گجربکروال :ہرحال بدحال!

0
0

ہرآزمائش میں رسوائی کیلئے ذمہ دارکون؟
کروناکیخلاف جنگ میں جموں صوبہ کادودھ فروش گجرطبقہ روزِ اول سے ہی پیش پیش رہا،جس نے اپنی زندگی خطرے میں ڈالتے ہوئے ریڈزون ہویاکوئی اورزون ہر جگہ دودھ جو لازمی خدمات میں شامل ہے‘مہیاکرایا،اس خدمت کی راہ میں اس کے آڑے کچھ ضمیرفروش خاکی والے بھی آئے جنہوں نے ان کی خوب پٹائی کی ،بعدازاں اعلیٰ پولیس حکام کی ہدایات کے بعد ایسے پولیس اہلکاروں پرلگام لگی اوردودھ سپلائی کرنے میں اس طبقہ کی مشکلات کچھ کم ہوئیں،تاہم لاک ڈائون کی وجہ سے جیسے نظامِ حیات تھم ساگیاہے، کاروبارٹھپ ہے حتیٰ کہ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑاکاروباری ہرکوئی بے بس ہے،ا ن کے کاروباری اِدارے ٹھپ ہیں ،سماج کاہر طبقہ بے بسی،فاقہ کشی اور مصیبتوں کاشکارہے۔تاہم مرکزی سرکارنے کئی ایسے اقدامات بھی اُٹھائے جن سے لاک ڈائون کے دوران لوگوں کوکچھ راحت نصیب ہوئی ہے،لیکن جموں وکشمیرکے مال مویشی پالنے والے طبقے جن میں اکثریت گجربکروالوں کی ہے‘ان کی طرف نہ ہی مرکزی اورنہ ہی ایل جی انتظامیہ کی نگاہیں پہنچ پائی ہیں،لاکھوں کوئنٹل روزانہ دودھ پیداوارکرنے والے اس طبقے کے نہ ہی مال مویشی کیلئے کوئی خصوصی پیکیج دیاگیا،نہ بندکے دوران مال مویشی کیلئے کہیں چارے کاانتظام کیاگیااورنہ ہی خانہ بدوشی کی زندگی جی رہے اس طبقے کی عارضی بستیوں میں سرکاری راشن پہنچ پایا،سرکارکی جانب سے مکمل طورپرنظراندازکئے گئے اس طبقے کودودھ کی بِکری کم ہونے کی وجہ سے بھاری مالی نقصانات کاسامناہے،اور یہ طبقہ اپنے بچوں کاپالن پوشن کرنے سے بھی قاصرہے،روزانہ مال مویشی کاپیٹ بھرنے کیلئے بھی انہیں نقدی چارہ خرید کرلیناپڑتاتھااوراِسی طرح یہ طبقہ گھروں میں بھی زیادہ راشن ذخیرہ نہ کرتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر ہی راشن لایاکرتے تھے،لاک ڈائون کے بیچ انہیں انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے گذرناپڑرہاہے ،ایک طرف کئی مقامات پرچند پولیس اہلکاروں کاغیرانسانی رویہ،شرپسندعناصرکے ذریعے دودھ میں تھوکنے جیسی افواہیں پھیلاکرطبقے کومالی طورپرکمزوربنانے کی سازشیں تودوسری جانب سرکاری عدم توجہی طبقہ کیلئے دردِ سربن چکی ہے، دوسری جانب ایک تازہ پیش رفت کے طورپردعوے کئے جارہے ہیں کہ جموں ، سانبہ اور کٹھوعہ میں قائم قرنطینہ مراکزمیں گجروں نے مفت دودھ مہیاکرانے کافیصلہ کیاہے،یہ دعویٰ جن صاحبان نے کیا، وہ گجروں کی مشکلات سے کِتناواقف تھے یہ وہی جانتے ہیں تاہم زمین پرجاکر جب دودھ فروشوں سے جاننے کی کوشش کی گئی تووہ ایسے کسی فیصلے سے انجان نظرآئے اورکہاکہ یہ کچھ صاحبِ توفیق حضرات کافیصلہ ہوسکتاہے،اور اگرکسی کو اللہ نے اتنی توفیق دی ہے تووہ ہمارادربدرہورہا دودھ خرید کر قرنطینہ مراکزمیں مفت مہیاکرائے تاکہ ہمارے بچے بھی پیٹ بھرکھاناکھاسکیں اور ہمارامال مویشی بھی بھوکا نہ مرے،بلاشبہ موجودہ صورتحال میں طبقہ اس حالت میں نہیں کہ وہ سرکارکی اتنی بڑی معاونت کرے کہ وہ مفت دودھ تین اضلاع میں قائم درجنوںقرنطینہ مراکزمیں مہیاکرائے،البتہ طبقہ کے صاحبِ توفیق حضرات اورخاص طورپراس جانب پہل کرنے والے حضرات کوچاہئے کہ وہ ان مجبوردودھ فروشوں سے دودھ خرید کرسرکارکومہیاکرائیں،فاقہ کشی کے دہانے پہ پہنچ چکاطبقہ مددکامتمنی ہے،طبقہ کے نوجوانوںاورسماج کے روشن خیال لوگوں کوسامنے آناچاہئے اوراس طبقہ کے مسائل کواُجاگرکرناچاہئے اورانہیں بھی باوقار زندگی جینے کاحق دیناچاہئے،طبقہ جن مشکلات سے دوچارہے اس کے پیچھے ان کی کوئی متحرک نمائندگی کانہ ہوناہے،ان کی آوازبلندکرنے والے متحدنہ ہیں،’اپنی ڈفلی اپناراگ‘اور وقت گزاری والی پالیسی پہ ہرکوئی عمل پیراہے،یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ ہرآزمائش میں ذلت ورسوائی اورمالی نقصانات کاشکارہوتاہے۔خداراہ ان کی نمائندگی انفرادی شہرت کیلئے استعمال نہ کرتے ہوئے طبقہ کی ذی شعور حضرات اور خاص طور پرروشن خیال نوجوانوں کوکسی متحدہ پلیٹ فارم کاقیام عمل میں لاتے ہوئے اس طبقہ کے معیارِ حیات کوبلندکرنے کیلئے علمی میدان میںکام کرناچاہئے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا