحی غزلیں پیش کیں۔ جن کا ہر شعر قابل داد اور لائق مبارک باد ہے۔ منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں۔کہتے ہیں۔
ہر لمحہ سلگتا جو وطن دیکھ رہا ہوں
احساس کے پہلو میں چبھن دیکھ رہا ہوں
فرصت ہو میسر تو کبھی دیکھنا آکر
فرقت زدہ اجڑے در و دیوار کا عالم
اک طرف ایوانِ شاہی میں چراغاں سارہا
ایک جانب مفلسوں کی بستیاں جلتی رہیں
جتنے تھے خوش رنگ منظر آج ہجرت کر گئے
سبز شاخوں سے گلِ تر آج ہجرت کر گئے
حقیقت میں زندگی وہ ہے کہ جو انسان کو اس کے بعد مرنے کے بھی یاد کیا جائے اور وہ اپنے تعمیری عمل کی شکل میں ہمیشہ تاریخ میں یاد کیا جائے۔ بے مقصد زندگی فقط سانسوں کا چلنا ہے۔اس حوالہ سے جناب احمد جمیل صاحب برہانپوری، مدھیہ پردیش کہتے ہیں۔
ایسے بے حس لوگ بھی تھے زندگی کی بھیڑ میں
بے سبب زندہ رہے اور موت آئی مر گئے
جناب ایم رضوان عدم صاحب ،کراچی نے ایک منفرد لب و لہجہ کے ساتھ اپنا کلام پیش کیا۔خوبصورت اشعار کہے۔ کہتے ہیں۔
ساحل سے گُریزاں رہی ارمان کی موجیں
خذبوں کے سمندر میں وہ طوفان کا عالم
جناب شکیل کالاباغوی صاحب نے عمدہ غزل پیش کی ۔ ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔
سمجھے نہ محبت کے سرابوں کو کبھی بھی
اقرار کا عالم ، کبھی انکار کا عالم
جناب مجاور حسین صاحب نے جناب رفیع ؔ سرسوی مرحوم کی غزل پیش کی۔یہ غزل بیشک مرحوم کے اعلیٰ استادانہ فکر کی عکاسی کرتی ہے۔ہر شعر ایک منفردمضمون لئے ہوئے ہے۔ ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔
کچھ اور ضرورت ہے اسے میرے لہو کی
مقتل کو ابھی تشنہ دہن دیکھ رہا ہوں
مہنان خصوصی جناب اشفاق اسانغنی صاحب نے اپنے منفرد لب و لہجہ کے ساتھ طرحی کلام پیش کیا۔ہر شعر ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔ شعر ملاحظہ فرمائیں۔
اس شہر سے مفقود ہوئی آئینہ سازی
میں اپنے ہی چہرے کو یہاں بھول گیا ہوں
جناب خورشید بسمل صاحب نے ایک بہترین اور معیاری طرحی کلام پیش کیا۔ تمام شعر لائق تعریف ہیں۔کہتے ہیں۔
ہر سمت نظر آتا ہے تحریک کا فقدان
میں وقت کے چہرے پہ تھکن دیکھ رہا ہوں
اس طرح یہ مشاعرہ اپنی کامیابی کی منزل کو پہنچا۔بہت سے شعراء کرام نے واٹس ایپ گروپ کے علاوہ منتہائے فکر کے فیس بک پیج پر بھی اپنا طرحی کلام پیش کیا۔آخر میں جناب ذوالفقار نقوی صاحب نے منتہائے فکر نے گروپ میں موجود تمام شعراء کے بہترین معیار ی کلام کی تعریف کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان ادبی شخصیات کی موجوگی اس گروپ کے لئے بہت بڑی خوش نصیبی ہے۔اس کے ساتھ ہی مہمان ِ خصوصی جناب اشفاق اسانغنی صاحب نے ناظم مشاعرہ اور معزز شعرائے کرام کو اس کامیاب مشاعرے کی دلی مبارکباد پیش کی۔ اس نشست کے صدر جناب خورشید بسمل صاحب نے آخر میں صدارتی خطبہ پیش کیا۔
صدارتی خطبہ جناب خورشید بسمل صاحب
مرحوم رفیع سرسوی کی یاد میں منعقد مشاعرہ ، منتہائے فکر آن لائن مشاعروں میں ایک یادگاری مشاعرہ رہے گا۔انتظامیہ منتہائے فکر کی کئی روز کی محنت شاقہ رنگ لائی اور ہمیں ایک خوبصورت اور معیاری مشاعرہ ہاتھ آیا۔
نوجوان اور بزرگ شعرا کا خوبصورت کلام آغاز مشاعرہ سے انجام تک بنا رہا اور لمحوں میں تقریباً ۴ گھنٹے کا وقت گزر گیا۔ایک سے ایک معیاری کلام سننے کو ملا،دل کھول کر شعرا کو داد ملی زبردست پر مزا مجلس رہی۔جدید ٹیکنا لوجی نے بلاشبہ اردو زباں کے فروغ کے لئے زبردست مواقع فراہم کئے ہیں۔
یاد کیجئے وہ دن جب شعرا کو کسی مشاعرے میں شرکت کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے تھے اور آج کیا مزے ہیں، گھر بیٹھے بین الاقوامی مشاعرہ پڑھنا۔
جناب ذوالفقار نقوی صاحب جو کہ اس کارنامے کے ایک اہم کردار ہیں،ہم سب کی دعاؤں کے مستحق ہیں ۔دعا ہے رفیعؔ سرسوی کی یاد میں آج کی ہماری یہ چھوٹی سی کوشش اللہ قبول فرمائے۔ناچیز کو اس خوبصورت مجلس کی صدارت کا موقع دیا گیا۔میں اس کے لئے انتظامیہ کا مشکور و ممنون ہوں۔اللہ اس کارواں کو صدیوں پر دم رکھے۔